عورت علم وفلسفے میں مغلوب کیوں۔۔۔

پائند خان خروٹی

انسانی تاریخ کا یہ بڑا المیہ ہے کہ تقریباً ساڑھے تین ہزارسال پر مبنی پدر سری نظام میں انسانی آبادی کے نصف سے زائد حصہ جیسے صنف مظلوم بھی کہاجاتا ہے کو اس کے بنیادی منصب سے محروم رکھا گیا ہے اور سب سے تکلیف دہ بات یہ ہے کہ علم وادب, فکر ودانش اور تاریخ وفلسفہ کے اہم شعبوں میں آج بھی مرد کی بالا دستی اور اجارہ داری کاتصور مستحکم ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی تاریخ میں علم وادب کے کسی بھی شعبے میں عورت کاکردار نہ ہونے کے برابر ہے ۔

اس صورتحال کے نتیجے میں ہماری سوچ اوراپروچ کے زاویوں میںیک طرفگی پیدا ہوگئی ہے اور ہم نے کسی بھی چیز کے بیان اور تشریح کیلئے صرف مرد(بھائی ، باپ ، بیٹا اور خاوند) کے نقطہ نظر کواختیار کررکھا ہے اور عورت( بہن ، ماں ، بیٹی اور بیوی ) کے نقطہ نظر کو رد یا نظرانداز کرنے کے باعث ہم کسی بھی معاملے میں پورے سچ تک پہنچنے کی صلاحیت سے محروم ہے ۔

فن جو نادار تک نہیں پہنچا
ابھی معیار تک نہیں پہنچا

معاشرے میں عورت کو محروم ا ور محکوم رکھنے کی وجہ سے ان کے جداگانہ تخلیقی اظہار اور مخصوص مشاہدے اورتجربے سے استفادہ کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ دہلی یونیورسٹی کی پروفیسر سکر یتا پال کمار نے طرز اظہار اور اسلوب پرجنس کے اثرات کو یوں بیان کیا ہے کہ اگر ’’ لکھنے والوں میں عورت اور مرد کے تجربات کو بنظر غائیر دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ عورت کے تجربات کی دنیا مرد کی دنیا سے کتنی مختلف ہے ۔ حتیٰ کہ اس کے موضوعات بھی مختلف اور اس کااسلوب بھی جداگانہ ہوتا ہے ۔ جدید’’ نونسوانی نظریات ‘‘کے حامی نقادوں نے تو یہاں تک ثابت کیا ہے کہ لکھنے والے کی جنس جملوں کی ساخت اور کبھی کبھی زبان کے استعمال پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔‘‘(1)۔

فلسفے کے اولین معلوم مکاتب فکر یونان کے انسانی دیوتا کے تصور سے لیکر افلاطون کے بادشاہ فلاسفرز تک اور جرمن فلاسفر نطشے کے مرد کامل سے لیکر علامہ اقبال کے مرد مومن تک تمام ہیروز مرد ہی ہے ۔ اس طرح بین الاقوامی سطح پر کئی نامور مفکرین وشعراء عورتوں سے نفرت اور دشمنی کی فہرست میں شامل ہیں ۔ دینی مدارس کے نصاب کے دلدادہ شیخ سعدی نے دنیا کی ہرعورت کے اچھے کام پر بھی لعنت بھیج کر رہی سہی کسر بھی پوری کردی ۔

