الوداع پیٹرز برگ۔ الوداع اے شہر بے مثال

سلمیٰ اعوان

الوداع پیٹرز برگ۔ الوداع اے شہر بے مثال، میں تم سے وداع ہوتی ہوں اساڑھ کے مہینے میں


تو بس اب کوئی دم میں رُخصت ہوا چاہتی ہوں اِس شہر بے مثال سے کہ جہاں میرے قیام کا ایک ہفتہ یعنی آٹھ دن جو آٹھ لمحوں کی ماننددِکھتے اور محسوس ہوتے ہیں۔ بھاگم ڈورکے یہ چند دن اُس بگولے کی طرح ہیں جو یکدم چکریاں کاٹتے کاٹتے آنکھوں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔

میں اُس وقت واستا نیئے یا پلوشد (بغاوت کا چوک) ریلوے سٹیشن کی عمارت کی بیرونی سیڑھیوں کے ایک کونے میں بیٹھی اپنے سامنے بکھری رونقوں کو دیکھتے ہوئے خو د سے سوال کرتی ہوں۔

میں نے کیا کچھ دیکھا؟ 

طنزیہ سی ہنسی میرے ہونٹوں پر اُبھری تھی۔ کچھ بھی نہیں۔میں نے توایک خوبصورت انتہائی شوق ودلچسپی سے پڑھنے والی کتاب کے ورقوں کی پھولا پھرولی ہی کی ہے۔میں تو اُس چڑیا کی طرح سے ہوں جو بھرے کھلیان سے اپنی چونچ میں چند دانے ہی بھر سکی ہے۔

کا ش میں یہاں اور رہ سکتی۔ کاش کوئی مجھے اپنے گھرکے کِسی کونے کھدرے میں صرف شب بسری کی اجازت دے دیتا ۔

تب شاید میں دلدلی زمین پر اِس جنت جیسے جزیروں اور پُلوں والے شہرجسے زاروں کا محبوب بچہ کہتے ہیں اور جو رُوس کے سب شہروں سے مختلف اور جداگانہ رنگ کا حامل ہے اور زیادہ تفصیل سے دیکھ پاتی ۔ میں نے جب اُس خوبصورت چیز ک پیزک (چھوٹی چڑیا)کے شیلف میں نئے نکور سکّے رکھے اور اُس روایت کے جی جان سے سچ ہونے کی دُعا مانگی جو چیزک پیزک سے منسوب ہے کہ سکّے رکھنے والا پیٹرز برگ دوبارہ ضرور آتا ہے ۔

پر جیسے میرا اندر میرے مستقبل کی ایسی ہر خوش قسمتی پر انکاری ہوا۔  

کیسا خوبصورت ،انوکھا اور تضادات سے پُر شہر ہے۔ تاریخ کے بُہت سے ادوار کو اپنے سینے پر اُٹھائے ہوئے۔ اگر مطلق العنانیت کاگڑھ رہا تو وہیں ہر شخصی آزادی کی تحریک نے بھی یہیں جنم لیا۔ ظلم ، جبر اور خونی تاریخ لکھی گئی تو فکری، ادبی اور ثقافتی کلچر کی بارآوری بھی اِسی سر زمین سے ہوئی۔ سرمایہ دارانہ نظام نے اگر یہاں فروغ پایا تو سوشلسٹ تحریکوں نے بھی یہیں جنم لیا۔ زاروں ،بالشکوں اور منشکوں(رُوسی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے دودھڑے)کی یہ سرزمین کتنے اسرار لئے ہوئے ہے ۔

کیسا جیالا دلبر اور سجیلاشہر ہے ۔ تاریکی سے بھرا ہوا۔روشنی سے پھُولا ہوا ۔ تحیّر اور ڈراموں سے رچا ہوا۔ بیک وقت محبتوں اور نفرتوں میں سمٹاہوا۔ مختلف النوع قوموں اور تہذیبوں کو اپنے اندر مدغم اور اپنے اور اُن کے رنگ میں رنگا ہوا، مہیب سیلابوں اور جنگوں کا مارا،آگ اور خون کے دریاؤں اور سمندروں میں غوطے مارتا۔ ایک سے نکلتا تو دوسرے میں جا گرتا۔پر ہر بار نئی شان سے اُٹھتا ہوا۔ یورپ کی وسعتوں میں اپنی کھڑکی سے جھانکتا ہوا۔ 

صنعتی ترقی کا شہر۔تہذیبی ورثے سے لدا پھندا شہر۔ کتاب تحقیق اور علم کا شہر۔عجائب گھروں اور محلوں کا شہر۔

ایسے ہی تو نہیں کہا گیا۔
Forget Lbiza and Rome , Petersburg beats them all.

