کہا اقبال نے شیخ حرم سے ، تہہِ محراب مسجد سو گیا کون؟ 

آصف جیلانی 

اس وقت جب کہ پورا عالم اسلام باہمی کشمکش میں مبتلا ہے اور یمن سے لے کر شام اور لیبیا تک کلمہ گو ایک دوسرے کے قتل و خون ، غارت گری اور تباہی میں مصروف ہیں ، اگلے مہینے کی پانچ تاریخ کو ارض فلسطین پر اسرائیل کے قبضہ کو پچاس سال پورے ہو جائیں گے۔اس روز اسرائیلی ’’جوڈیا ، سماریہ اور جولان کی پہاڑیوں کی آزادی ‘‘کے نام سے یروشلم کے جنوب میں گش ایتزیوں میں جشن منائیں گے ، جہاں سے فلسطین کی زمین پر زبردستی قبضہ کے لئے یہودی بستیوں کی تعمیر کا آغاز ہوا تھا۔ یہ عالم اسلام کی ناکامی ، بے بسی اور بے کسی کا دن ہوگا۔

پچھلے پچاس برسوں کے دوران ، اقوام متحدہ کی قرار دادوں اور سن سڑسٹھ کی جنگ سے پہلے کی سرحدوں پر اسرائیل کی واپسی کے مطالبات کی قطعی کوئی شنوائی نہ ہونے کے بعد اب ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل کا ارض فلسطین پر تسلط کبھی ختم نہیں ہوگا بلکہ یہ اب ناقابل تنسیخ قبضہ تسلیم کر لیا گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسرائیلوں نے اس قبضہ کو قدرتی قبضہ قرار دیا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے خلاف کوئی بات اسرائیل کی جڑوں پر کدال مارنے کے مترادف سمجھی جاتی ہے۔ 

سن انیس سو سڑسٹھ میں پانچ جون سے دس جون تک ، اسرائیل کے خلاف ، مصر ، اردن اور شام کی چھ روزہ جنگ ، عرب تاریخ میں نہایت ، تاسف، شرمندگی اور شرمساری کے ساتھ رقم کی گئی ہے۔ جنگ بندی سے پہلے اس جنگ میں عرب افواج کے 20 ہزار فوجی جاں بحق ہوئے اس کے مقابلہ میں اسرائیل کے ایک ہزار سے کم فوجی ہلاک ہوئے۔ چھ روز کے دوران ، اسرائیل نے مصر کے غزہ اور سینا کے علاقہ پر ، اردن کے علاقہ مشرقی یروشلم اور غرب اردن پر اور شام کی جولان کی پہاڑیوں پر آنافانا قبضہ کرلیا۔ 

اسرائیل کی قدیم دستاویزات کے مطابق جو گذشتہ مہینے منظر عام پر آئی ہیں ، اسرائیل نے جب مشرقی یروشلم پر قبضہ کیا تھا تو اس وقت بین الاقوامی برادری کو جھانسا دینے کے لیے یہ کہا گیا تھا کہ اس کا مقصد محض مونسپل معاملات میں تال میل پیدا کرنے اور مشرقی یروشلم کے فلسطینیوں کوشہری زندگی کی لازمی ضروریات فراہم کرنے کے لئے یہ اقدام کیا گیا ہے ۔ ان دستاویزات سے انکشاف ہوا ہے کہ اس زمانے میں اسرائیل کی وزارت خارجہ نے اپنے سفیروں کو ہدایت کی تھی کہ وہ اس کی وضاحت کریں کہ مشرقی یروشلم پر قبضہ عارضی ہے اور اس کا مقصدمحض اس علاقہ کے فلسطینیوں کو شہری سہولیات فراہم کرنا ہے ۔

لیکن اس کے چند ماہ بعد یروشلم سے ہزاروں فلسطینی شہریوں کے مکانات مسمار کر کے انہیں بے دخل کردیا گیا۔ اس زمانے میں صہیونیوں کا نعرہ تھا۔ ’’ دنم کے بعد دنم‘‘ ۔بکری کے بعد دوسری بکری۔یوں ارض فلسطین کے علاقہ کو ایک کے بعد بتدریج مسمار کر کے اسے اسرائیل میں ضم کر دیا جائے اور فلسطینیوں کو اپنی زمین اور اپنے وطن سے فرار ہونے پر مجبور کیا جائے۔ پچھلی نصف صدی کے دوران اسرائیل کو اس پالیسی میں جیت ہوئی ہے اور اقوام متحدہ اور یورپ نے اس تسلط پر مصلحت کی آنکھیں موندھی ہوئی ہیں اور پورا عالم اسلام بھی بے حسی اور بے کسی کا شکار ہے۔ 

