توہین مذہب کے قوانین اور پنجاب کا کردار

لیاقت علی ایڈووکیٹ

ا نگریزوں نے ہندوستان پر قبضے کے بعد سنہ 1860 میں جو فوجداری قوانین ( تعزیرات ہند) نافذ کئے ان میں توہین مذہب کے حوالے سے کوئی خصوصی دفعہ موجو د نہیں تھی۔تاہم 1896 فوجداری قوانین میں پہلی مرتبہ دفعہ” 153 اے” کا اضافہ کیا گیا تھا۔ قانون میں یہ دفعہ شامل کرنے کا مقصد فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کی بدولت پیدا ہونے والی کشیدگی اور فسادات کا تدارک کرنا تھا ۔

اس قانو نی دفعہ کے پس پشت ہندوستان کے مختلف مذاہب کے عقائد اور ان کی قابل احترام ہستیوں کی عزت و ناموس کو تحفظ فراہم کرنے کی بجائے یہ نظریہ کارفرما تھا کہ کہیں مذہبی اختلافات سماجی انتشار کا سبب نہ بن جائیں اور حکومت کے لئے مسائل اور مشکلات پیدا نہ ہوں ۔چنانچہ تعزیرات ہند میں دفعہ” 153 اے “ کے اضافہ کے بعد توہین مذہب کی ذیل میں آنے والے مقدمات کا اندراج اور عدالت میں فیصلہ قانون کی اس دفعہ کے تحت ہوتا تھا۔

لاہور کے ناشر راج پال نے جب ’رنگیلا رسول‘ کے نام سے توہین آمیز کتاب شا ئع کی تھی تو اس کے خلاف مقدمہ بھی قانون کی اسی دفعہ کے تحت درج ہوا تھا ۔لاہور کی سیشن عدالت نے اسی قانون کے تحت اسے چھ ماہ کی سزا سنائی تھی جسے اپیل میں لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس دلیپ سنگھ نے ختم کرکے راج پال کی رہائی کا حکم دیا تھا۔

یہ وہی راج پال ہے جسے بعد ازاں علم دین نے قتل کیا اور اس قتل کی پاداش میں اسے پھانسی دی گئی تھی۔لاہور ہائی کورٹ سے راج پال کی رہائی اور علم دین کی پھانسی دو ایسے واقعات تھے جن کی بدولت ہندوستان میں بالعموم اور شمالی ہند میں بالخصوص فرقہ ورانہ کشیدگی میں زبردست اضافہ ہوگیا تھا۔

ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین بڑھتے ہوئے تناؤ اور چپقلش کی یہی وہ صورت حال تھی جو سنہ1927میں تعزیرات ہند میں دفعہ 295 اے کے اضافہ کا موجب بنی تھی۔توہین مذہب سے متعلق اس دفعہ کو قانون کی کتاب کا حصہ بنانے میں مولانا محمد علی جوہر نے اہم کردار ادا کیا تھا۔

اس دفعہ کی رو سے توہین مذہب کے جرم کی سزا دو سال تک قید یا جرمانہ مقرر ہوئی تھی اور یہ دونوں سزائیں بیک وقت بھی دی جاسکتی تھیں۔

 قیام پاکستان کے وقت نوآبادیاتی دورمیں نافذدوسرے قوانین کی طرح پینل کوڈکو بھی من و عن قانونی نظام کا حصہ بنا لیا گیا تھا۔1977میں مارشل لا کے نفاذ کی صورت جب چیف آف آرمی سٹاف جنرل ضیا ء الحق نے اقتدار پر قبضہ کیا تو جہاں بہت سے دیگر قوانین کو اسلامائز کیا وہاں انھوں نے توہین مذہب کے پہلے سے موجود قانون میں 295 بی کا اضافہ کر دیا ۔ اس قانون کا منشا ریاستی مذہب اسلام اور اس کی مقدس شخصیات کے عزت و ناموس کا تحفظ بتایا گیا تھا ۔

توہین مذہب کے موجودہ قوانین کے حوالے سے 1983 سال بہت زیادہ اہم ہے۔اس سال بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل مشتاق راج نے ’آفاقی اشتمالیت ‘ کے عنوان سے اپنی کتاب شا ئع کی جس کے بارے میں کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ اس میں موجود مواد توہین مذہب کے زمرے میں آتا ہے۔