تمام عورت دشمن اہل فکر وقلم کے خیالات کو زیر بحث لاکر میں اپنے قارئین کے منہ کاذائقہ خراب نہیں کرنا چاہتا ہوں ۔ اس کے علاوہ علم وفلسفہ کے میدان میں ایک سوال ہر ذی شعور شخص کی زبان پر ہے کہ انسانی تاریخ میں کوئی قابل ذکر فلاسفر ، مفکر اور نظریہ دان خاتون نظر کیوں نہیں آتی ۔ اس کے یہ معنیٰ ہرگز نہیں ہے کہ عورت علمی ،فکر ی اور تخلیقی جوہر سے محروم ہے بلکہ یہ مردانہ تسلط کانظام اور علم ودانش کے تمام سرچشموں پر بالا دست طبقہ کی اجارہ داری ہے جو کسی شعبہ میں عورت کو آگے آنے نہیں دیتی ۔واضح رہے کہ عورت کو پہلی دفعہ خلاء تک پہنچانے اور نظریہ دان بنانے کا سہرا بھی اشتراکی قائدین اور مفکرین کے سر ہے۔

انسان کے ہاتھوں انسان کے استحصال کو مسترد کرنے والے استحصالی اور سامراجی نظام کے ناقدین خاص کراشتراکی مفکرین کارل مارکس اور فیڈرک اینگلز نے صنفی مسئلہ کوبھی سائنسی اور طبقاتی انداز فکر میں دیکھا اور اسی بات کی نشاندہی کی کہ عورت کے استحصال کامسئلہ ملکیت داری نظام کے ساتھ بندھا ہوا ہے اور غلام داری ، جاگیرداری اور سرمایہ دارانہ نظام کے اندر کسی نہ کسی طور پر برقرار رکھا گیا ہے ۔

ان اشتراکی دانشوروں کے موقف کے مطابق عورت کی بطور انسانی تفہیم ، اس کی مساوی حیثیت ، مقام کے تعین اور آزادی کی تکمیل کیلئے سرمایہ کی بالا دستی کے نظام کاخاتمہ لازم ہے جس کے بعد ہی عورت کو شئیکموڈیٹی کی بجائے برابر انسان سمجھنے کے امکانات روشن ہوسکتے ہیں ۔ 

جب مادر سری نظام کاخاتمہ ہوا اور مردنے گھر کے اندر بھی سربراہی کا کردار سنبھال لیا تو اس نئی صورتحال میں اس کاجائزہ لینے ، عورت کی حیثیت کاتعین کرنے اور اس کاحل تلاش کرنے کی خواہش بھی منطقی طور پر فروغ پانا شروع ہوئی ہے ۔ پدر سری نظام کے مختلف پہلوؤں کے حق اور مخالفت میں کئی نظریات اور رجحانات بھی تشکیل پاتے رہے ۔

مارکسی دانشوروں کے علاوہ صنفی امتیازکے مسئلے کے حوالے سے مختلف مکاتب فکر نے اپنا اپنا نقطہ نظر پیش کیا:۔
سماجی وحیاتیاتی نظریہ کے تحت عورت کوفطری اور جسمانی ساخت کے اعتبار سے عورت کو حقیر ، کمزور اور کم تر قرار دیا جس کی وجہ سے عورت کی کمتری کے تصور کوفروغ حاصل ہوا۔

نسائیت نظریہ کے علمبردار وں نے مرد میں موجود عورت سے نفرت اور مردانہ تسلط کو ہدف تنقید بنایا ۔ یعنی انہوں نے نتیجہ و سبب قرار دیا ۔ اسی طرح نسائیت پسندوں نے پدر سری نظام کی بنیاد ملکیت داری نظام کو چھپانے کی کوشش کی ۔ یہ تصور اپنی اصل میں رد عمل اور رجعتی ذہنیت کاعلمبردار ہے جو استحصالی نظام کے خلاف مزاحمت کو غیر اہم قرار دیکر عورت اور مرد کے درمیان جنگ چھیڑ دی ۔

پدر سری نظام کو دوام وتحفظ دینے کیلئے دھیرے دھیرے مختلف نظریات اور افکار وضع کیے گئے یہاں تک کہ مختلف عقائد کے پیروکاروں نے بھی مافوق الفطرت قوتوں کے نام پر ایسی روایات، رسم ورواج اور ریاستی قوانین کو فروغ دیاجس کی نشاندہی پاکستان میں عورت فاؤندیشن کی نمائندہ ملیحہ ضیاء نے یوں کی ہے :
” These highly patriachal views are steeped in the traditional culture of Pakistan. However, These views were given massive support and formal support during the presidency of General Zia ul Haq . While such views were always present,They were now perpetuated by the state through its actions, institutions and through law”.(2)