میں نے گہما گہمی سے لبالب بھرے ماحول کو گہری نظروں میں تولتے ہوئے سوچا۔

تو جانے سے قبل اُس عظیم بوڑھے موسیقار کے ساتھ چند لمحے نہ گزار لوں جو اِس وقت مجھے بے طرح یاد آیا ہے ۔
موسم گرما رُخصت ہوگیا تھااور خزاں شہر پر بکھری ہوئی تھی جب وہ پھر پیٹروگراڈ میں داخل ہوا۔ (جنگ میں پیٹرز برگ کو پیٹر وگراڈ کا نام دیا گیا تھا) ۔ شہر جنگ کی تباہ کاریوں سے نڈھال اور انقلاب کی خوانخواریوں سے خستہ حال ضرور تھا پر اُس کے چہرے پر بکھری ہوئی استقامت اور شان کا پر تو بھی اپنی جگہ قائم تھا۔

اور قدیم شہر کے گلی کوُچوں میں اپنے اُسی چھوٹے اور سادہ سے گھر میں جو تھیٹرکی عمارت کے ساتھ تھا ۔وہ داخل ہوا۔اپنے سا دہ سے کمرے جس میں اُس کا شاندار بڑا سا پیانو، اُس کی کُرسی ، اُس کی ڈائری، قلم ، پنسلیں سب ویسے ہی موجود تھیں جیسی وہ انہیں چھوڑ کر گیا تھا۔

اُس نے کھڑکی کھولی ۔گھر کے سامنے درختوں کو دیکھا۔ گلی کے لیمپ پوسٹ دیکھے ، سڑک اور دوکانوں پر نظریں دوڑائیں اور اُسے محسوس ہوا کہ جیسے فضا میں ایک گونج ہے۔ ایک پکار ہے۔ سوویت کی طرف سے لوگوں کے لئے ایک اعلان ہے۔ دفاع کا۔حفاظت کا ۔ مادرِوطن پیٹرو گراڈ کا۔

وہ واپس پلٹا۔ کُرسی پر بیٹھا۔اُس کے گہرے دوست ملک کے بُہت بڑے شاعر مایاکوفسکی نے وطن کے لئے شعلہ فشاں شاعری کی تھی۔ اُ س نے پیانو پر اُنگلیاں رکھیں اور دل کو چیر دینے والی دُھنیں فضا میں بکھیر دیں اور پیٹروگراڈ کی فضاؤں میں اِس حیرت انگیزموسیقی نے گویا مُلکی وقار اور شان کو نیا رنگ ، نیا مفہوم اور نئی تازگی دی۔

جرمنی شکست کھا چُکا تھا۔ رُوس کا انقلاب کامیابی سے ہم کنارہو چکا تھا پر اتحادی فوجیں ہر ہر حربے سے اِسے ناکام بنانے پر تُلی ہوئی تھیں۔

سفید رُوسی فوجوں کے جرنیل یوڈنیچ کوبرطانیہ، استھونیااور فن لینڈ کی پُشت پناہی حاصل تھی اور وہ پیٹروگراڈ کا محاصرہ کر چکا تھا۔

ایسے میں سُرخ فوج کے سپاہیوں نے اُسے کہا۔

’’پروفیسر لینن کا حُکم ہے کہ آپ کو کِسی محفوظ جگہ پر منتقل کر دیا جائے۔ دشمن نے شہر کو گھیرے میں لے لیاہے۔‘‘

’’ سُنو اگر میں چلا گیا توشہر کی حفاظتی دیوار گر جائے گی۔‘‘

وہ پیانو کے سامنے بیٹھا اور فضا میں انقلاب اکتوبر کا گیت پوری توانائیوں سے گونجا۔

’’دیکھو۔ اُن بھُوکے ننگے چیتھڑے لٹکاتے جسموں والے لوگوں کو جنکے پاؤں میں پھٹے ہوئے جوتے ہیں۔ عورتوں کو دیکھو۔ اُن کی آنکھوں میں چمکتی لَو ہے۔اُن کے ہاتھوں میں بیلچے اور کدالیں ہیں۔ اُن کے ہونٹوں پر ایک آواز ہے۔

ہم پیٹروگراڈ کا دفاع کریں گے اور لیون ٹراٹسکی کی قیادت میں اِس کے ایک ایک انچ کی حفاظت کریں گے۔‘‘

اور پیٹروگراڈ کی فضاؤں میں اکتوبر انقلاب کے گیت گونجے اور شہر استقامت سے کھڑا رہا۔ ڈٹا رہا۔

