برطانیہ میں جہادیوں کی کون مالی مدد کر رہا ہے ؟

آصف جیلانی

جون کے اوائل میں لندن برج کے ہولناک حملہ میں شامل پاکستانی نژاد ایک دہشت گرد ، خرم شہزاد بٹ کے بارے میں یہ انکشاف برطانیہ کے عوام کے لئے شدید حیرت کا باعث ہے کہ اس کا ممنوعہ دہشت گرد تنظیم المہاجرون سے تعلق تھا۔ اس حیرت کے کئی پہلو ہیں۔ ایک تو برطانوی حکومت نے اس تنظیم کو بارہ سال قبل ممنوع قرار دے دیا تھا، اس کے باوجود یہ تنظیم اب بھی فعال ہے اور اس سے منسلک شدت پسند برطانیہ میں دہشت گرد حملوں میں ملوث ہیں۔

دوم ، لوگوں کے لئے یہ بات بھی باعث حیرت ہے کہ خفیہ ایجنسی ایم آئی فائیو اور پولیس کی عقابی نگاہوں سے یہ بات کیسے پوشیدہ رہی کہ ممنوعہ المہاجرون س اب بھی سر گرم عمل ہے اور خرم شہزاد بٹ جس کے شدت پسند خیالات کے بارے میں ایسٹ لندن کی مسجد اور بارکنگ میں اس کے علاقہ کی مسجد کے امام کو علم تھا ، اسے خطبہ کے دوران ہنگامہ آرائی پر مسجد سے نکال دیا گیا تھا اور بٹ کے بارے میں حکام کو خبردار کر دیا گیا تھا،اس کے باوجود یہ پولیس کے جال سے نکل کر کیسے لندن برج پر حملہ کرنے اور آٹھ شہریوں کی جانیں لینے میں کامیاب رہا۔

سلفی دہشت گرد جہادی تنظیم المہاجرون ، ایک نامی شدت پسند عمر بکری محمد نے 1983میں مکہ معظمہ میں قائم کی تھی۔ اس تنظیم کی بنیاد سعودی عرب میں عثمانیہ خلافت کے خاتمہ کی 59سالگرہ کے روز ڈالی گئی تھی ۔ مقصد اس تنظیم کے قیام کا اسلامی خلافت قائم کرنا اور مسلم امہ کو متحد کرنے کے لئے ایک متبادل نظریہ پیش کرنا تھا، لیکن شروع ہی سے اس تنظیم نے شدت پسندی اور دہشت گردی کی راہ اختیار کی اور ایک انتہا پسند تنظیم حزب التحریر کی نقابی تنظیم بن گئی۔

لیکن عمر بکری کا کہنا تھا کہ حزب التحریر کی قیادت نے المہاجرون کو تسلیم نہیں کیا۔ عمر بکری اُس زمانہ میں پر اسرار طور پر سعودی عرب سے غائب ہو گئے اور امریکا جا پہنچے۔ بعد میں امریکا کے سفر کا یہ جواز پیش کیا کہ وہ انگریزی سیکھنے امریکا گئے ہیں۔ امریکا سے عمر بکری اچانک برطانیہ پہنچے اور یہاں ، انجم چوہدری کے ساتھ مل کر 1986میں المہاجرون برطانیہ قائم کی۔ اسی کے ساتھ برطانیہ میں انٹرنیشنل اسلامک عالمی فرنٹ کے داعی مقرر ہوئے ، یہ تنظیم ابو حمزہ المصری نے قائم کی تھی۔

مقصد اس کا برطانیہ میں شرعی قوانین کے نفاذ کے لئے جدوجہد کرنا تھا لیکن یہ تنظیم ، چیچنیا اور بلقان میں لڑائی کے لئے برطانیہ میں نوجوانوں کو فوجی تربیت دیتی تھی۔اسی تنظیم نے 2002میں لندن کے فنسبری پارک کے علاقہ میں 9/11کی پہلی سالگرہ کا جشن منایا، جس کی وجہ سے پورے برطانیہ میں ہنگامہ برپا ہوگیا۔ عمر بکری اور اور انجم چوہدری نے خاص طور پر اس جشن میں شرکت کی اور 9/11کے حملہ کو طاغوتی سپر پاور کے خلاف عظیم فتح قرار دیا۔

اکتوبر 2004کو حکومت کی طرف سے پابندی عائد کرنے کے خطرہ کے پیش نظر عمر بکری اور انجم چوہدری نے خود المہاجرون کو توڑنے کا اعلان کیا اور اس کی جگہ ’’الفرقہ الناجیہ ‘‘ کے نام سے نئی تنظیم قائم کی ۔ برطانوی حکومت نے المہاجرون کے ساتھ اس تنظیم کو بھی ممنوع قرار دے دیا۔اس کے بعد عمر بکری اور انجم چوہدری نے ایک نئی تنظیم ’’ اسلام4 یوکے ‘‘کے نام سے قایم کی ۔ اس پر بھی برطانوی حکومت نے2005 میں پابندی عاید کر دی اور عمر بکری کو ملک بدر کر دیا۔ 

