کیا ہے ہماری کوئی خارجہ پالیسی؟

آصف جیلانی

میں بے خطر کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان دنیا کا واحد منفرد ملک ہے جس کی کوئی خارجہ پالیسی نہیں ہے۔ بیس کروڑ عوام کے اس ملک کے بین الاقوامی تعلقات ، بنیادی طور پر حکمرانوں کی ذاتی دوستیوں اور رشتوں کے ارد گرد گھومتے ہیں۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خارجہ پالیسی نہ کابینہ میں وضع کی جاتی ہے ، نہ وزارت خارجہ کو کوئی عمل دخل ہے اور نہ اس سے مشورہ کیا جاتا ہے ۔ پارلیمنٹ کی امور خارجہ کی کوئی کمیٹی نہیں جہاں خارجہ پالیسی کے مختلف پہلوؤں پر غور کیا جاتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ حکمرانوں کو خفتوں اور ہزیمتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ حکمرانوں کی خفت اور ہزیمت نہیں بلکہ پورے ملک کے قومی وقار کی قبا کو چاک کرتی ہے۔ 

پچھلے دنوں ریاض میں صدر ٹرمپ کا دربار سجا کراس میں پچاس مسلم ممالک کے سربراہوں کو طلب کیا گیاتھا ، اس میں پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کو جس توہین آمیز رویہ کا سامنا کرنا پڑا ، ممکن ہے کہ وہ خود شرمندہ نہ ہوئے ہوں لیکن پاکستان کے خود دار عوام سخت افسردہ ضرور ہوئے تھے۔ ایک تو وہ تقریر جونواز شریف اپنے ساتھ لے گئے تھے اسے انہیں پڑھنے کا موقع ہی نہیں ملا یا موقع نہیں دیا گیا۔ پھر صدر ٹرمپ ، مصری فوجی آمر جنرل السیسی اور دوسرے عرب شیخوں سے تو روبرو ملاقاتیں کرتے رہے لیکن نواز شریف کو ایسا نظر انداز کر دیا جیسے کہ وہ ان سے ملنے سے انکار ی ہیں۔ نواز شریف ٹرمپ کے انتخاب کے بعد انہیں سب سے پہلے مبارک باد دینے والے سربراہوں میں شامل تھے ۔ ٹرمپ کا یہ رویہ صرف نواز شریف کے لئے توہین آمیز نہیں تھا بلکہ پورے پاکستان اور اس کے عوام کے لیے ہتک آمیز تھا۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ریاض میں پاکستانی سفارت خانہ نے نواز شریف کو پوری طرح سے باخبر نہیں رکھا کہ ریاض کی اس سربراہ کانفرنس کے انعقاد کا اصل مقصد کیا ہے اور نہ کسی اور ذریعہ سے حکومت پاکستان کو یہ معلوم ہو سکا کہ اس کانفرنس کا مقصد در اصل ایران کے خلاف محاذ قائم کرناتھا۔ پھر حکومت کی کسی سطح پر ایران کے خلاف اس محاذ کے مضمرات اور خاص طور پر پاکستان میں اس کے خطرناک اثرات پر غور نہیں کیا گیا۔

ہم ایک لمحہ کے لئے بھی پاکستان کی تاریخ کے تباہ کن تجربات پر غور نہیں کرتے ۔ خاص طور پرہم اس دور پر نگاہ نہیں ڈالتے ، جب سن پچاس کے اوائل میں پاکستان اپنے مفادات کابغچہ لپیٹ کر امریکا کے قدموں میں بیٹھ گیا تھا اور سیاٹو اور بغداد پیکٹ میں شامل ہو کر اتراتا پھرتا تھا کہ امریکا اور اس کے مغربی اتحادی اس کا دفاع کریں گے ، لیکن جب 1965میں ہندوستان کے ساتھ جنگ ہوئی تو امریکا اور برطانیہ نے ان دفاعی معاہدوں کے تحت پاکستان کا ساتھ دینے سے یہ کہہ کر صاف انکار کردیا کہ یہ معاہدے تو صرف سوویت یونین کے خلاف ہیں۔

