بدترین جانور، باگڑ بلّے دانشور

جمیل خان

یہ اُس زمانے کی بات ہے، جب بڑی بیٹی وردہ سیکنڈری کلاس میں پڑھ رہی تھی۔ اس کے اسلامیات کے ٹیچر نے ہوم ورک دیا کہ تلاش کرو، قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے سب سے زیادہ کس چیز پر زور دیا ہے۔ہم اُن دنوں ایک معروف مذہبی میگزین کے ایڈیٹر تھے، چنانچہ وردہ نے ہم سے مدد چاہی۔ ہم نے بتایا کہ قرآن پاک میں سب سے زیادہ غوروفکر پر زور دیا گیا ہے، اور اس قدر سختی سے تاکید کی گئی ہےکہ جو لوگ عقل استعمال نہیں کرتے، انہیں بدترین جانور کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے۔ ہم نے سورہ انفال کی آیت نمبر 22 کی نشاندہی کردی۔

 اگلے روز وردہ بیٹی نے اپنا ہوم ورک ٹیچر کے سامنے پیش کیا تو وہ اسے دیکھ کر آگ بگولا ہوگئے۔ فرمانے لگے کہ اللہ پاک نے نماز کی سب سے زیادہ تاکید کی ہے، اور جو نماز نہ پڑھے اسے بدترین جانور سے تشبیہہ دی ہے، تم نے بالکل غلط لکھا ہے، اور قرآنی آیت کا ترجمہ بھی غلط کیا ہے۔

وردہ نے قرآن پاک میں مذکورہ آیت اور اس کا ترجمہ موصوف کے سامنے رکھ دیا۔ لاجواب ہوجانے پر بہت جزبز ہوئے لیکن تلملا کر رہ گئے۔ وہ حضرت اسلامک اسٹڈیز میں ڈگری یافتہ تھے، لیکن اس روز کے بعد حواس باختہ ہی دکھائی دیے، اور اپنے تمام پیریڈز کے دوران خواتین کو مرد کے تابع رہنے، جہنم میں ان کی افراط ہونے، گناہوں میں خواتین کے آگے آگے رہنے ، خاص طور پر میک اپ وغیرہ کی وجہ سے عذاب میں مبتلا ہونے، چہرے اور بھنووں کے بالوں کو اکھڑوانے کی بدترین سزاؤں کو بیان کرتے رہتے۔

 ہم نے بھی اپنے زمانہ طالبعلمی میں ایک عرصے تک دینیات پڑھی تھی، پھر وہ خودساختہ امیرالمؤمنین ضیاع الحق سے متاثر ہوکر اسلامیات میں تبدیل ہوگئی۔ دینیات میں رواداری، تحمل، صبر، اعلیٰ ظرفی سمیت دیگر اخلاقی قدروں اور حقوق العباد پر زور دیا جاتا تھا۔ ظاہر ہے، ان سے معاشرتی سدھار میں مدد ملنے کی امید کی جاسکتی ہے۔ لیکن ضیاع الحق کے بعد سے طویل طویل سورتوں کو ترجمہ و تشریح سمیت یاد کرنا لازم کردیا گیا۔ 

اس سال چھوٹی بیٹی حمدہ نے دسویں جماعت  کا امتحان دیا ہے، اس کی کلاس ٹیچر نے سورہ احزاب کی 69 تا 73ویں آیات کا عربی متن، ترجمہ اور تشریح کے ساتھ ساتھ ایک قصہ بھی یاد کرنے کی ہدایت کی، وہ قصہ کچھ یوں تھا کہ ….

’’حضرت موسیٰ ؑ بڑے حیادار اورشریف النفس تھے، حیا کی وجہ سے  وہ اپنے جسم کو اس طرح چھپائے رکھتے تھے کہ کہیں سے بھی جلد نظر نہ آئے۔ بنی اسرائیل کے بعض لوگوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ موسیٰؑ جو اپنے جسم کو اتنا چھپا کر رکھتے ہیں، ضرور ان کو کوئی اندرونی بیماری، برص یا کوڑھ جیسا کوئی مرض لاحق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰؑ کو اس غلط فہمی سے پاک کرنا چاہا، جس کی صورت یہ ہوئی کہ ایک روز غسل کے بعد جب آپؑ کپڑے پہننے اس پتھر کے پاس آئے، جس پر آپؑ اپنے کپڑے رکھتے تھے تو پتھر کپڑے لے کر بھاگ کھڑا ہوا۔ آپؑ بے لباسی کی حالت میں لاٹھی لے کر پتھر کے پیچھے بھاگے اور پکارتے جارہے تھے کہ پتھر میرے کپڑے، پتھر میرے کپڑے…. آخرپتھر بنی اسرائیل کی ایک جماعت کے پاس پہنچ کر رُک گیا۔ لوگوں نے آپ کو دیکھا کہ آپ اندرونی طور پر بہت مضبوط اور کسی بھی نقص سے پاک ہیں، آپ نے وہیں لباس زیب تن فرمایا اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے لوگوں کی بدگمانی دور کردی‘‘۔

