شاہ ولی اللہ ، سر سید اور مذہبی انتہا پسندی

آر اپادھیائے  

سید احمد بریلوی 17861831

شاہ ولی اللہ کے فرزند عبدالعزیز 1746-1823 نے اپنے والد کی روایت کا سلسلہ برقرار رکھا اور ان کے شاگرد رائے بریلی سے تعلق رکھنے والے سید احمد بریلوی کو آگے بڑھایا تاکہ شاہ ولی اللہ اور سعودی عرب کے مولانا وہاب کے عقیدہ کے جہادی جذبہ کو آگے بڑھایا جاسکے ۔ اسی سلسلہ میں بریلوی نے دارالسلام کے قیام کے مقصد سے غیر اسلامی طاقت راجہ رنجیت سنگھ کی سکھ مملکت پر حملہ کردیا ۔ حالانکہ وہ بالکوٹ کی جنگ میں کام آگئے جو مئی 1831 میں ہوئی تھی ۔ انہیں ہندوستانی مسلمان اسلام کے کاز کیلئے اب بھی شہید مانتے ہیں۔

مسلم اقتدار کو بحال کرنے اپنی کئی کوششوں میں مسلسل ناکامی کے بعد عقیدہ میں جہادی جذبہ رکھنے والے عناصر نے ملک میں کئی د ہائیوں تک اپنی مہم کو معطل رکھا کیونکہ سارے ملک پر برطانوی سامراج نے اپنا تسلط جما لیا تھا ۔ 1857 میں سپاہیوں کی بغاوت کی ناکامی کے بعد مسلم انقلابی عناصر کے حوصلے پست ہوگئے اور وہ ہندوستان میں اسلامی اقتدار بحال کرنے کی امید چھوڑ بیٹھے ۔ انہوں نے اس کے بعد منظم اسلامی تحریک شروع کی ۔ انہوں نے اسلامی ادارے جیسے دارالعلوم دیوبند اور دارالعلوم ندوۃ العلما لکھنو میں قائم کیا اور یہ ادارے مولانا وہاب اور شاہ ولی اللہ کے مذہبی ۔ سیاسی نظریہ کو آگے بڑھا رہے ہیں۔

لکھنو میں فرنگی محل مغل حکمران اورنگ زیب کے دور اقتدار ہی میں قائم ہوگیا تھا ۔ یہ ادارے مسلمانوں کے نمائندہ بنے ہوئے ہیں۔ ان اداروں میں اکثریت ایسے طلبا کی ہوتی ہے جو غربت کا شکار خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں یا پھر لوور مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں۔ ملک میں اسلامی سیاسی نظام کو رائج کرنا تو دور کی بات ہے یہ نظریاتی مذہبی ادارے آج ہزاروں بے روزگار اسلامی مولوی پیدا کررہے ہیں ۔ کچھ ایسے بھی جن کی ملازمت خاطر خواہ نہیں ہے ۔

ان اداروں کو اپنے فارغ التحصیل طلبا کی مادی خوشحالی کی کوئی فکر نہیں ہے ۔ سماج میں جمہوریت ‘ سکیولر ‘ سائنٹفک ‘ صنعتی اور عصری صورتحال کیلئے مذہب میں کوئی خاطر خواہ امیدیں محسوس نہ کرتے ہوئے عام مسلمان مسجد یا مدرسوں سے آگے نہیں دیکھتے ۔ ایسے میں یہ ادارے اپنے عقیدہ کے خود ساختہ مجاہد ہی پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کی ثقافتی شناخت یا تشخص کا تحفظ کرنے کے نام پر یہ مجاہدین در اصل مسلمانوں کے اعلی طبقات کے کاز کو پورا کرنے میں مصروف ہیں۔

