سیکولرازم کا نظریہ ازخود فلسفہِ قرآن ہے

آصف جاوید

سیکولرازم ایک عمرانی نظریہ ہے، ایک مہذّب طرزِ معاشرت و نظامِ ریاست ہے۔ جِس میں ریاست لادین اور غیر جانبدار ہوتی ہے۔ اور ریاست کے باشندوں کے اپنے اپنے مذاہب و عقائد ہوتے ہیں، جِن پر وہ اپنی پوری مذہبی آزادی کے ساتھ عمل کرتے ہیں۔ سیکولرازم کوئی مذہب، عقیدہ یا فرقہ قطعی نہیں ہے۔متعّصب ، اور مذہبی تنگ نظر لوگ ، سیکولر کا ترجمہ لادین کرتے ہیں جو کہ قطعی غلط ہے، ریاست لادین ہوتی ہے، ریاست کے باشندے نہیں۔

ہمیں یہاں اس ہی بنیادی فرق کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سیکولر ازم کوئی مذہب یا عقیدہ نہیں ہے ۔بلکہ ایک مہذّب و جدید نظامِ ریاست ہے، جس میں ریاست کا اپنا کوئی سرکاری مذہب نہیں ہوتاہے۔ ریاست کے باشندوں کے مذاہب و عقائد ہوتے ہیں۔ جن سے ریاست کا کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ سیکولر ریاست ،مذہب کے معاملے میں مکمّل غیر جانبدار ہوتی ہے۔ سیکولر کا ترجمہ لادین کیا جاتا ہے۔ جو کہ ریاست کے معاملے میں تو صحیح ہے، مگر ریاست کے باشندوں کے معاملے میں غلط ہے۔ ایک سیکولر معاشرے میں ریاست لادین ہوتی ہے، مگر اس ریاست کے باشندے لادین نہیں ہوتے، اُنکا کوئی نہ کوئی مذہب ضرور ہوتا ہے۔ یہی وہ بنیادی فرق ہے ، جس کو سمجھنے اورسمجھانے کی ضرورت ہے۔

پاکستان کے حوالے سے متعّصب ، اور مذہبی تنگ نظر لوگ یہ پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ سیکولرازم کے حامی پاکستان کے عوام کو لادین بناکر ان سے ان کا مذہب اسلام چھیننا چاہتے ہیں یا ان کو مذہب اسلام سے دور کرنا چاہتے ہیں۔ یہ کم علمی اور جہالت پر مبنی ایک مکروہ پروپیگنڈا ہے، جس کا واضح مقصد معصوم عوام کو گمراہ کرکے ان کو مہذّب طرز معاشرت سے محروم کرکے معاشرے میں انتشار اور کنفیوژن پیدا کرنا اور اسلام کی غلط تشریحات و تاویلات کے ذریعے معاشرے پر ملّاؤں کی گرفت کو محفوظ رکھنا ، روشن خیالی، ترقّی پسندی اور جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کے ثمرات کو اپنی انا اور اجارہ داری کی خاطر اپنے فتووں کی بھینٹ چڑھا کر عوام النّاس کو ترقّی اور خوشحالی سے محروم رکھنا ہے۔ سیکولر اِزم کے مخالفین کا اوّلین مقصد معاشرے میں مذہب کے عمل و دخل کی آڑ میں معاشرے پر اپنی اجارہ داری قائم رکھنا ہے۔

اس موقع پر ایک اور غلط فہمی کے ازالے کی بھی ضرورت ہے کہ کچھ لوگ سیکولر اور ملحد( اتھیئسٹ) کو بھی آپس میں مدغم کرکے کنفیوژن پھیلاتے ہیں۔ اور ان دونوں اصطلاحات کے فرق کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ یہ لوگ دانستہ یا نادانستہ دو مختلف نظریات کو مدغم کرکے کنفیوژن پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ملحد( اتھیئسٹ) اور سیکولر میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔

اتھیئسٹ، اللہّ تبارک و تعالیکے وجود کے انکاری کو کہتے ہیں۔ کچھ اتھئیسٹ اللہّ تبارک و تعالی کے وجود کو تو مانتے ہیں، مگر اس کے قادر المطلق ہونے پر شبہ کرتے ہیں، جب کہ اس کے برعکس سیکولر طرزمعاشرت کے حامی اپنی ذاتی زندگی میں مکمّل طور پر مذہبی ہوتے ہیں ، اور اپنے اپنے مذہب اور عقیدے کے مطابق قادرِ مطلق کی حاکمیت کا کوئی نہ کوئی وجود ضرور تسلیم کرتے ہیں۔ اور اپنے عقیدے کی تعلیمات پر ایمان رکھتے ہیں، مگر اجتماعی زندگی میں ریاست کے آئین اور قانون پر عمل کرتے ہیں جس کا کسی مذہب سے کوئی تعلّق نہیں ہوتا ہے اور جو سب کے لئے یکساں ہوتا ہے۔