 میری بیٹی کو یہ مثال ناصرف احمقانہ بلکہ بیہودہ معلوم ہوئی، ہم بھی اس کے حوالے سے اس سے زیادہ کچھ نہیں کہنا چاہیں گے۔ ہمارا مقصد آپ کی توجہ اس جانب مبذول کروانا ہے کہ مذہب کو تماشہ خود اس قسم کے مذہب پرستوں نے بنایا ہے۔ 

 جب تعلیمی اداروں میں یہ سب پڑھایا جائے گا تو ہمیں ایسے ہی تجزیہ نگار، دانشور اور اسکالر میسر آئیں گے، جو جنات سے بجلی حاصل کرنے کا فارمولہ پیش کریں گے، جھاڑو لگانے سے بارش برسنے کو آئن اسٹائن کے فارمولوں سے ثابت کریں گے، نیلی پیلی روشنیوں سے کینسر کا علاج فرمائیں گے، لیکن خود یا کسی عزیز کو کینسر ہوجائے تو آغاخان میں جاکر لیٹ جائیں گے۔ اوراد و وظائف سے دنیا کے تمام مسائل کا حل تلاش کیے جائیں گے اور تعویزات و عملیات کے توہمات سے لاکھوں روپے کمائے جائیں گے…. اور اگر کوئی ان باگڑبلّوں کی ایسی ہی کسی احمقانہ یا بیہودہ قسم کی موشگافیوں کو جھٹلائے گا تو اس کے گلے میں توہین مذہب کا طوق پہنانے کی کوشش کی جائے گی۔ 

ایک صاحبہ نے فیس بک پوسٹ تحریر فرمایا تھا کہ جو لوگ مولوی کو بُرا کہتے ہیں وہ دراصل اسلام کو بُرا کہتے ہیں، ہم نے عرض کیا کہ مولوی کی کون سی بات اسلام کے مطابق ہے، بلکہ ہمارے خیال میں توپورے کا پورا مولوی ہی اسلام کے کسی خانےمیں فٹ نہیں بیٹھتا۔

 جو لوگ فطرت کی آزاد فکر کے حامل ہیں، وہ عناصرِ فطرت کی مانند اغراض و اغماض سے بھی آزاد ہوجاتے ہیں، ان کے ذہن تعصبات سے پاک ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ ان کے متعلق یہ گمان رکھنا کہ وہ کسی مذہب کو بُرا کہیں گے، نہایت غلط رویہ ہے۔ جبکہ مذہب کے ٹھیکے داروں کے خلاف تو خود الہامی کتابوں میں سخت لعنت ملامت کی گئی ہے۔ قرآن پاک کی ایک آیت کا مفہوم کچھ یہ ہے کہ یہ لوگ اللہ کی آیات کا کاروبار کرتے ہیں اور لوگوں کو اللہ کی راہ سے دور کردیتے ہیں، اللہ ان کے پیٹوں کو دوزخ کے عذاب سے بھر دے گا۔ مولویوں کے پیٹوں کو دیکھیے جہنم کا کچھ حصہ بقدر جثّہ سمایا ہوا محسوس ہوجائے گا۔

 قبل از ضیاع الحق مذہبی ٹھیکے داروں اور غنڈوں کی معاشرے پرایسی گرفت نہیں تھی، لیکن آج صورتحال یہ ہے کہ ہر دوسرا فرد مذہب کا ٹھیکے دار بن چکا ہے، اپنی تمام بداعمالیوں، بدفعلیوں اور حرامخوریوں پر پردہ ڈالنے کے لیے اس کو مذہب کی آڑ میسر آگئی ہے اور کوئی مذہب کے اس پردے کو چاک کرکے اس کا گھناؤنا اور مکروہ چہرہ سب کے سامنے لانے کی کوشش کرے تو پھر وہ مذہبی ٹھیکے داری کے منصب سے بلند ہوکر الحمدللہ مذہبی غنڈہ گردی پر اُتر آتا ہے۔

One Comment