پاکستانی فلاحی ریاست میں تبدیل کرنے کی ضرورت

انور عباس انور

قیام پاکستان سے آج تک برسراقتدار آنے والی حکومتوں کا دعویٰ رہا ہے کہ ملکی معیشت مستحکم ہوئی ہے ، اقتصادیات ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھو رہی ہے، ملک ترقی کی شاہرا ہ پر گامزن ہو چکاہے، غربت کو پاک سرزمین سے دیس نکالا دیدیا گیا ہے، ہر طرف دودھ کی نہریں بہنے لگی ہیں، ان دعوؤں کے آخر میں یہ بھی کہنا ضروری سمجھا جاتا ہے کہ ان کی پیشرو حکمرانوں نے خزانہ خالی چھوڑا تھا، ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا ،اگر ہم حکومت میں نہ آتے تو توبہ نعوذ بااللہ وطن عزیز کا بیڑا غرق ہوجاتا۔

اگر موجودہ اور سابقہ تمام حکمرانوں کے دعوؤں کو سچ اور مبنی برحقیقت مان لیا جائے تو پھرمیری دھرتی ماں، میری پاک سرزمین کے بیٹے بیرون ملک کی خاک چھاننے کبھی نہ جاتے، ایجنٹوں کے ہاتھوں اپنی اور اپنے وطن کی تذلیل کا سامان نہ بنتے،اور گھربار ،والدین کی ساری عمر کی پونجی برباد نہ کرتے،بہنوں کے جہیز کے لیے بنایا زیور گروی رکھ کر غیر ممالک اپنے’’ روشن مستقبل کے لیے روانہ نہ ہوتے۔

سوہنی دھرتی کے سوہنے لوگ غربت کی چکی میں پسنے سے نجات اورمعاشرے میں باعزت مقام کے حصول کے لیے ہی اپنے گھر سے ہزاروں میل دور،جا بسنے، والدین اور بھائی بہنوں اور دیگر رشتہ داروں و عزیز اقارب کی جدائی جیسی منزلوں کو سہنے کو ترجیح دیتے ہیں، لیکن سہانے مستقبل کے آنکھوں میں سجائے خوابوں کی جب تعبیر نہیں ملتی اور وہاں پریشانیوں میں گھر جاتے ہیں تو دیار غیر میں ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا، اپنے پرائے سب منہ پھیر لیتے ہیں، ہمارے سفارت خانوں میں متعین لوگ ان کی خبرگیر ی لینا بھی گوارا نہیں کرتے۔

اگر ہمارے حکمرانوں نے پاک سرزمین کے حالات اس قدر بہتراور سازگار بنادیئے ہوتے تو یہ یہ میری دھرتی ماں کے جائے کبھی اس سفر پر روانہ نہ ہوتے اور پھر ان اجنبی ممالک کی جیلوں میں گلنے سڑنے کے لیے نہ رہ جاتے، ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت بھی ہزاروں پاکستانی دیار غیر میں جیلوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ہر برسراقتدار آنے والی حکومت نے جانے والی حکومتوں کی کارکردگی زیرو اور اپنی ہیرو بتائی، منتخب اورغیر منتخب حکومتوں نے ماسوائے غیر ملکی قرضے لیکر ان میں اضافہ کرنے کے کوئی ڈھنگ کا کام کیا ہی نہیں۔

دنیا بھر میں حکومتیں غربت کے خاتمہ کے لیے اقدامات اٹھاتی ہیں، مہذب دنیا جو سرمایہ دارانہ نظام کی بانی ہے، وہ غریبوں کو اس قدر سہولیات دینے کے انتطامات و اقدامات کرتے رہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ بنیادی حقوق ، بنیادی انسانی ضروریات جن میں صحت، خوراک، روٹی کپڑا اور مکان ہر فردکو بلاامتیاز فراہمی ریاست کی ذمہ داری قرار دی گئی ہے،ان انسانی ضروریات کی فراہمی کو باقاعدہ آئینی تحفظ دیا گیا ہے۔