لاہور ہائی کورٹ کے معروف وکیل اسماعیل قریشی نے لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے اجلاس میں ایک قرارداد پیش کی جس میں مطالبہ کیا گیا تھاکہ وکیل موصوف کو گرفتار کرکے انتہائی عبرت ناک سزا دی جائے ۔ سید افضل حیدر بار کے صدر تھے ۔ ان کی زیر صدارت ہونے والے بار کے اجلاس میں نہ صرف یہ قرار داد متفقہ طور پر منظور ہوئی بلکہ کتاب کے مصنف وکیل کی رکنیت بار بھی ختم کر دی گئی۔

بار کی اس قرار داد کو جن معروف وکلا کی حمایت حاصل تھی ان میں اپنی روشن خیالی اور لبرل خیالات و افکار کے لئے مشہور پیپلز پارٹی کے سابق جنرل سیکرٹری اور لا ہورہائی کورٹ کے سابق جج ملک سعید حسن مرحوم نمایاں تھے ۔سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس شیخ انوار الحق اور اعلیٰ عدلیہ کے سابق جج صاحبان نے بھی ’آفاقی اشتمالیت‘ کے مندرجات کی مذہب کی اور کتاب کو فی الفور ضبط کرنے کا مطالبہ کی تھا۔

 وہ حضرات جو یہ سمجھتے تھے کہ توہین مذہب کے جرم کی سزا موجود قانون میں کم تھی اور اس جرم کی سزا صر ف اور صرف موت ہونی چاہیے ، نے 18 جولائی 1984کو وفاقی شرعی عدالت میں ایک پٹیشن دائیر کی جس میں استدعا کی گئی تھی کہ توہین مذہب کی سزا موت مقرر کی جائے۔

محمد اسماعیل قریشی ایڈووکیٹ کی طرف سے دائر ہونے والی اس پٹیشن پر 75نامور وکلا اور سربر آبروردہ مسلمان شہریوں جن میں سابق اٹارنی جنرل شیخ غیاث محمد ، سابق جج سپریم کورٹ بی۔زیڈ کیکاؤس، لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدور سید افضل حیدر اور حامد خان کے ساتھ ساتھ اور بہت سے معروف وکلا،مذہبی رہنماؤں اور دانشوروں کے دستخط تھے۔

اس پٹیشن کو اسلامی نظریاتی کونسل کی تائید بھی حاصل تھی جس نے قبل ازیں حکومت سے توہین رسالت کے جرم میں سزائے موت مقرر کرنے کی سفارش کر رکھی تھی ۔

اٹھارہ18جولائی 19844 کو وفاقی شرعی عدالت کے فل بنچ نے اس پٹیشن کو باقاعدہ سماعت کے لئے منظور کرلیا ۔اس پٹیشن کا ایک قابل ذکر پہلو یہ بھی ہے کہ دیگر نامور وکلا کے ساتھ ساتھ لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج چوہدری محمد صدیق بھی بطور مدعی شامل تھے جب کہ حکومت کی طرف سے ان کے فرزند خلیل الرحمان رمدے جو اس وقت ایڈووکیٹ جنرل پنجاب تھے ،عدالت میں پیش ہوئے تھے۔

نہ صرف خلیل الرحمان رمدے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب جو بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے جج بنے، نے بلکہ دوسرے صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز نے بھی عدالت سے استدعا کی کہ اس پٹیشن کو منطور کر لیا جائے۔ڈپٹی اٹارنی جنرل سید ریاض الحسن گیلانی جو حکومت پاکستان کی نمائندگی کر رہے تھے، نے عدالت میں صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز کی تائید کی اور یہ موقف اختیار کیا کہ توہین مذہب کے جرم کی سزا بلا شبہ موت ہی ہے لیکن یہ قانونی اعتراض اٹھایا کہ وفاقی شرعی عدالت کو اس پٹیشن کی سماعت کا اختیار حاصل نہ ہے۔

دوران سماعت وفاقی شرعی عدالت کے روبرو ایک اور قانونی نکتہ بھی سامنے آیا اور وہ یہ تھا کہ آیا توہین رسالت یا مذہب کی سزا کا معاملہ قانون ساز اسمبلی کے دائرہ کار میں آتاہے ؟ یا وفاقی شرعی عدالت اس بارے میں وفاق پاکستان کو حکم جاری کرنے کی مجاز ہے؟۔ وفاقی شرعی عدالت نے ان نکات پر فریقین کے دلائل سماعت کرنے کے بعد فیصلہ محفوط کر لیا ۔

