ہندوستان کے قائد ملت

آصف جیلانی

ہندوستان کے قائد ملتجنہوں نے بے سہارا مسلمانوں کو سنبھالا

اپریل1962میں ہندوستان کے عام انتخابات میں کیرالا کے من جیری حلقہ سے جنوبی ہند کے ایک ممتاز مسلم رہنما فتح یاب ہوئے تھے۔ میں دلی میں پارلیمنٹ کے قریب رائے سینا ہوسٹل میں رہتا تھا ، آس پاس اراکین پارلیمنٹ کے بنگلوں میں رہنے والے اراکین اسی راستہ سے پیدل پارلیمنٹ جاتے تھے۔ہوسٹل کی بالکونی سے یہ اراکین آتے جاتے نظر آتے تھے۔ ان میں سے بہت سے کھدر کے کرتے پاجامے۔ فلپ فلاپ چپل اور کلف لگی دھوتی میں ملبوس ہوتے تھے ، اور چند بوشرٹ اور پتلون پہنے گذرتے تھے ۔

لیکن ان میں ایک صاحب،سلیقہ سے ترشی ہوئی داڑھی، اپنی شیروانی اور علی گڑھ پاجامہ اور چھوٹی باڑھ کی ترکی ٹوپی میں سب سے مختلف اور نمایاں نظر آتے تھے۔ لوک سبھا میں جب پہلی بار ان سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا کہ نام ان کا محمد اسمعیل ہے لیکن پورے جنوبی ہندوستان میں یہ قائد ملت کے خطاب سے مشہور ہیں۔ اور انڈین یونین مسلم لیگ کے صدر کے عہدہ پر فائز ہیں۔ سن باسٹھ کے عام انتخابات میں کامیابی پر مبارک باد دینے میں ان کے بنگلہ پر گیا تو دلی کی اپریل کی گرمی اپنی انتہا پر تھی۔ قائد ملت محمد اسمعیل صاحب ،چار خانے کے تہمد اور ململ کے سلوکہ میں ملبوس تھے۔ کمرہ خس کی ٹٹی کی بھینی بھینی خوشبو سے مہک رہا تھا۔ قائد ملت عام انتخابات میں کامیابی پر بے حد خوش تھے ، حالانکہ وہ 1952سے پارلیمنٹ کے ایوان بالا راجیہ سبھا کے ممبر چلے آرہے تھے او ر اس سے پہلے وہ 1946سے 1952تک مدراس اسمبلی کے رکن منتخب ہونے کے ساتھ ہندوستان کی دستور ساز اسمبلی کے بھی ممبر رہے تھے اور آئین سازی میں ڈاکٹر امبیدکر اور سردار پٹیل کے ساتھ شامل رہے ہیں۔ 

راجیہ سبھا میں قائد ملت نے ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے شرعی قانون کے نفاذ کا مطالبہ پیش کیا تھا اور تامل زبان کو مشترکہ قومی زبان قرار دینے کی تجویز پیش کی تھی۔

1956میں جب کیرالا کی الگ ریاست بنی تو ، قائد ملت نے مدراس سے منتقل ہو کر کیرالا کو اپنا سیاسی مرکز بنایا اور اسے انڈین یونین مسلم لیگ کا مضبوط گڑھ ثابت کیا۔ اب بھی کیرالا واحد ریاست ہے جہاں مسلم لیگ ایک مضبوط اور مقبول جماعت کی حیثیت سے وجود رکھتی ہے۔

محمد اسمعیل صاحب کی مسلم لیگ سے وابستگی بہت پرانی ہے ۔ 1920میں وہ مسلم لیگ میں شامل ہوئے تھے اور 1945میں مدراس پریزیڈنسی کی مسلم لیگ کے صدر کے عہدہ پر ،منتخب ہوئے ۔ 1946کے تاریخی انتخابات میں جو قیام پاکستان کے لئے فیصلہ کن ثابت ہوئے تھے، قائدملت کی قیادت میں مسلم لیگ نے پریزیڈنسی کی مسلمانوں کی تمام 28مخصوص نشستیں جیتیں اور کانگریس کے بعد مسلم لیگ دوسری بڑی جماعت کی حیثیت سے ابھری۔ قیام پاکستان کے بعد مسلم لیگ کی قیادت جب ہندوستان سے پاکستان منتقل ہوگئی تو قائدملت نے 1952میں انڈین یونین مسلم لیگ کی داغ بیل ڈالی اور اس کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ 

میں نے قائد ملت سے پوچھا کہ نئی مسلم لیگ کے قیام کا ان کا اصل مقصد کیا تھا؟ دیر تک وہ سوچ میں غرق رہے ، پھر بولے کہ قیام پاکستان کے بعد ہندوستان کے مسلمان بے سہارا رہ گئے تھے اور ان پر ملک کو توڑنے کا الزام عام تھا ۔ ایک عجب شکوک و شبہات کی فضا تھا مسلمانوں کے چاروں جانب۔