سر سید احمد خان 1817-1898

ادارہ جاتی نظریاتی تعلیم کے ذریعہ اسلامی احیاء کی تحریک کے متوازی سر سید احمد خان 1817 – 98 نے ایک مثالی مسلم علیحدہ تحریک شروع کی جو عام طور پر علی گڑھ تحریک کے نام سے جانی جاتی ہے ۔ سر سید احمد خان مغل خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور وہ برطانوی اقتدار کے وفادار تھے ۔ علی گڑھ تحریک ایک سیاسی اور تعلیمی نظریہ کیساتھ شروع کی گئی تھی جس کا مقصد ہندوستانی مسلمانوں کو عصری تعلیم فراہم کرنا تھا ۔ حالانکہ سر سید احمد خان سنی اسلام کے کٹر حامی تھے لیکن ان کے خیالات میں1857 کی بغاوت کے بعد خاطر خواہ تبدیلی آئی کیونکہ انہوں نے اس بغاوت میں اپنی برادری کے افراد کو جو نقصانات ہوئے تھے وہ دیکھے تھے ۔ ان پر جو مصائب توڑے گئے تھے وہ دیکھے تھے ۔

برطانوی سامراج نے اس وقت بے تحاشہ ظلم کیا تھا ۔ ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل اور مغل حکمرانی کے ختم ہونے کا احساس کرتے ہوئے سر سید احمد خاں بہت فکرمند تھے ۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کا کھویا ہوا وقار بحال کیا جائے ۔ وہ ہندوستان میں اسلام کو عصری شکل دینے کے بانی سمجھے جاتے ہیں اور انہوں نے مسلمانوں کو برطانوی سامراج سے قریب کرنے کی کوشش کی تھی تاکہ اس برادری کا ہندووں پر تسلط برقرار رہ سکے ۔

سر سید احمد خان نے انگریز حکمرانوں کو یہ تاثر بھی دینے کی کوشش کی تھی کہ ہندوستان میں دو بڑی مذہبی برادریاں کبھی متحد نہیں ہوسکتیں۔ ( ماخذ : حالی کی حیات جاوید ۔ ترجمہ کے ایچ قادری اور ڈیوڈ میتھیو نے 1979 میں کیاتھا ۔ صفحہ 199 ادارہ ادبیات دہلی ‘ قاسم جان اسٹریٹ دہلی ۔ حوالہ پائینیر تاریخ 20-10-2004 ۔ مراسلہ کا کالم ‘ از روپا کوشل ) ۔ برطانوی اقتدار سے ان کے تعلقات ان کی موت تک رہے ۔ شیخ سرہندی ‘ شاہ ولی اللہ اور سید احمد بریلوی کے نظریات سے متاثر ہوکر سر سید احمد خان ‘ اسلام کو عصری ڈھانچہ میں ڈھالنے کے حامی تھے اور انہوں نے دو قومی نظریہ تیار کیاتھا ۔ مسلمانوںکو سائنسی اور عصری تعلیم دلانے ان کی کاوشوں کے نتیجہ میں مڈل کلاس مسلمانوںمیں ڈَاکٹرز ‘ انجینئرز ‘ سا ئنسدانوں اور عصری علوم کے اسکالرز بھی خاطر خواہ تعداد میں ہوئے تھے ۔

مسلمانوں کا یہ نیا طبقہ بھی بنیاد پرستوں کے اثر میں آگیا ۔ یہ طبقہ در اصل ایلیٹ مسلمانوں کیلئے معاون بنا رہا اور بتدریج عام مسلمان عوام کے ذہنوں پر اثر انداز ہونے میں کامیاب رہا ۔ سر سید احمد خان نے 1885 میں انڈین نیشنل کانگریس کے قیام کی شدت سے مخالفت کی تھی اور اسے ہندو اکثریتی تنظیم قرار دیا تھا ۔ انہوں نے مسلمانوں کے اعلی طبقہ کو اس میں شمولیت سے روکا ۔ ایک معروف مسلم اسکالر ایم آر اے بیگ نے بھی اس خیال کا اظہار کیا تھا کہ ’’ مغلیہ خاندان سے تعلقات کی وجہ سے سر سید جذباتی طور پر یہ بات قبول نہیں کرسکتے تھے کہ مسلمانوں پر ہندووں کی حکمرانی ہو جو ان کے زیر دست رہے تھے ۔ انہیں یہ بھی اندیشہ تھا کہ ہندو اقتدار کے نتیجہ میں آریہ ۔ دراوڑی کلچر کو مسلمانوں کی فارسی ۔ عربی تہذیب پر مسلط کردیا جائیگا ۔

