ڈیورنڈ کی لائن پر۔۔۔

ڈاکٹر برکت کاکڑ

ہمارے دوست جے کے انقلابی ڈیورنڈ کی لائن سے زیادہ ڈیورنڈ کی موت کے تاریخی واقعے میں دلچسپی لیتے ہیں۔ ایک دن بولے کہ ڈیورنڈ کو قتل کیا گیا تھا۔ میں نے جواب دیا کہ ہاں اُسے ایک مجاہد ہاتھی نے اپنی پشت سے پھینک کر مٹی کا حق ادا کیا تھا۔ بولے نہیں، سارا راز تو یہی ہے کہ ہاتھی کے سپاٹ پیر کے نیچے ایک بڑا کیل آگیا تھا، اس کیل کانٹے کا اہتمام ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک کوتاہ قدقبائلی پشتون نے کیا تھا جو ڈیورنڈ کی موت کا باعث بنا، وہ کوتاہ قد شخص ڈیرہ اسماعیل خان کے فلاں محمد خان کے پر دادا تھے وغیرہ وغیرہ۔

جمعہ خان انقلابی کی خوبی یہ ہے کہ وہ متنازعہ موضوعات سے دامن بچا کر پتلی گلی سے نکلنے کا گر جانتے ہیں۔ ہماری حالت بھی ان سے زیادہ مختلف نہیں۔ ڈیورنڈ اور اس کی کھینچی گئی لائن کے بارے میں جب بھی بات ہوتی ہے، یا سوال اٹھتا ہے تو کچھ خوف اور ڈھیر سارے ابہام سے ہمارا سر بوجھل ہو جاتا ہے، آنکھوں کے آگے اندھیرا ہونا شروع ہو جاتا ہے ، ور پھر سر جھٹک کرلا حول واللہ پڑھتا ہوں اور اسے شیطانی خیال تصور کرکے کسی اور جانب توجہ مبذول کرتا ہوں۔ پر یہ سوال بے چین روح کی طرح ہمارے اجتماعی لاشعور کے کباڑ کو ٹٹولتا رہتا ہے۔ اس مانوس سوال سے جب سامنا ہوتا ہے، تو محبوب گذشتہ کی طرح روبرو آنے سے جی گھبراتا ہے، اگر سامنا ہو بھی جائے تو تذکرہ خیر کا ورد کرتے کرتے آگے بڑھ جاتے ہیں۔

جب سے پاکستان کی مغربی سرحد پر کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے، بارڈر بند کر دیا گیا ہے۔ دونوں اطراف رہنے والوں نے شاید اس سے پہلے غور نہیں کیا تھا ریاستوں کے بیچ نفرت کی جڑ پکڑتی ہوئی رسولی کتنی بڑی اور تنومند ہو چکی ہے۔طرفین کی جانب سے شدید گولہ باری اور فائرنگ نے دو درجن سے زائد انسانی جانیں نگل لیں ۔پہل کس نے کی، پہلی گولی کہاں سے چلی، خون کا پہلا قطرہ کس کا گرا، پہلی دیوار کس طرف گری ، یہ سارے وہ سوالات ہیں جن کی قدر وقیمت ریاستوں کے بیچ انتہائی اہمیت رکھتی ہے۔

لیکن دونوں جانب سے جان بحق ہونے والوں کو ریاست سے کوئی لینا دینا نہیں تھا، وہ تو ریاست کے فریم ورک میں سوچنے والے تھے نہیں۔ متنازعہ کلی لقمان اور کلی جہانگیر میں ایسے کئی گھر ہیں جہاں ایک ہی گھر میں رہنے والے دو سگے بھائیوں کے منسلک کمروں کے بیچ ڈیورنڈ کی لائن گذرجاتی ہے۔ یہاں پر ایسے کئی گھر ہیں جہاں مہمان خانہ ( ڈرائنگ روم) پاکستان میں اور بقیہ گھر افغانستان کے جغرافیئے میں پڑتا ہے۔ بندے نے ناشتہ کیا، کام پر گیا، دوپہر کو کھانا کھایا، بچوں کے شور وغل سے تنگ آیا، قیلولہ کرنے مہمان خانہ یعنی پاکستان چلاگیا۔یعنی ایک کروٹ پاکستان تو دوسری افغانستان۔

سرحد اگرچہ جدید قومی ریاست کا بنیادی عنصر ہے، لیکن اس کے دونوں اطراف میں رہنے والے انسان تقسیم اور اختلاف کے فریم ورک میں سوچنے سے قاصر رہتے ہیں۔ دونوں جانب ایک ہی قبیلے کے لوگ بستے ہیں، ایک ہی لہجے میں بات کرتے ہیں، ایک ہی کھیل کھیلنا جانتے ہیں، موسیقی، اتنڑ (رقص)، سُر اور ساز ایک ہی بجتا ہے ، تلمیح اور تشبیہ سے لیکر جوتے باندھنے اور ٹوپی رکھنے تک کا سٹائل ایک جیسا ہے، نماز، روزہ، زکواۃ اور حج کے بارے میں ایک ہی تصور اور ایک ہی جیسا رو یہ، یہ سارے مشترکات ایک تاریخی عمل کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوئے ہیں۔اس کیلئے نہ تو کسی ریاستی ادارے نے ہاتھ پاوں مارے اور نہ ہی کسی غیر سرکاری ادارے نے۔ بلکہ لوگ ملکر اپنے معاشی اور سماجی رشتوں کا تعین کرتے ہیں۔ وہ اگرچہ مختلف ریاستوں میں رہتے ہیں لیکن نماز، کھیل، کاروبار اور مذہبی تہوار ایک ساتھ مناتے رہے ہیں ۔