پاکستان میں کسی حکمران نے اس جانب توجہ نہیں دی یا انہیں دیگر مسائل ( اقتدار کی کرسی کی چھینا جھپٹی )میں الجھا کر رکھا گیا، 1970کے بعد امید پیدا ہوئی تھی کہ روٹی کپڑا مکان کا نعرہ لگا کر برسراقتدار آنے والے’’ قائد عوام‘‘ غریبوں کو ان کے حقوق اور ضروریات کی فراہمی کے لیے اقدامات کریں گے، اور اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ ’’قائد عوام ‘‘ نے اقتدار سنبھالنے کے بعد باوجود سقوط ڈھاکہ اور بھارتی قید میں جنگی قیدیوں، اور دیگر مسائل کے انہوں نے کچھ اقدامات کیے، اولڈ اینج بینیفٹ جیسے ادارے کا قیام ان میں سے ایک ہے۔

بعد میں ٓانے والے سویلین اور فوجی حکمرانوں نے محض غریبوں کے نام پر ووٹ حاصل کیے مگر ان کو بنیادی حقوق اور انسانی بنیادی ضروریات کے حوالے سے ان کی کارکردگی صفرہے۔ جنرل ضیا ء الحق کے پورے گیارہ سال سرمایہ دارانہ نظام کو تحفظ دینے، غربت کو ختم کرنے کی بجائے غریبوں کو ختم کرنے اور ذوالفقا ر علی بھٹو کے اقدامات کو واپس لینے کی جدوجہد کی بہترین مثال ہے، اب تو خیر تمام سیاسی جماعتوں کا منشور سرمایہ دارانہ نظام کے تحفظ اور اس کی مضبوطی کے ارد گرد گھومتے ہیں، پیپلز پارٹی ہو ، پی ٹی آئی ہو یا مسلم لیگ نواز یا کوئی اور پارٹی سب غریبوں کے استحصال کرنے والے نظام اور سرمایہ داروں کو مضبوط کرنے کی جدوجہد کر رہی ہیں۔

امریکا ، یورپ اور برطانیہ سب غریبوں کو اس حد تک بنیادی ضروریات فراہم کرتے ہیں جو وہاں نظام کے خلاف ہونے والی بغاوت کے آگے بند باندھ سکے، ان حکومتوں نے بنیادی ضروریات کی فراہمی کو ریاست کی ذمہ داری اور آئین میں تحفظ دیکر اطمینان حاصل کیا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف عوامی انقلاب کے تمام راستے مسدود کردئیے گئے ہیں۔

جنگ عظیم دوم تک برطانیہ سکیورٹی ریاست تھا، برطانوی قیادت نے جنگ عظیم دوم کے بعد غالبا 1948 میں برطانیہ کو سکیورٹی ریاست سے فلاحی ریاست میں تبدیل کردیا،اور اس فلاحی ریاست نے غربت کے خاتمہ کو یقینی بنانے،اور بے روزگاروں کو روزگار ملنے تک بے روزگاری الاؤنس دینے کا فیصلہ کیا، برطانیہ سمیت یورپ اور امریکا کے حکمرانوں کو غربت کی طاقت کا اندازہ ہے ، اور وہ اس امر سے بھی بخوبی باخبر ہیں کہ بھوک ،ننگ سے تنگ لوگ کسی بھی وقت پورے نطام کی بساط لپیٹنے کی طاقت رکھتے ہیں، اس وجہ سے انہوں نے فلاحی ریاستیں تشکیل دیکر غریبوں کی طاقت کو زنگ آلود بنا دیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے پارلیمان میں بیٹھے افراد ا غربت کے ستائے عوام کی اس طاقت سے بے خبر ہیں؟ انہیں پاکستان کو فلاحی ریاست میں تبدیل کرنے کا فکر کیوں نہیں ہوتی؟ کیا پاکستان کے عوام نے انہیں ان کے خون پسینے کی کمائی سے بھرے قومی خزانے سے عیاشیاں کرنے کے لیے منتخب کیا ہے؟ تسلیم کہ اب دنیا میں کمیونسٹ انقلاب کے دن لد گئے، لیکن اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ مصر کی طرح انقلاب تو برپا ہونے کے امکانات بدرجہ اتم موجود ہیں۔

بہتر یہی ہے کہ حکمران موجودہ ہوں یا آنے والے ، وہ فلاحی ریاست بنانے میں مزید تاخیر نہ کریں اور وقت ضائع کرنے سے گریز کریں، حکومت ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچے کہ کیا مزدور کی کم از کم تنخواہ سولہ ہزار مقرر کرنے سے مزدور کے گھر کا چولہا گرم ہو سکتا ہے؟

Comments are closed.