ناکامی کی تاریکی میں نہرو کا سورج غروب

آصف جیلانی

یہ مارچ 1946کی بات ہے۔ دلی کے پرانے قلعہ میں ایشیاء میں آزادی کی تحریکوں سے یک جہتی کے اظہار کے لئے ایشیائی کانفرنس ہو رہی تھی۔ میں جامعہ ملیہ کا طالب علم تھا اور جامعہ کے اسکاوٹس کا ایک دستہ کانفرنس میں تعینات تھا۔ میری ڈیوٹی کانفرنس کے پنڈال کے آخری سرے پر لگی تھی۔ اس سرے پر زیادہ تر بڑے بڑے ہٹے کٹے پہلوان نما لوگ بیٹھے تھے ۔اچانک شور اٹھا کہ گاندھی جی اسٹیج پر آرہے ہیں۔ اس شور کے ساتھ ہی میرے زیر انتظام حصہ کے شرکا ء اٹھ کھڑے ہوئے ۔ اسٹیج سے ، عبوری حکومت کے وزیر اعظم ، جواہر لعل نہرو نے بار بار سب حاضرین سے بیٹھنے کے لئے کہا ۔ لیکن کسی نے ان کی ایک نہ سنی ۔

پنڈت نہرونے اچانک اسٹیج سے چھلانگ لگائی اور سیدھے اس طرف لپکے جہاں میں منحنی سا اسکاوٹ تعینات تھا۔ نہرو نے آتے ہی ان ہٹے کٹے لوگوں سے بیٹھنے کے لئے کہا لیکن جب وہ کھڑے برابر شور مچاتے رہے تو نہرو آنا فانا ان پہلوان نما افراد پر ٹوٹ پڑے ور انہیں پکڑ پکڑ کر فرش پر بیٹھے کے لئے کہا۔ یہ منظر دیکھ کر ایک امریکی فوٹو گرافر نے ان کی کھٹا کھٹ تصویریں کھینچنی شروع کر دیں ۔ نہرو نے ان پہلوانوں کو توایک طرف چھوڑا اور فوٹو گرافر کی طرف لپکے اور اس کا کیمرہ چھین کر اس میں سے فلم نکال کر پھینک دی۔ شور مچاتے لوگوں نے جب یہ منظر دیکھا تونہرو کے غصہ کے ڈر کے مارے ایک دم خاموش نیچے فرش پر بیٹھ گئے۔نہرو میری طرف آئے ۔ میں پہلے ہی سہما کھڑا تھا۔ انہوں نے بڑے پیار سے میری پیٹھ تھپتھپائی ، جیسے میں نے ہی شور مچانے والوں پرکامیابی سے قابو پایا ہے۔ 

یہ میرا پنڈت نہرو سے پہلا آمنا سامنا تھا۔میں ان کی پھرتی اور جی داری سے بہت مرعوب ہوا۔

پھر اس کے چھہ ماہ بعد جب دلی میں فسادات کی آگ بری طرح سے بھڑکی ہوئی تھی اور قرول باغ میں سکھوں کے گردوارے کے سامنے ، مکتبہ جامعہ پر بلوائی حملہ کر رہے تھے ۔ میں نے مکتبہ میں کام کرنے والوں سے سنا کہ عین اس وقت جب بلوائی مکتبہ کو آگ لگا نے والے تھے۔ پنڈت نہرو کو اس کا علم ہوگیا اور وہ فورا وہاں پہنچ گئے۔ انہوں نے بلوائیوں کوبری طرح سے ڈانٹا کہ جاہلو ، تمھیں پتہ نہیں کہ تم علم کے کیسے نایاب خزانہ کو آگ لگا رہے ہو۔ جب کسی نے نہرو کی اس للکارپر کان نہ دھرا تو انہوں نے دلی کے کمشنر رندھاوا کو حکم دیا کہ وہ بلوائیوں پر گولی چلا دیں ۔ لیکن جب رندھاوا نے نہرو کے اس حکم کو ٹالنے کی کوشش کی ،تو نہرو پولیس کے ایک سپاہی پر لپکے اور اس سے بندوق چھینے کی کوشش کی ۔ ارادہ ان کا بلوائیوں پر گولی چلانے کا تھا۔ رندھاوا اور دوسرے افسروں نے معاملہ کی سنگینی دیکھ کر فورا بیچ بچاو کرایا اور بلوائیوں کو منتشر کرنے کے لئے ان پر لاٹھی چارج کا حکم دیا ۔غرض مکتبہ جامعہ آگ سے بچ گیا اور کتابوں کا نایاب خزانہ محفوظ رہا۔

