ون بیلٹ ون روڈ کا منصوبہ مسترد ہو گیا

ایک چینی سفارت کار کے مطابق متعدد یورپین ممالک نے چائنہ سلک روڈ سمٹ میں ایک تجارتی بیان کو متفقہ طور پر مسترد کر دیا ہے۔ یورپی ممالک کا انکار چینی حکومت کے سلک روڈ منصوبے کی مکمل حمایت کے حصول میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔

ایک سفارتکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ دستاویز کو مسترد کرنے والے یورپی ممالک میں فرانس، جرمنی، ایسٹونیا،پرتگال اور برطانیہ شامل ہیں۔ چائنہ سلک روڈ منصوبے پر ہونے والے عالمی اجلاس میں دنیا بھر سے قریب 30 ممالک کے سربرہان مملکت و حکومت نے شرکت کی۔ بنیادی ڈھانچے کے اس بہت بڑےمنصوبے سے چین کو توقع ہے کہ یورپ، ایشیا اور افریقہ کے مابین قدیم تجارتی راستے بحال ہو سکیں گے۔

 سفارتکار کا کہنا ہے کہ سربراہی اجلاس کے تجارتی پینل میں شرکت کرنے والے تمام یورپی ممالک نے متفقہ طور پر تجارتی بیان کے متن کو مسترد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان رہنماؤں کا موقف ہے کہ متن میں سرکاری محصولات کے حوالے سے شفافیت اور یورپی سماجی اور ماحولیاتی معیارات پر مناسب اور معقول طور سے بات نہیں کی گئی۔

سفارتکار نے یہ بھی بتایا کہ چین نے یہ دستاویز گزشتہ ہفتے صرف مذاکرات کاروں کے سامنے پیش کی تھی اور کہا تھا کہ اُس میں تبدیلی نہیں کی جا سکتی۔

 بیجنگ حکومت اس اجلاس کے ذریعے ایشیا ، یورپ اور افریقہ سے اپنے تجارتی تعلقات مستحکم کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاہم کچھ ممالک کا خیال ہے کہ نئے شاہراہ ریشم منصوبے سے سب سے زیادہ فائدہ چینی برآمد کنندگان کو ہی پہنچے گا۔

چین کے اس نیو سلک روڑ منصوبے کا مقصد ایک ایسی اقتصادی راہ داری قائم کرنا ہے، جس کے ذریعے ایشیا، یورپ اور افریقہ کو زمینی اور سمندری راستے کے ذریعے ایک دوسرے سے بہتر انداز میں ملایا جائے گا۔ 

یاد رہے کہ بھارت نے بھی اس منصوبے کی تفصیلات پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ سامراجیت کی نئی شکل ہے لہذا بھارتی وزیراعظم نے  اس اجلاس میں شرکت نہیں کی اور ان کی نمائندگی دوسرے درجے کے خارجہ امور کے افسروں نہیں کی۔

حال ہی میں پاکستان کے انگریزی روزنامہ ڈان میں سی پیک کے حوالے سے پہلی دفعہ بنیادی دستاویز کو شائع کیا گیا ہے جس پر ماہرین نے ملکی سلامتی کے حوالے سے بہت سے تحفظات کا اظہار بھی کیا ہے۔اس دستاویز میں ایک اہم بات پنجاب کے حکمرانوں کی بددیانتی کو بھی بے نقاب کیا گیا ہے جس میں نواز حکومت نے تین صوبوں کو اس منصوبے کی تفصیلات سے بے خبر رکھا۔

DW/News Desk

Comments are closed.