سیکولر ریاست کے ہر باشندے کا اپنا ایک مذہب اور عقیدہ ہوتا ہے۔ اور اس سیکیولر ریاست میں رہنے والے تمام انسان اپنے اپنے مذاہب اور عقائد کی بنیاد پر زندگی گزارتے ہیں۔ سیکولر ریاست میں رہنے والا ہر شخص اپنے مذہب کو اپنا ذاتی فعل اور ذاتی عمل مانتا ہے۔ سیکولر طرزِ معاشرت کا حامی ہر سیکولر یہ تسلیم کرتا ہے کہ اسکا مذہب اسکا ذاتی ایمان، عقیدہ اور معاملہ ہے، اور جس ملک میں وہ رہتا ہے اس ملک کی اجتماعی زندگی میں اس کے ذاتی مذہب کا کوئی عمل دخل نہیں ہے کیونکہ اس ملک میں دوسرے مذاہب اور عقائد کے لوگ بھی رہتے ہیں ، لہذا وہ ان سب کے مذاہب اور عقائد احترام کرتا ہے۔ اور اپنے ملک کے معاشرتی قوانین اور نظامِ عدل کے مطابق اپنی زندگی گزارتا ہے۔ اپنے عقیدے پر قائم رہتا ہے، دوسرے کے عقائد پر اعتراض اور نکتہ چینی نہیں کرتا ہے۔ اپنی زندگی کو پرسکون رکھتا ہے اور دوسروں کی زندگی کو اجیرن نہیں بناتا ہے۔ اس طرح ایک سیکولر معاشرہ انتشار اور بے چینی سے محفوظ رہتا ہے۔ اور معاشرے میں رواداری کو فوقیت حاصل ہوتی ہے۔

یہ بات واضح کردی گئی ہے کہ سیکولر ریاست بلا امتیاز ہر مذہب، عقیدہ، فرقہ، زبان، رنگ و نسل تمام انسانوں کی جان و مال عزّت و آبرو، مذہب اور عقیدہ کے تحفّظ کی ضامن ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں ایک سیکولر ریاست مذہب ، عقیدہ، فرقہ، زبان، رنگ و نسل کے معاملے میں بالکل غیر جانبدار ہوتی ہے۔ ریاست کا ہر باشندہ یکساں حقوق کا حامل ہوتا ہے۔ سیکولر ریاست میں اکثریتی گروہ کے مذہب اور عقائد کو پورے ملک کا مذہب و عقیدہ نہیں بنایا جاتا ہے، ریاست اپنی جغرافیائی حدود میں رہنے والے تمام باشندوں کے ساتھ یکساں سلوک کرتی ہے۔

زیادہ عبادت گزار اور دوسروں کے عقائد اور نظریات کو شک وشبہ کی نیت سے دیکھنے والے لوگوں سے میری گزارش ہے کہ غور و فکر کرنے، سوچنے، سمجھنے، تجزیہ کرنے ،سوال اٹھانے ، تنقید کرنے یا کسی معاملے کا منطقی جواز تلاش کرنے کی بنیاد پر انسان کافر نہیں ہوجاتا۔ تنگ نظر مولویوں نے سوچنے سمجھنے، تجزیہ کرنے کی جبلّت کو مذہب کے منافی اور گناہ قرار دیا ہوا ہے۔ یہ لوگ معصوم انسانوں کو مذہب کی بند ٹوپی کو سر پر پہنا کر انسان کی عقل سلب کرکے اس کو عقیدہ کا پابند کردیتے ہیں۔

اللہّ نے انسانوں کو اشرف المخلوقات بنایا ہے، شعور کی دولت سے نوازا ہے۔ الہامی کتابوں میں بارہا انسانوں کو غور و فکر اور تدبّر کی دعوت دی گئی ہے۔ قرآنِ پاک میں تاکید کی گئی ہے کہ کہ اے انسانوں ،غور فکر کرنے، سوچنے، سمجھنے، تجزیہ کرنے ،سوال اٹھانے ، کسی معاملے کا منطقی جواز تلاش کرنے کی کوشش کیا کرو۔ یہ عمل اسلام کی تعلیمات کے منافی نہیں ہے۔ یہ شعور اس قادر مطلق کا ہی بخشا ہو ہے، جو اس کائنات کا ملک ہے۔

لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ اس شعور کو استعمال میں لایا جائے، اور ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا جائے، جہاں سارے انسان برابر ہوں، سب کو بنیادی انسانی حقوق بلا تفریق حاصل ہوں،فکری اور اظہار، رائے کی آزادی میسّر ہو، سماجی انصاف معاشرہ کا نفسِ ناطقہ ہو۔ معاشرہ کے کمزور سے کمزور فرد کو انصاف میسّر ہو۔ قانون کا یکساں اطلاق ہو۔ وسائل اور اقتدار میں مساوی اور منصفانہ شراکت ہر شہری کا بنیادی حق ہو، بنیادی انسانی حقوق و بنیادی شہری سہولتیں ، ہر شہری کا حق ہوں۔ معاشرہ ہر قسم کے جبر، قدغن اور پابندیوں سے آزاد ہو۔ ملکی قوانین مذہبی منافرت، نسلی امتیاز، لسّانی و قومی منافرت سے بالا تر ہوکر اعلیترین انصاف کے اصولوں پر بنائے گئے ہوں۔

اکثر مذہبی تبگ نظر اور اور سیکولرازم کے معانی و مفہوم سے نا آشنا لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ کیااسلام اور سیکولرازم ساتھ ساتھ رہ سکتے ہیں، یا نہیں؟۔

ان تمام لوگوں کی خدمت میں دست بستہ گذارش ہے کہ اسلام اور سیکولرازم ہی تو ساتھ ساتھ رہ سکتے ہیں۔ کیونکہ یہ دو علیحدہ علیحدہ ڈومین ہیں، ان کا آپس میں کوئی ٹکراؤ نہیں۔ کیونکہ اسلام ایک مذہب ہے اور سیکولر ازم ایک طرزِ معاشرت۔ مذہب کا تعلّق عقیدے سے ہوتا ہے اور عقیدہ انسانوں سے جڑا ہوتا ہے۔ جب کہ ریاست کا تعلّق زمین ، جغرافیہ، آئین اور قانون سے ہوتا ہے۔ ایک آزاد اور روادار معاشرہ ہی کسی مذہب کو آزادی اور عزّت و احترام فراہم کر سکتا ہے۔ اور ایسی آزادی صرف سیکولر معاشرے میں ہی ممکن ہے۔

مذہبی معاشرے بہت تنگ نظر اور ظالم ہوتے ہیں اور کسی مخالف مذہب اور عقیدے کو عزّت و آزادی فراہم نہیں کرسکتے ہیں۔ سعودی عرب کی مثال اس سلسلے میں پوری طرح صادق آتی ہے، جہاں حرمِ پاک اور دوسرے مقاماتِ مقدّسہ تک غیر مسلموں کی رسائی ایک شجرِ ممنوعہ ہے۔ جبکہ صرف سیکولر ریاست ہی مذہب ، عقیدہ، فرقہ، زبان، رنگ و نسل کے معاملے میں بالکل غیر جانبدار ہوتی ہے۔ سیکولر ریاست کا ہر باشندہ یکساں حقوق کا حامل ہوتا ہے۔ سیکولر ریاست میں اکثریتی گروہ کے مذہب اور عقائد کو پورے ملک کا مذہب و عقیدہ نہیں بنایا جاتا ہے، سیکولر ریاست اپنی جغرافیائی حدود میں رہنے والے تمام باشندوں کے ساتھ یکساں سلوک کرتی ہے۔ جس کی اعلی ترین مثالیں کینیڈا ، امریکہ اور برطانیہ ہیں جہاں مسلمانوں اور ان کے مذہب اسلام کو دوسرے تمام اسلامی ممالک سے زیادہ مذہبی آزادی ، عزّت و احترام حاصل ہے۔

مذہب اسلام خود ایک سیکولر طرزِ معاشرت کی حمایت کرتا ہے۔ سیکولرازم کا فلسفہ خود قرآن میں موجود ہے۔ قرآنِ پاک کی سورہ الکافرون میں ارشاد، باری تعالیٰ ہے ۔

۔کہہ دو اے کافروں ، نہ تومیں تمہارے معبودوں کی عبادت کرتا ہوں، اور نہ تم ہی میرے معبود کی عبادت کرتے ہو، اور نہ میں تمہارے معبودوں کی عبادت کروں گا، اور نہ تم میرے معبود کی عبادت کرو گے، تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین۔

قرآنِ پاک کی یہ آیت مبارکہ اس بات کی دلیل ہے کہ سیکولر ازم اور اسلام نہ صرف ساتھ ساتھ رہ سکتے ہیں، بلکہ یہ تو ہیں ہی ایک دوسرے کے لئے۔ وما علینا الالبلاغ۔

6 Comments