پھر ستمبر کی ایک رات کو دیکھا کہ ہندوستان کے وزیر اعظم نہرو، اپنے محافظوں کے بغیر جامعہ ملیہ میں چلے آرہے ہیں۔ جامعہ کی سفید گنبدوں والی دو بڑی عمارتوں کے بیچ میں انہوں نے فسادات کی وجہ سے محصور جامعہ کے تمام اساتذہ اور ملازمین کو بلایا۔ اور دریافت کیا کہ آپ لوگوں کے پاس کتنی بندوقیں ہیں؟ وزیر اعظم کایہ سوال سن کر سب ششدر رہ گئے۔ جامعہ کالج کے پرنسپل،مدراس کے عیسائی جے بی کیلاٹ صاحب نے جنہوں نے آکسفورڈ سے فارغ التحصل ہوکر مسلم قوم پرست تعلیمی ادارہ کے لئے اپنی زندگی وقف کر دی تھی ، ہمت سے کام لیا اور کہا کہ ان کے پاس شکار کرنے کے لئے چھرے والی دو بندوقیں ہیں۔

مطبغ کے ایک باورچی کو بھی ہمت ہوئی اور کہا کہ میرے پاس بھی ایک بندوق ہے۔ پھر پنڈت نہرو نے پوچھا کہ جامعہ کے اطراف کے گاؤں میں سب سے خطرناک گاؤں کون ساہے۔ انہیں بتایا گیا کہ جوگا بائی گاؤں۔ نہرو نے حکمت عملی تیار کرتے ہوئے کہ کہ دو بندوق بردار جوگا بائی کی طرف رکھیں ۔ دوسری جانب نہر ہے اس جانب ایک بندوق بردار کو تعینات کریں اور تیسری جانب تو سڑک ہے اس پر چند لوگوں کا پہرہ بٹھا دیں ۔جامعہ کے لوگ حیران تھے کہ ملک کا وزیر اعظم ایک تعلیمی ادارہ کے دفاع کی حکمت عملی طے کر رہا ہے۔ لیکن یہ عام تعلیمی ادارہ نہیں تھا ۔ یہ مسلم قوم پرستوں کا ادارہ تھا جس کو لاحق خطرات ان کے لئے بہت اہم تھے اور اس کی حفاظت نہرو اپنا ملی قرض اور فرض سمجھتے تھے۔

مجھے 1962کے وہ دن یاد آتے ہیں جب نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو میں ، ایوب خان سے ملاقات ہوئی۔ کٹھمنڈو آنے سے پہلے ایوب خان نے ہندوستان کے بارے میں کہا تھا کہ یہ ٹکڑے ٹکڑے ہونے والا ہے۔ بنیاد ان کی اس رائے کی ،جنوبی ہندوستان میں ہندی کے خلافُ پر تشدد احتجاج تھا۔ میں نے ایوب خان کی اس رائے سے اختلاف کیا اور کہا کہ ہمیں اپنے دشمن کے مثبت پہلوؤں اور اس کی طاقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ایوب خان کا چہرہ غصہ میں سرخ ہوگیا۔ لیکن پوچھاکہ کیا دلائل ہیں میرے؟ میں نے کہاکہ ہندوستان کے اتحاد اور مضبوطی کے تین بڑے ستون ہیں۔ 

اول۔ 1947میں آزادی کے بعد ہندوستان کے عوام کی ہندو اکثریت اس پر فخر کرتی تھی کہ چندر گپت موریہ کے بعد ہندوستان ایک ہزار چھ سو سال تک غیر ملکی طاقتوں کے تسلط میں رہنے کے بعد پہلی بارحقیقی معنوں میں آزاد ہوا ہے جس کا تحفظ ایک قومی فریضہ ہے۔

دوم ۔ ذات پات کا نظام بظاہر ملک کو تفریق کرتا نظر آتا ہے لیکن، در حقیقت اس نظام کی بدولت ہندوستان متحد ہے۔ گجرات میں مرار جی دیسائی اور جنوبی ہند میں کرشنا مینن ، نظریاتی طور پر ایکدوسرے کے بھلے حریف ہوں لیکن دونوں ایک ہی ذات سے تعلق رکھنے کی بناء پر ایک دوسرے سے ایسے جڑے ہوئے ہیں کہ انہیں جدا نہیں کیا جا سکتا۔

