حکمرانی کی دوام کے لئے مودی کی حکمت عملی

آصف جیلانی 

ہمالیہ میں اتر کھنڈ کے11755 فٹ بلند مقام پر آٹھویں صدی کا قدیم کیدار ناتھ مندر ہے، جہاں ہندو دھرم کے اہم ترین دیوتا شیوا کی پوجا کی جاتی ہے۔ شیوا، ہندووں کے تین بڑے دیوتاوں ، برہما ،وشنو اور شیوا میں سے ایک ہیں اور اس لحاظ سے ان کی اہمیت دو چند ہے کہ برہما ، دنیا پیدا کرنے والے مانے جاتے ہیں ، وشنو، پالنہار مانے جاتے ہیں اور شیوا تباہی کے ساتھ تعمیر کے بھی دیوتا سمجھے جاتے ہیں۔ ان کی مورتیوں میں ان کا چہرا نیلا، اور ماتھے پر بصارت اور بصیرت کی تیسری آنکھ ، گلے میں تباہی کی علامت ناگ اور جسم آدھا مرد اور آدھا عورت کا دکھایا جاتا ہے۔ یہ شر اور خیر کی علامات جانی جاتی ہیں۔

کیدارناتھ مندر اتر کھنڈ میں شدید برف باری کی وجہ سے تین مہینے تک بند رہتا ہے۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ چار سو سال تک برف میں دبا رہا۔یوں یہ موسم کی شدت ، بارشوں اور سیلاب سے مسمار ہونے سے بچا رہا۔ تین مہینے بند رہنے کے بعد ۳ مئی کو جب یہ مندر پچاریوں کے لئے کھلا تو سب سے پہلے وزیر اعظم نریندر مودی نے بڑے تام جھام کے ساتھ ٹیلی وژن کیمروں کے سامنے، مندر میں پوجا کا آغاز کیا۔

کیدار ناتھ مندر میں مودی کی پوجا در حقیقت اگلے عام انتخابات کی حکمت عملی کی بنیاد تھی۔ شیوا کی پوجا کا اصل مقصد جنوبی ہندوستان پر سیاسی غلبہ حاصل کرنا ہے جہاں شیوا کے ماننے والوں کی اکثریت ہے۔ جنوبی ہندوستان میں کیرالا، تامل ناڈ، کرناٹک اورآندھرا پردیش میں بھارتیہ جنتا پارٹی ،ابھی تک اقتدار سے محروم ہے۔ اب شیوا کے سہارے نریندر مودی جنوبی ہندوستان کو زیر کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ اسی قسم کی چال ہے جو نریندر مودی نے پچھلے عام انتخابات سے پہلے چلی تھی۔

اپنی آبائی ریاست گجرات میں 2002کے مسلم کش خونریز فسادات کے الزام کے آسیب سے جان چھڑانے کے لئے ، جن میں دو ہزار سے زیادہ مسلمانوں کا قتل عام ہوا تھا ، نریندر مودی نے ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں بنارس کو اپنا سیاسی مرکز بنایا تھا۔اس کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ بنارس میں ستر ہزار سے زیادہ گجراتی آباد ہیں جن میں بڑی تعداد بنارسی ساڑیوں کی صنعت میں پیش پیش ہے۔ ان سے سیاسی حمایت کے ساتھ ساتھ ، انتخاب کے لئے وافر مالی امداد بھی ملی۔

ایک اور اہم پہلو اس فیصلہ کا یہ تھا کہ بنارس میں گنگا کے کنارے وشواناتھ مندر ، ہندو مذہب میں بے حد اہمیت کا حامل ہے ، اور اس کا تعلق بھی دیوتا شیوا سے ہے۔ یہ بات بے حد اہم ہے کہ پچھلے عام انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے ایودھیا میں مسمار شدہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کے مطالبہ پر شور نہیں مچایا تھا جب کہ 2009میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے انتخابی منشور میں یہ مطالبہ سر فہرست تھا۔ پھر اتر پردیش کے حالیہ انتخابات میں بھی ، رام مندر کا مطالبہ ایسالگتا تھا عمدا پس پشت ڈال دیاگیا ہے۔ ویسے بھی ہندو مذہب میں رام کی حیثیت شیوادیوتا سے کم تر ہے اور وہ شیوا کے عقیدت مندوں میں شمار ہوتے ہیں۔