یہی نہیں بلکہ پاکستان کو اس اسلحہ کی ترسیل پر پابندی عائد کردی تھی جو پاکستان کو اپنے دفاع اور اپنی بقا کے لئے اشد ضروری تھا۔ وہ تو سترہ دن کی جنگ کے بعد اقوام متحدہ نے جنگ بندی کرادی اور یوں پاکستان تباہ کن شکست سے بچ گیا اور اس کے بعد روسی رہنماؤں نے تاشقند میں ایوب خان اور لال بہادر شاستری کے درمیاں صلح کا سمجھوتہ کرایا۔اسی طرح 1971میں بنگلہ دیش کی جنگ کے دوران امریکا پاکستان کو یہ دلاسہ دیتا رہا کہ اس کاساتواں بحری بیڑہ مشرق بعید سے بس اب خلیج بنگال پہنچا ہی چاہتا ہے۔

ہمارے حکمرانوں نے اپنے ملک کی عزت اور وقار کاکبھی پاس نہیں رکھا، ہاتھ میں کشکول اور گلے میں برائے فروخت کی تختی لٹکائے رکھی ۔ اس زمانے میں جب پاکستان بغداد پیکٹ میں تھا، تو عراق میں جنرل قاسم کے فوجی انقلاب کے دوران عراق کے شاہ فیصل اور وزیر اعظم نوری السعید قتل کر دئے گئے تھے اور عبرت ناک انداز سے ان کی لاشیں بغداد کی سڑکوں پر گھسیٹی گئی تھیں۔ اس سنگین اور تشویش ناک صورت حال میں تہران میں ہنگامی اجلاس ہوا تھا اور بغداد پیکٹ کو منسوخ کر کے اسے سینٹو کا نام دیاگیا تھا۔ اس زمانہ میں حسین شہید سہروردی وزیر خارجہ تھے۔ 

تہران کانفرنس کے بعد جب وہ ماری پور ہوائی اڈہ پر اترے تو وہاں ایک پریس کانفرنس میں انہوں نے سینٹو کے حق میں دلائل دیے کہ جیسے اس کے بغیر پاکستان بے یارو مدد گار رہ جائے گا۔ سہروردی صاحب سے جب کہا گیا کہ تمام مسلم ممالک اپنا دفاعی اتحاد کیوں نہیں قائم کر لیتے تو انہوں نے یہ کہہ کر مذاق اڑادیا ، کہ زیرہ پلس زیرو پلس زیرو ، برابر ہے زیرو کے۔

جب ہم اپنے آپ کو زیرو سمجھ لیں تو پھر اپنا وقار ، عزت نفس اور آزادی سے دست بردار ہونے میں دیر نہیں لگتی ۔

حقیقت یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سے ، انگریزوں کے دور کے پروردہ آئی سی ایس افسرخارجہ پالیسی پر حاوی رہے ہیں اور انہوں نے عمدا ہمیں پست ہمت کر رکھا اور امریکا اور برطانیہ کا دست نگر رکھنے کی کوشش کی تاکہ ہم آزاد خارجہ پالیسی کی راہ اختیار نہ کریں۔قیام پاکستان کے فورا بعد، سوویت یونین نے اپنے پڑوسی پاکستان کے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو سوویت یونین کے دورے اور دوستانہ تعلقات کی استواری کی دعوت دی تھی، لیکن ان کے ارد گرد آئی سی ایس افسروں نے اس دعوت کو القط کر کے وزیر اعظم کو ہزاروں میل دور امریکا کے دورے پر لے گئے اوربیڑیوں سے امریکا کے پیروں سے ایسا باندھ دیا کہ ابھی تک ہمیں اس سے چھٹکارہ نہیں مل سکا ہے۔

شروع ہی سے افغانستان کے ساتھ ہمارے عجیب و غریب تعلقات رہے ہیںِ۔یہ صحیح ہے کہ افغانستان وہ واحد ملک تھا جس نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ لیکن افغانستان کے ساتھ پرانے تاریخی روابط کے پیش نظر امن و آشتی اور مفاہمت کی پالیسی کے بجائے افغانستان میں جارحانہ مداخلت کی پالیسی اختیار کی گئی۔ یہاں تک کہ اس زمانہ میں جب افغانستان میں طالبان بر سر اقتدار تھے پاکستان نے طالبان کے حریف دھڑوں کو آپس میں لڑایا۔ نتیجہ یہ کہ اس زمانہ میں جب وسط ایشیاء کی جمہوریائیں آزادی کے بعد پاکستان کے ساتھ تجارتی ، صنعتی اور سیاسی قربت کے دروازے کھولنے کے لئے بے قرار تھیں تو افغانستان میں پاکستان کی مداخلت کی وجہ سے یہ راستے مسدود ہوگئے جو اب بھی مسدود ہیں۔ ویسے بھی اب ہندوستان نے افغانستان میں اتنے قدم جما لئے ہیں کہ پاکستان کے لئے وسط ایشیاء کے لئے راستے کھلنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ 