وہ مقدس مگر جھوٹی روایات اور رجعتی قوتوں نے عورت کوانسانی منصب سے گراکر محض جنسی اور مرد کی شہوت کاغلام اور بچے پیدا کرنے کی مشین کی سطح پر لاکھڑا کیا ۔ اس طرح عورتوں کے جائز حقوق اور اختیارات کادائرہ مزید تنگ ہوتا رہا جس کو شاہکار کتاب کی مصنفہ میریلین فرنچ نے یوں بیان کیا ہے :’’ 19 ویں صدی تک پوری دنیا کے لوگ اس چھوٹی سے اشرافیہ کے کارکن یا وفادار محکوم ہوچکے تھے اور تقریباً ساری عورتیں مردوں کی محکوم ہوچکی تھیں ۔ مرد صدیوں کی انتھک کوششوں کے سبب عورت کو قعر مذلت میں دکھیل دینے میں کامیاب ہوگیا ۔ عورتیں تقریباً سبھی انسانی حقوق۔۔ سیاست کاحق ، ترکے میں حصے کے حق ، جائیداد رکھنے کاحق یا اپنے طور پر کاروبار کرنے کاحق گویا تمام حقوق۔۔ سے محروم ہوگئیں ۔ حتیٰ کہ انہیں اپنے جسم پر بھی مکمل حق اور اختیار حاصل نہ تھا ‘‘۔(3)۔

مسلمانوں میں نسبتاً انسان دوست تصور کیے جانے والے صوفیانہ رجحانات میں بھی مرد کی بالا دستی کانظریہ حاوی نظر آتا ہے ۔ عرب وعجم میں عام تصور کے مطابق تین ایسی شخصیات ہیں جنہیں’’ قلندر‘‘ کا درجہ حاصل ہے جن میں حضرت لعل شہباز قلندر ، حضرت بوعلی سینا آف پانی پت اور حضرت بی بی رابعہ بصری شامل ہیں تاہم تین کی بجائے ڈھائی قلندر کاذکر ہوتا ہے ۔ حضرت رابعہ بصری کی تمام ترعظمت کے باوجود صرف عورت ہونے کی بناء پر ان کے درجہ کو نصف کردیا جاتا ہے ۔

اسلامی تاریخ میں مصر کی انٹر نیشنل شہرت یافتہ خاتون اور ’’ وومن اینڈ جینڈر‘‘ کی مصنفہ لیلیٰ احمد کی کتاب میں عرب کے ابتدائی اسلامی معاشرے اور بعد کی عجمی معاشروں میں تشکیل پانے والے قوانین ،تعبیروں ،ترجموں اور تفسیروں میں صنفی امتیاز کے حوالے سے پائے جانے والے تضادات کی نشاندہی کی ہے اور ایک مردانہ حاکمانہ معاشرے کے قیام پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے جس کی کتاب کا خلاصہ کچھ یوں ہے :’’ مسلمان مفسرین نے عجمی معاشروں میں رائج تصورات کے زیراثر قرآن مجید کی تشریح کی ہے ۔ اس طرح قرآن مجید نے مساوات اور عدل کے جن تصورات کو پیش کیا تھا ان کی جگہ عدم مساوات اور ناانصافی پرمبنی رواج پاگئے۔(4) ۔

