سرحد پار سے دہشت گردی کے خلاف سخت اقدامات کی ضرورت

افغان قیادت نے کئی ممالک کی حکومتوں  کے ساتھ  مل کر ’کابل پراسیس‘ کا آغاز کر دیا ہے۔ اس عمل کا مقصد امن مذاکرات کی بحالی اور ’سرحد پار سے دہشت گردی‘ کےخاتمے کے لیے ایک بین الاقوامی معاہدہ طے کرنا ہے۔

نیوز ایجنسی رائٹرز کے مطابق آج منگل چھ جون کے روز اس کانفرنس کے موقع پر افغان صدر اشرف غنی نے مختلف ممالک کے اعلیٰ سفارت کاروں کو بتایا کہ  افغانستان میں حملے اسی تشدد کا حصہ ہیں، جس کا سامنا برطانیہ سمیت دنیا کے کئی دوسرے ممالک کو بھی ہے۔ افغان صدر نے کہا، ’’دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں افغانستان سب سے آگے کھڑا ہے۔ ہم 20 بین الاقوامی دہشت گرد گروہوں کی جنگ آپ لوگوں کی طرف سے لڑ رہے ہیں۔ ہمیں علاقائی سلامتی کے لیے ایک معاہدے کی ضرورت ہے‘‘۔

سن 2014 میں نیٹو کے بین الاقوامی فوجی مشن نے افغانستان میں اپنی جنگی کارروائیوں کے خاتمے کا اعلان کر دیا تھا۔ اس کے بعد سے ہندو کش کی اس ریاست میں طالبان عسکریت پسندوں کا اثر و رسوخ بڑھتا ہی دکھائی دے رہا ہے۔ امریکی حکومت کے اندازے کے مطابق گزشتہ برس کے آخر تک طالبان افغانستان کے چالیس فیصد تک حصے کو کنٹرول کر رہے تھے۔ کچھ مبصرین کی رائے میں طالبان کی مستحکم پوزیشن کے باعث یہ بہت مشکل ہے کہ وہ مذکراتی عمل میں شامل ہوں۔

صدر اشرف غنی کا کہنا ہے کہ اگر طالبان نے مذاکراتی عمل کا آغاز نہ کیا، تو وہ طالبان کے خلاف پابندیوں کا مطالبہ کریں گے۔ افغان صدر نے طالبان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا، ’’یہ آپ کے لیے آخری موقع ہے۔ اسے استعمال کریں یا پھر نتائج کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہیں‘‘۔

افغانستان میں ایک نئے امن عمل کی بات اس لیے بھی زور پکڑ رہی ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ابھی تک اس خطے کے حوالے سے اپنے کسی منصوبے کا اعلان نہیں کیا۔ اس وقت افغانستان میں 8400 امریکی فوجی افغان فوجیوں کی تربیت اورانسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ 6000 غیر ملکی فوجی مشاورتی عمل میں بھی شامل ہیں۔ امریکی فوجی قیادت نےٹرمپ انتظامیہ کو مزید تین ہزار سے لے کر پانچ ہزار تک امریکی فوجی مشیروں کو افغانستان بھیجنے کی تجویز دی ہے۔

افغان قیادت پاکستان پر الزام عائد کرتی ہے کہ افغانستان میں بھارت کے  بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی وجہ سے پاکستان افغان طالبان کی حمایت کرتا ہے۔ پاکستان اس الزام کو کئی مرتبہ قطعی مسترد کر چکا ہے۔ اس حوالے سے افغان صدر غنی نے آج کابل پراسیس کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے سوالیہ لہجے میں یہ بھی پوچھا، ’’پاکستان کو یہ سمجھ کب اور کیسے آئے گی کہ پاکستان میں اور اس خطے میں امن کے لیے مستحکم افغانستان ضروری ہے‘‘۔

کچھ تجزیہ نگاروں کے نزدیک ابھی یہ ناممکن ہے کہ پاکستان طالبان کی حمایت سے باز آجائے۔ ماضی میں پاکستان کے ساتھ مل کر اس قسم کی کئی کوششیں کی جا چکی ہیں لیکن وہ کامیاب نہیں ہوتیں کیونکہ پاکستان کے حمایت یافتہ طالبان کی شرائط ناقابل قبول ہیں ۔ پاکستان طالبان کے ذریعے افغانستان میں اپنی کٹھ پتلی حکومت چاہتا ہے۔ لہذا طالبان کو کنٹرول کرنے یا ختم کرنے کے لیے افغانستان، بھارت اور دوسرے ممالک کو ہی ایسے اقدامات اٹھانے ہوں گے کہ پاکستان کی مداخلت کو کم سے کم کیا جا سکے۔

DW/News Desk

 

Comments are closed.