نریندر مودی کی یہ حکمت عملی پچھلے عام انتخابات میں کامیاب رہی اور کامیابی کا یہ سلسلہ حال میں اتر پردیش کے انتخابات میں بھی جاری رہا اور اتر پردیش کو فتح کرنے کے بعد اب مودی جنوبی بھارت کی ریاستوں کو زیر کرنا چاہتے ہیں اوراس مقصد کے لئے وہ شیوا دیوتا کا سہارا لینا چاہتے ہیں۔

گذشتہ عام انتخابات میں یہ بات نمایاں طور پر ثابت ہوئی ہے کہ ہندوستان میں انتخابات جیتنے کے لئے پارٹی اور سیاسی نظریہ اب اتنا اہم نہیں رہا جتنا کہ گذشتہ چھ دہایوں میں رہا ہے۔ اب زیادہ اہم شخصیت اور قیادت کی مقبولیت ہے ۔ اس فارمولے کے تحت ، مودی نے اپنی ذاتی تشہیر اور شخصی تعریف و ستائش کی مہم شروع کی ہے۔ یہ سلسلہ انہوں نے بر سر اقتدار آنے کے فورا بعد غیر ملکی دوروں سے شروع کیا ہے۔ پچھلے دو برسوں میں مودی نے چھ بر اعظموں میں 45ملکوں کے 54دورے کئے ہیں۔ جن میں امریکا، جرمنی ، کینیڈا،چین ، جاپان، آسٹریلیا، ایران، افغانستان، سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور قطر شامل ہیں۔

سعودی عرب میں انہیں شاہ سلمان نے ملک کا اعلی ترین اعزاز عبد العزیز آرڈر دیا جو اب تک صرف گنے چنے لوگوں کو دیا گیا ہے جن میں مولانا مودودی بھی شامل ہیں۔متحدہ عرب امارات نے مودی کو دبئی میں مندر کی تعمیر کے لئے زمین کا ایک وسیع قطعہ بھی تحفہ میں دیا ہے۔

غیر ممالک کے دوروں میں نریندر مودی کو جو پذیرائی حاصل ہوئی اسے انہوں نے ہندوستان کے عوام میں اپنی امیج بہتر بنانے اور یہ ثابت کرنے کے لئے استعمال کی کہ وہ بین الاقوامی عمائدین میں کتنے مقبول ہیں اور انہوں نے کس کامیابی سے ہندوستان کے پرچم لہرائے ہیں ۔ سعودی عرب ، متحدہ عرب امارت ، قطر ، افغانستان کے دوروں میں اپنے خیرمقدم کے ذریعہ ہندوستان کے مسلمانوں پر یہ اثر ڈالنے کی کوشش کی کہ وہ مسلم حکمرانوں میں کس قدر مقبول ہیں۔

اتر پردیش کے حالیہ انتخابات میں مودی نے مسلمانوں کو شیعہ سنی مسلکوں میں تقسیم کر کے مسلمانوں کو ریاست کی سیاست سے خارج کر دیا ہے جس کے بعد انہیں توقع ہے کہ اگلے انتخابات میں انہیں مسلمانوں کا اتحاد راہ نہیں روکے گا۔ مودی کی حکمت عملی کا نتیجہ یہ کہ مسلمانوں میں تین طلاقوں کا مسلہ شدید اختلافات کی وجہ بن گیا ہے۔ شیعہ پرسنل لاء بورڈ نے نہ صرف اس معاملہ پر یوگی وزیر اعلی کی مکمل حمایت کی ہے بلکہ گائے کُشی پر پابندی اور مذبحہ خانوں کی بندش کی بھی حمایت کا اعلان کیا ہے، جب کہ سنی پرسنل لاء بورڈ نے تین طلاق کے مسئلہ کے بارے میں مودی کے موقف کو دین میں مداخلت سے تعبیر کیا ہے اس معاملہ پر سخت احتجاج کیا ہے۔

نریندر مودی اور ان کی سیاسی گرو جماعت آر ایس ایس نے2019 کے عام انتخابات کے لئے جو نئی حکمت عملی تیار کی ہے اس کا مقصدپورے ملک میں پنچائت سے لے کر پارلیمنٹ تک بھارتیہ جنتا پارٹی اور ہندوتا کا تسلط اور حکمرانی کا دوام حاصل کرنا ہے، بیشتر سیاسی مبصرین کی رائے ہے کہ اس وقت کانگریس میں جو افر تفری ہے اور مضبوط قیادت کا فقدان ہے اور تامل ناڈ ، بنگال اور آندھرا پردیش میں علاقائی جماعتیں شکست خوردگی کے عالم میں ہیں اس کے پیش نظر نریندر مودی اپنی حکمت عملی میں کامیاب ہوتے نظر آتے ہیں۔

♠ 

Comments are closed.