اور پھر بُہت سارے سال گزر گئے ۔ بہاریں بُہت بار آئیں۔ درخت مُسکرائے اور پھُولوں نے قہقہے لگائے۔ بُہت سی خزائیں گذریں۔ دُھندوں نے راستے گہنائے اور مکانوں نے سفید کپڑے پہنے۔ اور وہ اپنے اُس چھوٹے سے گھر میں اپنے پیانو سے کھیلتے ہوئے فضاؤں میں خوبصورت دُھنیں بکھیرتا رہا۔

اوروقت گذرتا رہا۔

اور خزاں ایک بار پھر اُس کے سامنے تھی اور یہ سال 1941کا تھا۔ اُس وقت جب پہلی بارش کی بوُندوں نے ٹپ ٹپ گرتے ہوئے تھیٹر کی چھت کو ڈرم کی گت کی طرح بجایا اور جب پہلی دُھند نے اُس کے گھرکی کھڑکیوں کے چہرے دُھندلائے۔پیٹروگراڈ جواب لینن گراڈ تھا پر بموں کی بارش ہوئی۔

سُرخ سپاہیوں نے اُس کے پاس آکر کہا۔
’’
پروفیسر ۔ آپ کو ایک محفوظ جگہ پر چلے جانا چاہیے۔ دشمن نے ہمارے شہر کو گھیرے میں لے لیا ہے۔‘‘

اور اُس نے اپنا سفید بالوں والا سر اُٹھایا اور کہا۔

’’اگر میں چلا گیا تو شہر کی دیوار گر جائے گی۔‘‘

و ہ اپنے پیانو کے سامنے بیٹھا اور فضا میں مادر وطن کے دفاع میں گیت بکھر گئے۔اور لینن گراڈ ہنسا۔

اور ایک دن جب وہ اپنے کمرے میں تھا۔ اپنے پیانو کے پاس۔ جب اچانک اُس کے ہاتھ پیلی کی بورڈ سے پھسلے۔ ہولناک آوازوں اور دھماکہ خیز مواد نے ہر چیز کو تہہ وبالا کر دیا۔ تھیٹر کی آدھی عمارت زمین بوس ہوگئی تھی۔اینٹ روڑوں کے ملبے پر خوبصورت فاختاہیں پڑی تھیں اور سارے میں گردوغباراور ٹوٹ پھوٹ کا طوفا ن تھا۔

سُرخ سپاہی پھر اُس کے سامنے تھے۔

’’تمہیں لینن گراڈ چھوڑنا ہے۔‘‘

’’ہرگز نہیں۔‘‘ 

اُس کے جواب میں وہی پختگی تھی۔ وہی اصرار تھا ۔ اُ س نے پھر کہا تھا۔

’’میں اگر چلا گیا تو فصیل شہر گر جائے گی۔‘‘

’’ہم تمہیں یہاں نہیں چھوڑ سکتے ہیں تمہیں کِسی دوسرے شہر کِسی محفوظ جگہ جانا ہوگا۔ کیا تم نہیں دیکھتے؟ تمہارے چاروں طرف کتنی تباہی مچی ہے؟‘‘

انہوں نے زبردستی کرتے ہوئے اُس کا پیانو گاڑی میں رکھا۔ اور بوڑھا موسیقار برف پر دھیرے دھیرے قدم اُٹھاتا اپنی بغلوں میں پرانی اور نئی دھنوں کا پلندہ اُٹھائے گاڑی میں بیٹھا۔ دفعتاً اُس کی بوڑھی اُنگلیاں ٹوٹے ہوئے پیانو پر پڑیں اور جیسے طوفان آگیا۔ فضا میں مادر وطن کے گیت تھے۔ انسانیت کی آزادی کی دُھنیں تھیں۔ ایک کے بعد ایک موسیقارکے ہاتھوں سے موسیقی کے شاہکار بن کر فضا میں بکھر رہے تھے۔

میں کہیں نہیں جاؤں گا ۔ میری دُھنیں میری فصیل شہر کو گرنے نہیں دیں گی۔ لینن گراڈ کو سر بلند رکھیں گی۔

لینن گراڈ کھِلکھلا کر ہنس پڑا تھا۔ اُس نے کہا تھا۔

’’جس شہر کے ایسے جیالے ہوں۔اُسے نو سو دن کیا نو ہزار دنوں میں بھی کوئی شکست نہیں دے سکتا۔‘‘

میں تم سے وداع ہوتی ہوں اساڑھ کے مہینے میں۔

Comments are closed.