تاریخ میں عورت کی محکومیت ، مغلوبیت اور محرومیت کو برقرار رکھنے کیلئے پدرسری نظام کے محافظین مختلف حربے اور ہتھکنڈے استعمال کرتے آرہے ہیں ۔ انہیں گھر کی چاردیواری میں گونگی اور بہری رکھی گئی ہیں ۔ ان پر علم وشعور کے دروازے بند رکھے گئے ۔ یہاں تک کہ تمام سیاسی ومعاشی سرگرمیوں پر مرد کی بالا دستی کوبرقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ ثقافتی ،سما جی اور دیگر تمام سرگرمیوں سے عورت کوخارج رکھاگیا ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے پدر سری نظام کے ثقافتی اقدار اور ریاستی قوانین بھی عورت کی قیمت پر وضع کیے گئے ہیں ۔ میریلین فرنچ نے اس یقین کااظہار کیا ہے کہ ’’ پدرسری نظام کاآغاز اور پھیلاؤ دراصل عورتوں کے خلاف ایک طرح کی جنگ ہے ۔‘‘(5)۔

پدر سری نظام کے اثرات تمام شعبوں پر دور تک پڑتے گئے یہاں تک کہ لسانیات کو بھی اس نظام نے متاثر کیا اور ایسے الفاظ ، محاورے ، القابات اور علامات وغیرہ عام ہوئی ہیں جن کاتعلق مردانہ تسلط کے ساتھ دیکھا جاسکتا ہے ۔ اس طرح ادبی تخلیقات ، افسانوں ، ناولوں ، فلموں ، ڈراموں ا ور فوالکلوری داستانوں کے بالا دست کردار بھی مرد ہی نظرآتے ہیں ۔ آسمانی بادشاہت سے لیکر زمینی بادشاہت تک ، قائدانہ اوصاف سے لیکر عسکری القابات اوررتبوں تک کو مذکر کے درجہ میں رکھے گئے ۔ اگرعلم وہنر تمام بنی نوع انسان کی مشترکہ میراث ہے تو ادب ، سیاست اور فلسفہ کو ایک جنس کیلئے مخصوص رکھنا بے انصافی کے مترادف ہے ۔

اردو شعر وادب میں عورت کاکردار مردانہ حرص وہوس کاسب سے پسندیدہ موضوع ہے ۔ حسن وشباب کے جلوؤں سے درباری محفل کو گرمانے ، محبوبہ کے رنگ میں آشکار کرنے بلکہ جنسی تسکین کے طور پر عورت کو پیش کیاجاتا ہے اور عورت کی دلکش اداؤں ا ور انداموں کاذکر بطور ایندھن استعمال کرنے اور عورت کو اسی کردار تک محدود رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ شعر وادب کے ذریعے عورت کو اپنی غلامانہ حیثیت پرراضی کرنے اور ظلم وجبر سہنے پر صبر وشکر ادا کرنے کی تلقین کی جاتی ہے ۔ شاعری میں زلف ورخسار پر لفاظی ، ان کی دلکش اداؤں پر ردیف وقافیہ باندھنے اور عشقیہ داستانیں باربار ترتیب دینے سے نئی نسل کو گمراہ کرنے میں گمراہ کن کردار ادا کرتے ہیں ۔

مسلم معاشروں اور خاص طور پر بوسیدہ جاگیردارانہ اور قبائلی سماج میں عورت کو سیاسی طور پر محکوم رکھنے کی روش مستحکم ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے ملک خصوصاً پسماندگی اورمحرومی کے شکار علاقوں میں تمام معاشرتی وسیاسی سرگرمیاں یک صنفی سیاست کابری طرح شکار ہیں ۔ فیشن کے طور پر اِکا دُکا خواتین کوسیاسی پلیٹ فارم پر نمایاں کرنے سے یک صنفی سیاست کاچہرہ تبدیل نہیں کیاجاسکتا ۔ یقیناًیہ ایک کٹھن اور حل طلب مسئلہ ہے ۔

ڈاکٹر سیمی نغمانہ کہتی ہے کہ ’’جہاں اکیسویں صدی میں بھی اظہار روایت اور قبائلیت کی گرفت سے آزاد نہ ہوسکا ہو، وہاں خواتین کے ذہنی وفکری سفر کو مرتب کرنا اس قدر آسان کام نہیں ہے ۔‘‘(6)۔