یہ مظہر صرف پاک ۔افغان سرحد پر رہنے والوں کے بیچ نہیں ۔2005 میں کشمیر میں زلزلہ زدگان کی بحالی کیلئے کام کرتے ہوئے مجھے پاکستانی اور بھارتی کشمیر کے سرحد پر رہنے والے آزاد سید پورہ کے رہنے والوں سے ملاقات کا اتفاق ہوا تھا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ وہاں بھی ایک ہی گھر کو سرحد کے خنجرسے چیرا جاتا ہے، جو بھائی پاکستانی کشمیر میں رہا وہ آزاد سیدپورہ کاباشندہ بنا اور جو ہندوستان کی جانب رہا وہ غلام سید پورہ کا رہائشی کہلایا جانے لگا ۔

اس سے متصل ایک اور واقعہ عرض کرتا چلوں کہ مجھے سال 2004میں ورلڈ سوشل فورم میں شرک کیلئے تین سو پاکستانیوں کے ہمراہ ہندوستان جانے موقع ملا تھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب دنیا جہان کے امن پسند انقلابی، سرمایہ دارانہ عالمگیریت کے خوف سےبپھرے ہوئے روایت پسند، ماحولیاتی آلودگی اور فطرت کی بقا کے جیالے ، صنفی برابری، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور وہ سرخے جن کی مثالیت پسندی ابھی پلاسٹک میں سیل تھی، اس عالمی میلے میں شرکت کیلئے گئے تھے۔

مغرب تک ہم سارے پاکستانی ہندوستان میں داخل ہو چکے تھے، زیادہ تر تعداد یہاں بھی صوبہ پنجاب کے باشندوں کی تھی، واہگہ بارڈر سے امرتسر شہر پہنچے، اور یہاں پہنچنے کے بعد پتہ چلا کہ بھارتی پنجاب کے وزیرتعلیم (جو کہ ایک پروفیسر تھے) ہمارے اعزاز میں عشایئہ دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ جوں ہی عشایئے کیلئے اترے مشرقی اور مغربی پنجاب کے بالترتیب سکھ اور مسلمان آپس میں اتنے شیئر وشکر ہوگئے کہ ہم قیام کی حالت میں ناف کے اوپر ہاتھ باندھے ششدر ہی رہ گئے۔

امت کی قلعی ایک رات کیلئے کھل سی گئی تھی، یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے، معاشرتی علوم میں تو ہم نے کچھ اور پڑھا تھا، ان سے تو ہمیں بغض رکھنے کا کہا گیاتھا۔ شاید یہ زبان، ادب، تاریخ، ثقافت اور تہذیب کی چاشنی ہی تھی جس نے دلوں کے بیچ مذہب کےنام پر کھینچے گئی سرحدوں کی تلخی کو نگل لیا تھا۔ صبح گولڈن ٹمپل کو دیکھنےگئے، دل کو موہ لینے والی قوالی گائی جارہی تھی ، ساتھ میں ایک سردار جی سے پوچھا کس کا کلام ہے؟ جواب ملا، بابابلھے شاہ دا۔ ہم نے پوچھا ہمارے والے بلھے شاہ؟؟ جی ہم سے مراد ؟؟سردار جی کا داہنا مونچھ ہل رہاتھا ۔ میں سانس لئے بغیر بتایا تھا کہ، جی میں پاکستان سے آیا ہوں؟؟ سردار جی نے پہلے پہل رعب جما یا اور پھر اچانک جھپی ڈالی، ہم نے فسادات کے فسانوں کےکھردرے سکھ کردار دیکھے تھے، مگر یہاں پر تو معاملہ مختلف نکلا ۔بلھے شاہ نے اسکے دل پر کیا جادو کیا تھا وہ جادو کی جھپیاں ڈالتا پھرتا تھا۔

لیکن ایک بات البتہ یہ واضح ہوئی کہ ہمارے مشرق اور مغرب کے سرحدوں پر ہماری ہی طرح کے لوگ رہتے ہیں جو محبت کرنا چاہتے ہیں اور جو انسانیت نبھانا چاہتے ہیں۔ تینوں ریاستوں کی سرحدوں پر لوگوں کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں، کبھی کبھار دل میں یہی خواہش موجزن ہوتی ہے کہ ریاستوں سے استدعا کی جائے کہ وہ جنگ کی ہولی ، یا ایک دوسرے کی اکھاڑ پچھاڑ کی کوئی ایسی ریت ایجاد کرلیں جس میں کم ازکم خون نہ بہے۔

ڈیورنڈ کی لائن پر رہتے ہوئے یہی احساس باربار جاگتا ہے کہ یہ دو ریاستوں کے درمیان ایک متنازعہ سرحد نہیں بلکہ پچیس سو کلومیٹر کا ایک اژدھا ہے جو وقتا فوقتا نوجوانوں کے خون کا تقاضا کرتا رہے گا۔

One Comment