اس دوران ، مشرقی یروشلم اور غرب اردن پر تسلط کا سلسلہ اتنا وسیع او ر ہمہ گیر رہا ہے کہ اسرائیل کے شانہ بشانہ ایک الگ فلسطینی ریاست کا قیام محض ایک ایسا خواب بن کر رہ گیا ہے کہ جو مشکل سے شرمندہ تعبیر ہوتا نظر آتا ہے۔ گذشتہ پچاس سال کے دوران اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے باوجود جن میں فلسطین کی سر زمین پر یہودی بستیوں کی تعمیر بین الاقوامی قوانین کے تحت ممنوع قرار دی گئی ہے ، ان بستیوں کی تعمیر بے دھڑک جاری ہے ۔ اور اسرائیل کی حکومت یہودی آباد کاروں کو ہر طرح سے مدد اور شہہ دے رہی ہے۔ 

اس دوران امریکا کے تمام صدور کی نام نہاد مخالفت کے باوجود ان بستیوں کی تعمیر میں برابر توسیع ہوتی رہی ہے۔ نتیجہ یہ کہ اسرائیل کی امن تنظیم پیس کے مطابق اس وقت فلسطین کا دس فی صد علاقہ یہودی بستیوں نے ہڑپ کر لیا ہے ۔ عالمی رائے عامہ کو جُل دینے کے لئے اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نیتھن یاہو نے کہا ہے کہ یہودی بستیوں کی توسیع پر پابنددی عائد کی جائے گی۔

امریکی صدر ٹرمپ ، ارض فلسطین پر یہودی بستیوں کی تعمیر کے اس قدرزبردست حامی ہیں کہ انہوں نے اسرائیل میں اپنا سفیر ڈیوڈ فریڈ مین کو مقرر کیا ہے جو نہ صرف فلسطین کی زمین پر یہودی بستیوں کی تعمیر کے زبردست حامی ہیں بلکہ ان بستیوں کی تعمیر کے ادارے میں ان کا سرمایہ لگا ہوا ہے ۔ اور تو اور ٹرمپ کے داماد کُشنر کا بھی بڑے پیمانہ پر ان بستیوں کی تعمیر میں سرمایہ لگا ہوا ہے ۔ اسرئیل میں امریکا کے نئے سفیر فریڈ مین فلسطین کی علحدہ ریاست کے قیام کے سخت خلاف ہیں ۔

اب صدر ٹرمپ نے بظاہر عرب اسرائیلی تنازعہ کے حل اور امن کے سمجھوتہ کے لئے ایک نئی عیارانہ چال چلی ہے۔پی ایل او کے صدر محمود عباس کو اگلے مہینے واشنگٹن بلایا ہے ۔ ان سے پہلے مصر کے جنرل السیسی اور اردن کے شاہ عبداللہ ثانی ، واشنگٹن گئے تھے ۔بتایا جاتا ہے کہ ٹرمپ نے انہیں رضا مند کیا ہے کہ وہ محمود عباس پر دباؤ ڈال کر اسرائیل سے سمجھوتہ کے لئے آمادہ کریں تاکہ فلسطین کی الگ ریاست کے قیام کا معاملہ پس پشت ڈال دیا جائے۔

فتح کے ممتاز رہنما عباس ذکی کو خطرہ ہے کہ ٹرمپ ، محمود عباس اور عرب رہنماوں پر علاقائی حل تھوپیں گے جس کے نتیجہ میں فلسطینیوں کا موقف یکسرنیست و نابود ہو جائے گاجائے گااور اگر ایسا ہوا تو عرب رہنما پھر ایک بار فلسطینیوں سے غداری کے الزام سے نہ بچ سکیں گے عالم اسلام کویہ دوش دیا جائے گا کہ اس نے اپنے اوپر بے بسی اور بے کسی طاری کر کے اسرائیل اور مغرب کے سامنے گھٹنے ٹیک دئے۔

کہا اقبال نے شیخ حرم سے
تہہِ محراب مسجد سو گیا کون؟
ندا مسجد کی دیواروں سے آئی 
فرنگی بت کدے میں کھو گیا کون؟

One Comment