پشتون افغان ثقافتی تاریخ کاجائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ پشتونوں میں مادر سری نظام کی روایت بہت دیر تک مستحکم رہی ہے البتہ موجودہ محققین اور دانشوروں نے اسے بھرپور طورپر اُ جاگر نہیں کیا۔ علاوہ ازیں پوری اسلامی دنیا کے 57ممالک میں پشتون افغان وطن کو کریڈٹ جاتا ہے جن کے غیور فرزندوں رہبر امیر غازی امان اللہ خان اور رہبر کبیر استاد نور محمد ترکئی نے پہلی بار 1919 اور دوسری بار1978 میں عورتوں کے حقوق وآزادی کے تحفظ کیلئے باقاعدہ قانون سازی کی اور ریاستی سطح پر تمام مساوی حقوق کااہتمام کیا۔ یہ بات بھی تحقیق طلب ہے کہ 1970کے بعداچانک پشتون افغان معاشرے میں وہابیت ،خامنیت اور اخوانیت کو کیونکر پروان چڑھایا گیا ۔۔۔؟؟؟۔

ابھی بھی ہمیں اشتراکی مفکر اعظم کارل مارکس کی اس بات سے اتفاق کرنا پڑتا ہے
“Social progress can be measured by the social position of the female-sex”.

یعنی کسی بھی معاشرے کی آزادی یاترقی کوجانچنے کیلئے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اس معاشرے کی عورتوں کوترقی وآزادی میں کتنا حصہ ملا ہے ۔ یعنی جس معاشرے کی عورت آزاد اور ترقی یافتہ نہیں ہوتی اس معاشرے کو مجموعی طوپر آزاد اور ترقی یافتہ نہیں کہاجاسکتا ۔

مرد اور عورت کی اصل لڑائی تواُس استحصالی اور کینسرزدہ نظام کے خلاف ہے جس نے بہ یک وقت معاشرے کی عظیم اکثریت کے تمام عورتوں اور مردوں کو محروم ، محکوم اور معاشی غلام بنا رکھا ہے ۔ صر ف انسان کے ہاتھوں انسان کے استحصال کے خلاف مشترکہ جدوجہد اور فعال کردار ادا کرکے ہی حقیقی صنفی برابری حاصل ہوسکتی ہے ۔ نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کے مطابق ’’جب پوری دنیا خاموش ہو تو ایک آواز بھی موثر اور نمایاں ہوسکتی ہے‘‘ اور میں کہتا ہوں کہ وہ تبدیلی کی آواز میری اور تمہاری آواز بھی بن سکتی ہے ۔

حوالاجات :۔
۔1۔ کشور ناہید، عورت، زبان خلق سے زبان حال تک ، سنگ میل پبلی کیشنز لاہور ، 2010،ص 241
2
۔Honor killing in Pakistan & compliance of law, by Maliha Zia Lari ,Aurat Foundation Islamabad Pakistan ,2011 Page,11
۔3 ۔کشور ناہید، عورت، زبان خلق سے زبان حال تک ، سنگ میل پبلی کیشنز لاہور ، 2010ص ۔11
۔4۔ لیلیٰ احمد ، عورت ، جنسی تفریق اور اسلام ، ترجمہ خلیل احمد، ناشر مشعل پاکستان نیلا گنبد لاہور ،1995، ص12
۔5۔ کشور ناہید، عورت، زبان خلق سے زبان حال تک ، سنگ میل پبلی کیشنز لاہور ، 2010ص ،16
۔6۔پروفیسر ڈاکٹر سیمی نغمانہ ، بلوچستان میں خواتین کاذہنی وفکری سفر، تحقیقی مقالہ ، ماہوار سنگت ،دسمبر2005 ، ص35

Comments are closed.