سنہ 2009میں انجم چوہدری نے اسلام فار یوکے کا احیاء کیا اور افغانستان سے وطن واپس آنے والے برطانوی فوجیوں کے خلاف لوٹن میں مظاہرہ کیا ، اسی مظاہرہ کے جواب میں اسلام دشمنوں نے انگلش ڈیفنس لیگ کی تنظیم قائم کی۔ 2014میں اسلام فار یو کے تو ممنوع قرار دے دی گئی لیکن انگلش ڈیفنس لیگ پر کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی۔

المہاجرون پر پابندی کے باوجود یہ تنظیم برطانیہ اور اس سے باہر دہشت گرد حملوں میں ملوث رہی ہے۔ اپریل 2003میں المہاجرون سے منسلک ،آصف حنیف نے تل ابیب اسرائیل میں ایک کیفے میں دھماکہ کیا تھا جس میں تین افراد ہلاک ہوئے تھے۔ 2006میں المہاجرون کے ایک رکن ہندوستان میں ایک فوجی بیرک پر حملہ کیا تھا جس میں وہ خود مارا گیا تھا۔ 2007میں المہاجرون کے پانچ اراکین ، عمر خیام، وحید محمود، انتھونی گارسیا، جواد اکبر اور صلاح الدین امین کو مصنوعی کھاد سے بم تیار کرنے کی منصوبہ بندی کا مجرم قرار دیا تھا اور انہیں عمر قید کی سزا دی گئی تھی۔

سنہ 2006 میں المہاجرون کے انجم چوہدری نے لندن میں ویسٹ منسٹر کیتھڈرل کے سامنے پوپ کے خلاف مظاہرہ کیا تھااور مطالبہ کیا تھا کہ انہیں اسلام کی توہین کے الزام میں پھانسی کی سزا دی جائے ۔ مئی 2013کو لندن میں ایک برطانوی فوجی لی رکبی کو المہاجرون کے دو اراکین نے ہلاک کیا تھا۔ اور اب المہاجرون کے خرم شہزاد بٹ لندن برج کے حملہ میں شامل تھا جس میں آٹھ شہریوں کی جانیں گئیں۔ 2016 کو انجم چوہدری کو داعش کی مدد کے الزام میں ساڑھے پانچ سال قید کی سزا دی گئی تھی۔

ایک عرصہ سے متعدد غیر ممالک اور خاص طور پرسعودی عرب پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ برطانیہ میں شدت پسند تنظیموں کی مالی اعانت کر رہا ہے۔ برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے دسمبر 2015میں شام پر بمباری کے لئے حمایت حاصل کرنے کی غرض سے مخلوط حکومت میں شامل لبرل ڈیموکریٹس سے وعدہ کیا تھا کہ برطانیہ میں سعودی عرب اور دوسرے غیر ممالک کی طرف سے جہادیوں کی مالی امداد کی تفتیش کی جائے گی اور اس سلسلہ میں وزارت داخلہ کے دہشت گردی کے خلاف تجزیاتی یونٹ کو ڈیوڈ کیمرون نے تفتیش کی ہدایت بھی کی تھی ۔

تفتیشی رپورٹ تیار ہوئے خاصہ عرصہ گذر گیا ہے لیکن حکومت نے بعض مصلحتوں کے پیش نظر یہ رپورٹ شائع نہیں کی ہے۔ سب سے بڑی مصلحت تو برطانیہ کی اسلحہ کی تجارت ہے۔ برطانوی حکومت کو خطرہ ہے کہ اگر یہ رپورٹ منظر عام پر آ گئی تو برطانیہ ، سعودی عرب سے اسلحہ کے سودوں سے محروم ہو جائے گا۔ پچھلے دو سال میں برطانیہ نے سعودی عرب کو تین ارب پونڈ کی مالیت کا اسلحہ فروخت کیا ہے۔ یمن میں سعودی عرب کے اتحاد کی بمباری سے نہ صرف آدھا سے زیادہ یمن کھنڈر بن گیا ہے بلکہ امریکا کی مدد سے سمندری ناکہ بندی سے ایک لاکھ سے زیادہ شہری فاقہ کا شکار ہیں۔

اس صورت حال کے پیش نظر برطانیہ کے انسانی حقوق اور امدادی اداروں نے برطانوی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ سعودی عرب کو اسلحہ کی فروخت پر پابندی عائدکی جائے لیکن ان کے اس مطالبہ کو ٹھکرا دیا گیا تھا ۔ وزیر خارجہ بورس جانسن مطالبہ کو رد کرنے والوں میں پیش پیش تھے۔ ان کا استدلال تھا کہ برطانیہ ، مالی نقصان اور اسلحہ کی صنعت میں بے روزگاری کے اضافہ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ دوسرے معنوں میں یمن کے شہریوں کی جانوں سے زیادہ اہم برطانیہ کے مزدوروں کا روزگار ہے۔

حالیہ عام انتخابات کے دوران لیبر پارٹی کے سربراہ جیریمی کوربن اور لبرل ڈیموکریٹس کے لیڈر ٹم فیرون نے وزیر اعظم ٹریسا مے سے مطالبہ کیا تھا کہ برطانیہ میں جہادیوں کی حمایت کرنے اور مالی امداد دینے والے غیر ممالک کے بارے میں رپورٹ شائع کی جائے لیکن ٹریسا مے نے اس بارے میں یکسر خاموشی اختیار کی وجہ واضح تھی کہ برطانوی حکومت ، سعودی عرب کو ناراض نہیں کرنا چاہتی۔ 

Comments are closed.