ڈونلڈ ٹرمپ ،مسلمان اور تھیوکریسی 

بیرسٹرحمید باشانی

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دورہ سعودی عرب مختلف حلقوں میں زیر بحث ہے۔ اس دورے کو مختلف لوگ اپنے اپنے زاویہ نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔اس سے اپنی اپنی مرضی کے نتائج اخذکر رہے ہیں۔ امریکی صدر کے میزبان سعودی حکمرانوں کے نزدیک اس دورے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مغرب اور اسلام کے درمیان کوئی جھگڑا نہیں ہے۔گویا اسلام کی نمائندگی سعودی حکمرانوں کے پاس ہے۔اور مغرب کا نمائدہ ڈونلڈ ٹرمپ ہے۔

حقیقت اس کے بر عکس ہے۔سعودی عرب میں اسلام کے مقدس مقامات ہیں۔خانہ کعبہ ہے۔ رو ضہ رسول ہے۔اس وجہ سے دنیا بھر کے عام مسلمانوں کو سعودی سر زمین سے ایک خاص عقیدت ہے، احترام ہے۔لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ دنیا بھر کے مسلمان سعودی حکمرانوں کو اپنی نمائندگی کا حق دیتے ہیں۔اس کے بر عکس یہ بات بڑے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ اگر عام مسلمانوں کو اس سوال پر رائے دہی کا موقع دیا جائے تو وہ ایک غالب اکثریت سے سعودی حکمرانوں کی قیادت کو مسترد کر دیں گے۔

سعودی عرب ایک تھیو کریٹک ریاست ہے۔یہاں بادشاہت ہے۔اور ایک خاندان کی حکمرانی ہے۔ دنیا بھر میں آباد اٹھانویں فیصد سے بھی زائدمسلمان بار بار ان تینوں چیزوں کو رد کر چکے ہیں۔جہاں کئی بھی ان کو موقع ملا یا موقع دیا گیا انہوں نے ان تینوں چیزوں کو یکسر مسترد کر دیا۔ بادشاہت کے خلاف عام مسلمانوں کی جہدو جہد اور نفرت کی ایک طویل تاریخ ہے۔افغانستان سے لیکر ایران اور مراکش تک بادشاہتوں کے خلاف عوام کا غصہ تاریخ کی حالیہ مثالیں ہیں۔

یہ الگ بات ہے کہ اس غصے سے رجعت پسند قوتوں نے غلط فائدہ اٹھایا۔اور اسلام کے نام پر کئی ملاں اقتدار پر قابض ہوئے۔ کئی خانہ جنگی مسلط کی گئی۔اس طرح مسلمانوں کو جب بھی موقع ملا انہوں نے ٓآمریت پر جمہوریت کو ترجیح دی۔بلکہ آمریت کے خلاف سخت جہدو جہد اور مزاحمت کی۔پاکستان اور بنگلہ دیش سے لیکر مصر اور الجزائر تک ایسی درجنوں مثالیں موجود ہیں۔اس طرح عام مسلمانوں کو جب بھی موقع ملا انہوں نے تھیوکرسی کو مسترد کیا اور سیکولر نظام کے حق میں رائے دی۔اس کی ایک بڑی مثال انڈونیشیا ہے جہاں دنیا میں سب سے زیادہ مسلمان بستے ہیں مگر ریاست مکمل سیکو لر ہے۔اسی طرح بنگلہ دیش،ترکی، الجزائر مراکش سمیت کئی ملکوں نے ایک جمہوری اور قانونی سلسلہ عمل کے ذریعے ریاست کو مذہب سے الگ کیا۔

پاکستان اور بھارت میں عام مسلمانوں میں سیکولر رحجانات کی تاریخ میں واضح مثالیں ہیں۔قیام پاکستان سے کچھ عرصہ پہلے تک برصغیر کی ساری مذہبی جماعتیں تقسیم کے مطالبے کے خلاف تھیں۔وہ اسے سیکولر قائد اعظم کی قیادت میں مسلمانوں کی تقسیم قرار دیتے تھے۔مگر عام مسلمان کافی تعداد میں ان کو سننے کے بجائے سیکولر قائد اعظم کے ساتھ چل بڑے۔یہ الگ بات ہے کہ قیام پاکستان کے بعد ان ہی مذہبی جماعتوں نے پلٹا کھایا اور فوجی آمریتوں کے ساتھ مل کر ملک میں تھیوکرسی مسلط کرنے میں جت گئے۔

اس کے بر عکس بھارت میں آج بھی عام مسلمان سیکولر ازم کا پر جوش حامی ہے۔ان کے علمائے کرام سیکولرازم کے حق میں فتوے دیتے ہیں۔اس کی بقا کے لیے لڑنے اور مرنے کا عزم کرتے ہیں۔عام مسلمان ایسے ہی ہیں۔اور ان کی واضح اکثریت انڈونیشیا، بھارت، بنگلہ دیش، پاکستان وغیرہ میں اباد ہے، سعودی عرب میں نہیں۔اس لیے سعودی عرب کے حکمران کسی بھی طریقے سے عالم اسلام یا مسلمانوں کی نمائندگی کا دعوی نہیں کر سکتے۔

ان سب باتوں سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں آباد مسلمانوں کی ایک بہت بڑی اکثریت ثقافتی اور سماجی مسائل پر سعودی حکمرانوں سے مختلف بلکہ متضاد روئیے رکھتی ہے۔سعودی عرب کے لیے ٓآج بھی عورت کو کار چلانے کی جازت دینا ایک مسئلہ ہے۔اس کے بر عکس پاکستان،بنگلہ دیش اور ترکی جیسے اسلامی ملکوں میں عورت ہوائی جہاز سے لیکر ملک چلانے تک کی اہل اور حقدار سمجھی جاتی ہے۔انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کے سوال پر عام مسلمانوں اورسعودی حکمرانوں کی سوچ متصادم ہے۔ان سارے تضادات کی موجودگی میں کوئی ایک ملک پورے عالم اسلام کو ایک قرار دیکر اس کی نمائندگی کا دعوی نہیں کر سکتا۔

جہاں تک دوسری طرف یعنی صدر ٹرمپ کی بات ہے تو وہ امریکہ کے صدر تو ہیں مگر وہ پورے مغرب کی نمائندگی نہیں کرتے۔وہ امریکہ کے پاپولر ووٹ سے منتخب نہیں ہوئے۔ان کے بہت سارے خیالات و نظریات مغرب کے تسلیم شدہ سیاسی اخلاقیات اور نظریات سے متصادم تصور کیے جاتے ہیں۔ان کے کئی ذاتی روئیے، سرگرمیاں اور خیالات مغرب کی مسلمہ اخلاقی اقدار سے میل نہیں کھاتی۔اس لیے شاہی خاندان کی طرف سے صدرٹرمپ کو مغرب کا نمائندہ اور خود کو اسلام کا نما ئندہ قرار دینا اور اس دورے کو مغرب اور اسلام کے درمیان مکالمہ قرار دینا اصل صورتحال کو ضرورت سے کچھ زیادہ ہی بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے مترادف ہے۔

Comments are closed.