 ابھی یہ پٹیشن وفاقی شرعی عدالت میں زیر سماعت تھی کہ اس دوران آپا نثار فاطمہ ( والدہ محترمہ احسن اقبال رہنما اور وفاقی وزیر مسلم لیگ ن) نے قومی اسمبلی میں تعزیرات پاکستان میں ایک مزید دفعہ295سی شامل کرنے کا بل پیش کر دیا ۔قومی اسمبلی میں محترمہ نثار فاطمہ کے پیش کردہ بل کی مخالفت تونہ ہوئی لیکن وفاقی وزیر قانون اقبال احمد خاں نے اس بل میں یہ ترمیم پیش کردی کہ توہین مذہب کی سزا عمر قید یا موت ہوگی۔ چنانچہ اس ترمیم کے ساتھ یہ بل اکتوبر 1986 میں قومی اسمبلی نے منظور کر لیا۔

 اس قانون سے غیرمطمئن محمد اسماعیل قریشی ایڈووکیٹ نے وفاقی شرعی عدالت میں ایک پٹیشن دائیر کر دی جس میں 295 سی کو چیلنج کرتے ہوئے استدعاکی گئی تھی کہ توہین رسالت کی سزا بطور حد موت مقرر کی جائے اور حد کی سزا میں کمی یا اضافہ کا اختیار کسی کو حاصل نہیں ہے اور یہ ایک ایسا جرم ہے جو ناقابل معافی ہے۔

اس پٹیشن کی باقاعدہ سماعت یکم اپریل 1987 کو وفاقی شرعی عدالت میں شروع ہوئی۔عدالت نے تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام کو معاونت کے لئے طلب کیا ۔وفاقی شرعی عدالت کے فل بنچ نے متعدد تاریخوں پر اس پٹیشن کی سماعت لاہور، اسلام آباد اور کراچی میں کی اور آخر کار 6۔مارچ 1990 کو حتمی دلائل سننے کے بعد لاہور میں سماعت مکمل ہوئی۔

وفاقی شرعی عدالت کے فل بنچ کی سربراہی شرعی عدالت کے چیف جسٹس گل محمد خان کر رہے تھے جب کہ بنچ کے دوسرے ارکان میں جسٹس عبدا لکریم خان کندی، جسٹس عبادت یار خان، جسٹس عبدالرزاق تھہیم اور جسٹس ڈاکٹر فدا محمد خان شامل تھے ۔عدالت کی معاونت کرنے والے علمائے کرام میں سید متین ہاشمی، مولانا محمد حسین اکبر اجتہادی،مولانا یوسف صلاح الدین اور سید ریاض الحسن نوری قابل ذکرتھے۔

خلیل الرحمان خان رمدے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب، سند ھ کے ایڈووکیٹ جنرل محمد اجمل میاں جب کہ صوبہ سرحد اور بلوچستان کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرلز نے اپنے اپنے صوبوں کی طرف سے اس پٹیشن کے مندرجات کی تائید کی اور عدالت سے استدعا کی تھی کہ توہین رسالت کی سزا موت مقرر کی جائے۔

سید متین ہاشمی اور سید ریاض الحسن نوری مشیر وفاقی شرعی عدالت نے عمر قید کی سزا کی اسلامی احکام سے متصادم ہونے کے بارے میں اپنے دلائل پیش کئے تھے۔ڈاکٹر طاہر القادری کا موقف تھا کہ توہین رسالت کے مرتکب شخص کو فوری طور پر قتل کر دیا جائے۔

وفاقی شرعی عدالت نے 30اکتوبر 1990 کو یہ شریعت پٹیشن متفقہ طور پر منظور کرتے ہوئے توہین مذہب کی متبادل سزا عمر قید کو غیر اسلامی اور قرآن و سنت سے منافی قرار دے دیا اور حکومت پاکستان کو حکم دیا کہ عمر قید کو تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295سی سے 30اپریل 1991تک حذف کر دیا جائے بصورت دیگر عمر قید کے الفاظ اس دفعہ سے حذف سمجھے جائیں گے۔

وفاقی شرعی عدالت کے اس متفقہ فیصلے کے خلاف اسلامی جمہوری اتحاد(آئی۔جے۔آئی) کی حکومت نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی لیکن بعد ازاں وزیر اعظم نواز شریف نے اعلان کیا کہ اس اپیل کا انھیں قطعی علم نہیں تھا ورنہ وہ یہ اپیل دائر کرنے کی ہر گز اجازت نہ دیتے۔ چنانچہ ان کے حکم پر سپریم کورٹ سے یہ اپیل واپس لے لی گئی جس کے بعد یہ قانون پورے ملک میں نافذ ہوگیا اور توہین رسالت کی سزا صرف موت ہوگئی ۔

2 Comments