بجٹ : اعداد و شمار کےذریعے ترقی کے جھوٹے دعوے

وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ مجموعی قومی پیداوار( جی ڈی پی) کی شرح دس سال میں پہلی مرتبہ بلند ترین ہوئی، پاکستان ایشیا کی بہترین کارکرگی دکھانے والی مارکیٹ بنا، معیشت کا حجم تین سو بلین ڈالرز تک پہنچا، جی ڈی پی کی شرحِ نمو پانچ اعشاریہ تین فیصد رہی اور زراعت کے شعبے میں کپاس، مکئی اور گندم کی ریکارڈ پیداوار ہوئی۔ ان کے بقول صنعتی شعبے کی ترقی پانچ اعشاریہ دو فیصد رہی، جب کہ خدمات کے شعبے میں یہ پانچ اعشاریہ آٹھ فیصد رہی۔

ڈار کا مزید کہنا تھا کہ جی ڈی پی کی شرحِ نمو کو اگلے مالی سال میں چھ فیصد تک لے کر جائیں گے۔ اس کے علاوہ وفاقی ترقیاتی بجٹ کی مد میں اکیس کھرب روپے خرچ کیے جائیں گے۔ پچپن لاکھ خاندان حکومت کی سوشل سیکورٹی پالیسی سے فائدہ اٹھائیں گے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پینشنوں میں دس فیصد اضافہ کیا جائے گا۔

 انہوں نے دعویٰ کیا کہ نواز حکومت نے کسانوں کو چھ سوارب کے قرضے دیئے۔ عالمی مالیاتی ادارے کے نئے پیمانے کے مطابق غربت میں بھی کمی ہوئی ہے، جو دوہزار دو میں 64 فیصد تھی اور دوہزار چودہ میں یہ 29.5 فیصد ہوئی۔ اس سال مارچ تک پانچ ہزار سے زیادہ کمپنیاں رجسٹرڈ ہوئیں اور زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی اضافہ ہوا، جو اب سولہ ارب ڈالرز ہے۔

تجزیہ نگاروں کے خیال میں وزیرِ خزانہ کے یہ دعوے حقیقت کی عکاسی نہیں کرتے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق پاکستان کے کئی شہروں میں لوڈشیڈنگ کا جن بے قابو ہے۔ کراچی جیسے شہر میں کئی کئی گھنٹوں تک بجلی کی آنکھ مچولی چلتی رہتی ہے جب کہ دیہی علاقوں کا کوئی پر سانِ حا ل نہیں ہے، جہاں اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے۔ ملک میں زراعت کے شعبے کو بھی گزشتہ پانچ سالوں میں شدید دھچکا لگا ہے اور صنعتی شعبے کی بھی بری کارکردگی کی وجہ سے ایکسپورٹ کم ہوئی ہیں۔

معروف معیشت دان ڈاکڑ عذرا طلعت سعید نے موجودہ حکومت کی پانچ سالہ معاشی کارکردگی پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’پانچ سال میں اس حکومت نے کوئی عوام دوست بجٹ پیش نہیں کیا۔ میں زرعی شعبے سے منسلک ہوں اور کسانوں کے ساتھ کام کرتی ہوں۔ تو اس شعبے کے حوالے سے میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ حکومت نے جو سبسڈی دی، اس سے چھوٹے کسانوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ یہ کسان پاکستان کی اکثریت ہیں۔ حکومت کی پرائس پالیسی نے ان غریب کسانوں کا کوئی بھلا نہیں کیا۔

زراعت کے شعبے میں کوئی ریگولیشن نہیں ہے اور نہ وہاں کوئی کم سے کم اجرت کا تصور ہے۔ کیڑے مار دوا، یوریا، فرٹیلایرز اور دوسرے کیمیکلز پر سبسڈی دے کر انہوں نے نہ صرف زراعت اور دیہی مزدوروں کا نقصان کیا ہے بلکہ پورے معاشرے کو بھی ایک تباہی سے دو چار کر دیا ہے۔ ان کیمیکلز کی وجہ سے سرطان سمیت کئی امراض بڑھ رہے ہیں۔

جراثیم کش ادویات کے اسپرے کے بعد جب خواتین کھیتوں میں جا کر کام کرتی ہیں تو ان کے ہاتھوں میں زخم لگتے ہیں جس کی وجہ سے یہ جراثیم کش ادویات کے کیمیکلز براہ راست ان کے خون میں داخل ہوجاتے ہیں، جس سے انہیں کئی طرح کی بیماریاں لاحق ہو رہی ہیں۔  کیمیکلز ذدہ اس خوراک کو جب عام پاکستانی کھاتے ہیں تو وہ کئی طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں، جس میں سرطان سرِ فہرست ہے۔ لیکن کسان جو اس ملک کی اکثریت ہیں ان کا کوئی پر سان حال نہیں‘‘۔

 ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا،’’ کسانوں کو نہیں بلکہ ایکسپورٹرز کو سبسڈی دی جاتی ہے یا پھر زرعی اجناس کے تاجروں کو۔ مثال کے طور پر گندم کو پیک کرنے کے لیے ایک مخصوص طریقے کی بوری ہوتی ہے، جسے بار دانہ کہتے ہیں۔ اگر آپ اس بوری میں گندم پیک کریں تو آپ حکومت کو گندم کی ایک من کی بوری تیرہ سو روپے میں فروخت کر سکتے ہیں ورنہ آپ کو اوپن مارکیٹ میں یہ گیارہ سو روپے کی بیچنی پڑے گی۔ یہ بوریاں با اثر تاجروں اور جاگیرداروں کے پاس ہوتی ہیں، کسانوں کے پاس نہیں۔ تو اس کا فائدہ بڑے اور بااثر لوگوں کو ہوتا ہے۔

بالکل اسی طرح ملک میں شوگر ملز کی ملکیت زرداری، نواز اور دوسرے با اثر لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔ ان لوگوں نے شوگر کے کاروبار میں اربوں روپیہ کمایا ہے لیکن کسان کی حالت یہ ہے کہ آٹھ دیہی مزدور مل کر ایک گنے کے ٹرک کو بھرتے ہیں اور اس میں انہیں پورے تین دن لگتے ہیں اور اگر آپ ان کی اجرت کا سنے تو آپ کو رونا آئے گا۔‘‘۔

کراچی یونیورسٹی کے اپلائیڈ اکنامکس ریسرچ انسٹیٹوٹ سے وابستہ سید ضیاء عباس رضوی کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کے پانچ برسوں کی معاشی پالیسی کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری برآمدات بڑھنے کے بجائے کم ہورہی ہیں،’’اس حکومت کے دور میں یورپی یونین نے ہمیں جی ایس پی پلس کا درجہ دیا جو ہمارے لیے بہترین موقع تھا کہ ہم بیلنس آف ٹریڈ کو بہتر کریں لیکن سیاسی عدم استحکام اور کرپشن کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہوسکا۔

ہمارے صنعت کاروں نے حکومت سے آسان شرائط پر قرضے لیے لیکن ان کو صنعتی شعبے میں لگانے کے بجائے زیادہ منافع کے چکر میں اسے پاکستان اور دبئی کی رئیل اسٹیٹ میں لگایا۔ حکومت کو چاہیے تھا کہ ان قرضوں کے استعمال کو چیک کرنے کا کوئی سسٹم بنائے۔ اس کے علاوہ ایف بی آر کی طرف سے ریبیٹ کی مد میں صنعت کاروں کا جو پیسہ روکا جاتا ہے، اس سے بھی صنعتی پیداوار متاثر ہوتی ہے، جس کا اثر آپ کی بر آمدات پر بھی پڑتا ہے۔‘‘۔

 انسانی ترقی کے شعبے میں بھی حکومت کی کارکردگی بہتر نظر نہیں آئی۔ معروف دانشور ڈاکٹر مہدی حسن نے مطابق پاکستان میں تعلیم کی شرح بڑھنے کے بجائے گھٹ رہی ہے۔ انہیں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’حکومت کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق تعلیم کی شرح میں دو فیصد کمی ہوئی ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے معاشرے میں بلند مقام حاصل کرنے کے لیے تعلیم ضرورری نہیں ہے۔ اس حکومت نے یہ سمجھا ہے کہ صرف سڑکیں بنانے سے قومیں ترقی کرتی ہیں۔ آج تک کسی حکومت نے بھی تعلیم پر جی ڈی پی کا چار فیصد خرچ نہیں کیا، جو یونیسکو کے مطابق کم از کم ہے۔ بے نظیر کے دوسرے دورِ حکومت میں یہ شرح تین اعشاریہ آٹھ فیصد تک گئی تھی، جو ستر برسوں میں بلند ترین ہے۔ تو جب آپ تعلیم پر خرچ ہی نہیں کریں گے تو خواندگی کیسے بڑھے گی‘‘۔

DW

One Comment