سوم۔ نہرو نے اپنی معاشی حکمت عملی کے ذریعہ ملک کو متحد کیا ہے۔ مثال کے طور پر بھاکڑا ننگل کے آبی نظام پر تین ریاستوں کو اور رائے ہند آبی نظام پر سات ریاستوں کو ایک دوسرے پر انحصار کے بدولت ایک دوسرے سے جوڑا ہے ۔ پھر کوئلہ بنگال میں نکلتا ہے ،فولاد کا بڑا کارخانہ وسطی ہند میں بھیلائی میں قائم کیا گیا ہے، بھاری مشینیں جنوبی ہندوستان میں تیار ہوتی ہیں اور چھوٹی صنعتوں کے لئے شمالی ہندوستان چنا گیا ہے ۔ یوں پورے ملک کے علاقوں کو ایک دوسرے پر منحصر بنایا گیا ہے اور ملک کا اتحاد مضبوط بنایا گیا ہے۔

مجھے خوشی ہوئی کہ میرے استدلال کے بعد ایوب خان نے پریس کاونسلر سید ناظم قطب سے کہا کہ اس موضوع پر کتابیں انہیں دلی سے بھجوائیں۔

پھر 1962کے آخر میں چین کے ساتھ جنگ میں ہتک آمیز شکست کے بعد میں نے پنڈت نہرو کو ٹوٹا ہوا پایا۔جنگ سے پہلے سرحدی تنازعات طے کرنے کے لئے چو این لائی ، دلی آئے تھے لیکن ہندوستان کے دائیں بازو نے جو امریکا کی شہہ پر چین سے معرکہ چاہتا تھا،نہرو کو ناکام بنا دیا ۔ہندی چینی بھائی بھائی کا نعرہ ہمالہ کے دامن میں پاش پاش نظر آیا۔مجھے یہ جان کر سخت تعجب ہوا کہ نظریات پر سودا نہ کرنے والے پنڈت نہرو نے چین کے خلاف جنگ میں امریکا اور اسرائیل سے اسلحہ کی درخواست کی تھی۔

امریکی صدر کینیڈی نے تو فورا دھڑا دھڑ اسلحہ بھجوادیا لیکن اسرایل کے اسلحہ کے بارے میں نہرو کی شرط تھی کہ اسرائیل کے جھنڈے والے جہازوں میں اسلحہ نہ آئے لیکن اسرائیل کے رہنما بن گوریاں نے کہا، اسلحہ آئے گا تو اسرائیلی جھنڈے تلے آ ئے گا ورنہ نہیں۔ اس وقت نہرو کی غیر وابستگی کی فصیل مسمار ہو گئی تھی ۔ نہ صرف چین کے معاملہ میں بلکہ اپنے قریبی دوست شیخ عبداللہ کو برطرف کر کے انہیں قید کرنے پر بھی نہرو کو اپنی غلطی کا شدیداحساس تھا۔ میں نے لوک سبھا میں نہرو کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ کشمیر کے بارے میں ہمیں پاکستان سے آئینی سمجھوتہ کرنا چاہئے اور اسی مقصد کے لئے انہوں نے شیخ عبداللہ کو رہا کرنے اور انہیں بات چیت کے لئے اسلام آباد بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ 

اس فیصلہ پر پورے ملک میں شور مچ گیا۔ 1964میں مئی کے اوائل میں ، میں نے بمبئی میں آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے اجلاس میں دیکھا کہ پنڈت نہرو سخت کمزوری کے عالم میں اسٹیج پر ایک صوفہ پر لیٹے تھے اور شیخ عبداللہ کی رہائی کے فیصلہ کے خلاف بڑی تندو تلخ تقریریں سن رہے تھے، بغاوت کی آگ بھڑکتی نظر آتی تھی۔کانگریس کے اراکین کی ان تقریروں پر پنڈت نہروسے نہ رہا گیا اورطیش میں آکر وہ اچانک صوفہ سے اٹھے اور مائیکروفون پکڑ کراس کے سہارے کھڑے ہوگئے ۔ نہرو نے گرج کر کہا کہ کب تک ہم پاکستان کے ساتھ تنازعہ کی دلدل میں دھنسے رہیں گے اور کب تک ہندو مسلم فسادات کی آگ میں جھلستے رہیں گے ۔

ان کا کہنا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ کشمیر کے مسئلہ کا کوئی ’’آئینی حل‘‘ تلاش کیا جائے اور اسی مقصد کے لئے انہوں نے شیخ عبداللہ کو رہا کیا ہے اور انہیں اسلام آباد بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان دنوں نہرو کو شدید احساس تھا کہ انہوں نے 1948میں کشمیر میں ریفرنڈم پر آمادگی ظاہر کرنے کے بعد 1953میں استصواب سے صاف انکار کردیا اور شیخ عبداللہ کو گرفتار کر کے مسلۂ کو پیچیدہ کردیا تھا۔ایسا محسوس ہوتا تھا کہ نہرو اپنے آپ کواپنی ناکامیوں کی تاریکیوں میں غروب ہوتا دیکھ رہے تھے۔ 