بین الاقوامی شہرت رکھنے والے مورخ آر سی مجم دار نے اپنی کتاب ’’ آزادی کیلئے جدوجہد ‘‘ کے صفحہ 127 میں تحریر کیا ہے کہ علی گڑھ تحریک نے بتدریج مسلمانوں کو سیاسی میدان میں ہندووں سے علیحدہ کردیا ۔ انڈین نیشنل کانگریس کے قیام سے ہی اس کے تعلق سے مسلمانوں کا جو نظریہ رہا ہے اس میں مخالف ہندو جذبات کو ترجیح حاصل رہی ۔ ان کا کہنا تھا کہ سر سید احمد خان کی تحریک کا مسلمانوں پر اثر تھا ۔ شائد ہی کوئی طبقہ ایسا تھا جو اس کو قبول نہیں تھا ۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ پہلے مسلمان ہیں اور پھر ہندوستانی ہیں۔

انہوں نے سر پرسی وال گرفتھ کے حوالے سے یہ بات کہی جن کا کہنا تھا کہ مسلمانوں یہ مانتے تھے کہ ان کے مفادات کا ہندووں سے بالکل الگ ہوکر ہی تحفظ ہوسکتا ہے اور دونوں برادریوں کا میل ملاپ ممکن ہی نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ امینہ اے سعید نے اپنے ایک انٹرویو میں جو 2003 میں شائع ہوا تھا یہ کہا تھا کہ مڈل کلاس مسلمانوں کی قوم پرستی نے انتخابی جمہوریت کے فطری عمل کو متاثر کرکے رکھ دیا ۔ سر سید احمد خان کی تعلیمی پالیسی نے اسلامی گروپس کو پرتشدد رد عمل پر مجبور کیا تھا لیکن ان کے حامیوں نے بتدریج اس مسئلہ پر قابو پا لیا ۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے مسلمانوں کے طبقہ اولی کی قیادت میں پاکستان تحریک میں ایک اہم رول ادا کیا ۔ اسے مڈل کلاس مسلمانوں کا مرکز سمجھا جاتا تھا ۔ اس وقت کی مسلم قیادت نے اس نئے طبقہ کو عام مسلمانوں پر اسلامی قدامت پسندی کو مسلط کرنے کیلئے استعمال کیا اور اس کا مقصد سیاسی بالادستی حاصل کرنا ہی تھا ۔

علاقہ اقبال کے تعلق سے کہا جاتا ہے کہ ان کے مزاج میں تضاد تھا ۔ ان کی نظمیں قدامت پسندوں اور ترقی پسندوں دونوں میں پسند کی جاتی تھیں اور ان کی نمائندگی کرتی تھیں۔ وہ قرآن کے ساتھ آگے بڑھنے اور اسلامی سیاست کے احیاء کے خواہشمند تھے ۔ انہیں تاہم اس بات کا احساس نہیں تھا کہ سابق میں سادہ سی اسلامی موجودہ عصری تہذیب کی پیچیدگیوں کو حل کرنے میں کامیاب نہیں تھی ۔ انہوں نے ایک منظم اسلامی بنیاد ہندوستانی مسلمانوں کو فراہم کرنے کی کوشش کی تھی ۔