میں نے پوچھا کہ کیا مسلم لیگ کی مرکزی قیادت نے اس صورت حال کی پیش بینی نہیں کی تھی ؟ انہوں نے جواب دیا اس زمانے میں حالات نے اتنی تیزی سے پلٹا کھایا کہ اس ہما ہمی میں اس پر غور نہیں کیا گیا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کا کیا بنے گا جن کے مسائل کے لئے بنیادی طور پر پاکستان کا مطالبہ کی گیا تھا۔ قائد ملت کا کہنا تھا کہ یہ عام خیال تھا کہ ایک طاقت ور پاکستان ، ہندوستان کے مسلمانوں کے تحفظ کی ضمانت ہوگا۔ پھر جس تیزی سے شمال میں فرقہ وارانہ فسادات کی آگ بھڑکی اور ان کے نتیجہ میں بڑے پیمانہ پر نقل آبادی ہوئی اس کی وجہ سے اس مسئلہ کے حل پر غور نہیں کیا جاسکا۔

قائد ملت نے کہا کہ نئی مسلم لیگ کے قیام کا مقصد کئی جہتی تھا۔ سب سے پہلے مسلمانوں کو اس بات کا احساس دلانا تھا کہ وہ بے یار و مدد گار نہیں ہیں ، دوسرے ان کے اقتصادی اور معاشرتی مسایل کی راہیں تلاش کرنا تھا۔ قائد ملت نے کہا کہ قیام پاکستان کے بعد ہندوستان میں بڑے منظم طریقہ سے مسلمانوں کو اقتصادی طور پر کمزور کرنے کی کوشش کی گئی اور ان کے جو اقتصادی گڑھ تھے وہاں ان کے پیر اکھاڑنے کے لئے فسادات کا سلسلہ شروع کیا گیا ۔مثلا، علی گڑھ میں تالے کی صنعت ، فیروز آباد میں چوڑیوں کی صنعت،اور میرٹھ میں کھڈی کے کارخانوں کو تباہی کا نشانہ بنایا گیا او ر مسلمانوں کو اقتصادی طور پر کمزور بنایا گیا۔ 

میں نے پوچھا اس وقت ہندوستان کے مسلمانوں کو سب سے بڑا خطرہ کیا در پیش ہے؟ بلا کسی تامل کے انہوں نے جواب دیا، راشڑریہ سیوم سیوک سنگھ اور ہندو مہا سبھا کی ہندو قوم پرستی ہے جو تیزی سے سر اٹھا رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب بھی ملک میں سیکولرزم کے حامی عناصر ہیں جو اس ہندو قوم پرستی کے خلاف نبرد آزما ہیں لیکن ان کا زور کم ہوتا جارہا ہے ۔ اس لئے مستقبل ڈراونا نظر آتا ہے۔ پچپن سال بعد اس وقت ہندوستان میں بھارتیہ جن سنگھ کے برسر اقتدار آنے کے بعد ہندوتا جس تیزی سے پورے ہندوستان پر مسلط ہو رہی ہے ،اسے دیکھ کر قائد ملت کی پیش گوئی صحیح ہوتی نظر آتی ہے۔

قائد ملت محمد اسمعیل صاحب، ۵ جون 1896میں تامل ناڈو کے ترنیویلی کے گاوں پیتائی میں مولوی کے ٹی میا خان روتھر کے ہاں پیدا ہوئے تھے اور مدراس کے کرسچین کالج سے تعلیم حاصل کی ۔ نوجوانی کے زمانے میں انہوں نے 1909میں مسلم نوجوانوں کی تنظیم قائم کی تھی اور 1918میں مسلم لیگ میں شمولیت سے پہلے مسلم علماء کی تنظیم مجلس علماء قائم کی تھی۔اسی زمانے میں انہوں نے چمڑے اور گوشت کی تجارت شروع کی جس میں وہ بے حد کامیاب رہے اور متعد د تجارتی تنظیموں کے عہدہ دار رہے۔

عوام کی خدمت اور اپنے اعلی اخلاق ، اپنی مقبولیت اور احترام کی بناء پر قاید ملت محمد اسمعیل ’’گنایا تھر کیوویا‘‘مشہور تھے ، یعنی نہایت باوقار اور محترم شخصیت۔ عوام کی خدمت کے اعتراف میں تامل ناڈو کی حکومت نے مدراس میں خواتین کا کالج ان کے نام پر قاید ملت گورنمنٹ کالج فار ویمن اور مردوں کے کالج کا نام ان کے نام پر رکھا ہے۔ تامل ناڈو کی حکومت نے ناگا پتی نم کے ضلع کانام ناگائی قائد ملت رکھا تھا لیکن 1997میں شخصیات پر ناموں کی منسوخی کے ساتھ یہ نام بھی بدل دیا گیا۔

1962کے بعد قائد ملت1967اور1971میں لوک سبھا کے ممبر منتخب ہوئے۔1972میں قائد ملت محمد اسمعیل صاحب انتقا ل کرگئے۔ 2003میں تامل ناڈو کی حکومت نے ان کی یاد میں چنائے میں اسمعیل ہال تعمیر کرایا۔ صرف تامل ناڈو اور کیرالا ہی نہیں بلکہ پورے جنوبی ہندوستان کے عوام کے دلوں میں اب بھی قائد ملت کی محبت اور احترام کا جذبہ موجزن ہے۔

Comments are closed.