دلی واپسی پر لوک سبھا کے کافی ہاوس میں بائیں بازو کے ممتاز رہنما اور نہرو کابینہ میں پٹرولیم کے وزیر کیشب دیو مالویہ جی سے ملاقات ہوئی ۔ میں نے ان سے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پنڈت جی ،ناکامیوں کے حصار میں بے دم ہوگئے ہیں۔ کہنے لگے یہ صحیح ہے کہ وہ ناکامیوں میں گھرے ہوئے ہیں لیکن ان کا کہنا تھا کہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پنڈت جی جدید ہندوستان کے معمار ہیں۔ مالویہ جی کا کہنا تھا کہ 1930میں یہ پنڈت جی تھے جنہوں نے واضح طور پر کہا تھا کہ سماجی انصاف اور مساوات کے معاملہ میں کانگریس کو سوشلزم کو قبول کرنا چاہئے۔ کانگریس کے بڑے رہنماؤں نے نہرو کے اس نظریہ کی سخت مخالفت کی تھی جن میں سی راجگوپال اچاریہ، سردار پٹیل اور راجند پرشاد نمایاں تھے اور ایک مرحلہ پر انہوں نے کانگریس سے مستعفی ہونے کی دھمکی دی تھی۔ یہ تو 1942میں جب گاندھی جی نے پنڈت جی کو اپنا جانشین قرار دیا تو بغاوت کی آگ ٹھنڈی ہوئی۔ 

بمبئی میں کانگریس کے اجلاس کے بعد نظر آتا تھا کہ یہ نہرو کی شمع کا آخری لپکا ہے ۔ بمبئی سے وہ دیرا دون گئے اور 26مئی کو دلی واپس آکر دوسرے دن انتقال کر گئے۔ انتقال کے بعد پچاس سال تک ہندوستان کی سیاست اور اقتصادی پالیسیوں پر پنڈت نہرو کے سیکولر اورسوشلسٹ نظریات چھائے رہے لیکن 2014میں ہندو فاشسٹ تنظیم راشڑریہ سویم سیوک سنگھ کے ہراول سپاہی نریندر مودی نے کانگریس کے اقتدار کے قلعہ کو مسمار کر دیا اور پنڈت نہرو کے ورثہ کو تہس نہس کر دیا۔

اب ہندوستان کی فضائیں یہ سوال کرتی ہیں کہ پنڈت نہرو کا ہندوستان کہاں گیا؟ سوشلزم پر مودی نے ایسی کدال ماری ہے کہ اس کی جڑیں اکھڑ گئی ہیں۔ کانگریس پر مسلمانوں کا بڑی حد تک آسرا تھا ، کانگریس کی شکست کے بعد انہیں لگا کہ یکایک وہ سیاسی میدان سے باہر پھینک دیے گئے ہیںیہی نہیں ان کا جینا عذاب بن گیا ہے۔ مودی سرکار انہیں حکم دے رہی ہے کہ وہ کیا کھائیں اورکیا پیءں اور انہیں ترغیب دے رہی ہے کہ وہ گھر واپسی کے نام پر ہندو دھرم میں لوٹ آئیں۔اور دھمکی دے رہی ہے کہ اگر وہ اس کے لئے تیار نہیں تو پھر ہندوستان چھوڑ دیں۔

نہرونے اپنی طویل سیاسی زندگی میں کبھی یہ نہیں سوچا ہوگا کہ ان کے بعد ان کے دیس میں ہندو تا کا راج ہوگا اور ہندو فاشزم کے سایے ملک پر چھا جائیں گے ، جس کے خلاف پنڈت نہروساری زندگی جدو جہد کرتے رہے ۔اس سے بڑھ کر پنڈت نہرو کی ناکامی کیا ہوگی کہ ان کے بعد ان کے نظریات اور ان نظریات کے ماننے والے مکمل طور پر ہتھیار ڈال دیں گے؟

ایک زمانہ تھا جب پنڈت نہرو کے جیتے جی لوگ پوچھتے تھے۔ نہرو کے بعد کون؟اب وہ وقت قریب ہے جب لوگ یہ سوال کریں گے نہرو کون تھا؟