کہا جاتا ہے کہ وہ ہندوستانی مسلمانوں طبقہ اولی کے مفادات کا تحفظ کرنے میں جٹے ہوئے تھے اور عام ہندوستانی مسلمانوں کو ان کے زیر اثر لانا چاہتے تھے ۔ ہر چیز کو طبقہ اولیٰ کے مفادات کے تابع کردیا گیا تھا ۔ جو دبا کچلا طبقہ تھا اس کے مساوات اور آزادی کے حقوق عملاً سلب تھے ۔ سرسید احمد خان کے دو قومی نظریہ کو آگے بڑھاتے ہوئے علامہ اقبال اپنی آزادانہ سوچ کو جمہوریت کے عالمی نظریہ سے جوڑنے میں ناکام رہے اور وہ اپنے آپ کو اسلام کی قدیم روایت سے الگ بھی نہیں کرسکے ۔ انہوں نے مذہب کی بنیاد پر مسلمانوں کی سیاسی وابستگی کی کوشش کی جو در اصل مسلمانوں کی ایک مخصوص طبقہ کیلئے مفید تھا ۔ اسی طبقہ کو ملک کی تقسیم کے بعد پاکستان میں آزادانہ طاقت مل گئی تھی ۔

جن ہندوستانی مسلمانوں نے اقبال کے نظریہ کی تائید کی لیکن وہ ہندوستان میں رہ گئے انہیں اپنے قائدین سے صرف حوصلہ شکنی اور دھوکہ کے سوا کچھ نہیں ملا ۔ اس طرح کے دھوکہ سے کوئی سبق لینے کی بجائے مسلمانوں کے رویہ میں شائد ہی کوئی تبدیلی آئی ہے کیونکہ انہوں نے مابعد انگریزوں کے ہندوستان میں مدرسوں کی تعداد میں اضافہ پر کوئی مزاحمت نہیں کی تھی ۔ انہوں نے مذہبی رہنماؤں کو ساری برادری پر اپنی گرفت مضبوط بنائے رکھنے کا موقع فراہم کیا ۔

نتیجہ:افسوس کی بات یہ ہے کہ شیخ احمد سر ہندی سے لے کر شاہ ولی اللہ اور پھر سر سید احمد خان سے لے کر سر علامہ اقبال تک ہندوستانی مسلمانوں نے خود کی علیحدہ شناخت کیلئے جدوجہد کی ہے ۔ دوسری جانب کچھ سیکولر مسلم دانشور بھی مابعد آزادی ہندوستان میں اس رجحان کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوئے حالانکہ وہ اس کی کوشش کرسکتے تھے ۔ انہوں نے مسلم ایلیٹ کلاس یا طبقہ اولیٰ کو مسلمانوں کی علیحدہ شناخت برقرار رکھنے میں مدد فراہم کی۔

  در اصل مسلمانوں کے ایسے دانشوروں کی کوئی کمی نہیں ہے جو اس تلخ حقیقت کو آج بھی تحریر کرتے ہیں لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ جب وہ مسلم اجتماع میں جاتے ہیں تو اس پر کوئی واضح انداز میں اظہار خیال نہیں کرتے ۔ وہ اکثر و بیشتر مولانا ابوالکلام آزاد کے تقسیم کے وقت جامع مسجد دہلی سے کئے گئے خطاب کا حوالہ دیتے ہیں لیکن یہ لوگ یہ عوام میں یہ تاثر عام کرنے کی کوشش نہیں کرتے کہ انہیں اپنے قدیم خیالات سے آزاد ہونے کی ضرورت ہے ۔ اگر وہ واقعی آگے بڑھنے کیلئے سنجیدہ ہیں تو انہیں ایک جامع تحریک اور دانشورانہ جہاد کی ضرورت ہے تاکہ مسلم عوام کو علماء کی گرفت سے آزاد کروایا جاسکے ۔

ایسا اسی وقت ممکن ہے جب مدارس کو تعلیمی اداروں میں تبدیل کیا جائے اور یہاں عصری اور سائنسی علوم کی تعلیم دی جائے ۔ مذہب پر تعلیم کو اختیاری کیا جاسکتا ہے ۔ کیا ایسا ہوسکتا ہے ؟ ۔ کیا طبقہ اولیٰ مسلم برادری کیلئے عصری تعلیم کی اجازت دیگا ؟ ۔ یہ ایک حساس مسئلہ ہے اور اس پر کھلے عام اور بے خوف مباحث کی ضرورت ہے ۔

Daily Siasat, Hyderabad, India

پہلا حصہ

ہندوستانی مسلمانوں کی تعلیم اور شاہ ولی اللہ کا سیاسی نظریہ