سنہ 1962میں جب نیپال کے ساتھ پاکستان کے سفارتی تعلقات استوار ہوئے تھے ، میں کاٹھ منڈو میں تھا۔ نیپال کے رہنما اور عوام پاکستان سے قریبی تعلقات کے لئے اس قدر والہانہ انداز سے خواہاں تھے کہ بیان سے باہر ہے ۔ ویسے بھی ان دنوں ہندوستان نے گوا پر فوج کشی کی تھی جس کی وجہ سے نیپال کو خطرہ تھا کہ کہیں ہندوستان ، گوا کی طرح اس پر تسلط نہ جما دے۔ نیپال والے یہ سوچتے تھے کہ پاکستان ہی اسے تحفظ فراہم کر سکتا ہے۔ افسوس کہ پاکستان نے اس طرف کوئی توجہ نہیں دی ، اور وجہ یہی کہ ہماری کوئی خارجہ پالیسی اور کوئی حکمت عملی نہیں رہی۔

ایران کے ساتھ تعلقات کے سلسلہ میں ، ہم پر امریکا کا دباؤ اور اس کی ناراضگی کا خوف طاری رہا ہے۔میاں نواز شریف کے بر سر اقتدار آنے کے بعد سعودی عرب کی ناخوشی بھی ایران کے ساتھ گیس اور بجلی کے منصوبوں میں سد راہ بنی رہی ہے۔ پچھلے دنوں قطر کے خلاف سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی معرکہ آرائی اور ناکہ بندی کی صورت حال کے بارے میں پتہ نہیں لیکن محض اندازی ہی کیا جا سکتا ہے ، صلاح مشورہ کرنے ،وزیر اعظم نواز شریف ، آرمی چیف کے ساتھ ریاض گئے تھے جہاں ان کی سعودی فرماں روا شاہ سلمان سے ملاقات ہوئی تھی۔ 

ایک روزہ دورہ سے واپسی پر وزیر اعظم نے ایسی پر اسرار خاموشی اختیار کی کہ لوگ دنگ رہ گئے۔ اتنے اہم اور خطرناک بحران کے پس منظرمیں عام توقع یہ تھی کہ وزیر اعظم ریاض میں اپنی بات چیت کی رازداری برقراررکھتے ہوئے کم از کم اس بحران کے بارے میں پاکستان کے موقف کی وضاحت کریں گے۔ لیکن اس بارے میں انہوں نے ایک لفظ نہیں کہا اور سب سے مایوس کن بات یہ کہ انہوں نے پارلیمنٹ کو بھی اعتماد میں نہیں لیا۔وطن واپسی پر البتہ قطر سے دو ارب ڈالر کی مالیت کے گوادر اور نواب شاہ تک LNGپائپ لائین کا منصوبہ موخر کرنے کا اعلان کیا گیا۔ اس سلسلہ میں کوئی واضح اعلان نہ ہونے پر لوگوں پر ہے کہ وہ یہ نتیجہ اخذ کریں کہ ریاض میں کیا طے ہوا۔

ملک میں اس قدر منافقانہ ماحو ل طاری ہو گیا ہے کہ دم گھٹنے لگا ہے۔ ایک طرف جمہوریت جمہوریت کی جے جے کار ہوتی ہے لیکن دوسری جانب جمہوریت کے بنیادی ستون ، پارلیمنٹ کے سلسلہ میں ہمارے حکمرانوں کا ایسا توہین آمیز رویہ ہے جو آمروں کے دور کی چغلی کھاتا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف پارلیمنٹ میں آنے اور اہم فیصلوں کے اعلان اور ان کی وضاحت اور ان پر بحث سے ایسے کتراتے ہیں کہ جیسے اراکین پارلیمنٹ انہیں کاٹ کھائیں گے۔

جب برطانیہ میں وزیر اعظم کو پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیتا دیکھتے ہیں تو دل چاہتا ہے کہ کاش پاکستان میں بھی یہی جمہوری روایت قائم ہو۔ یہاں وزیر اعظم ہر اہم اعلان پارلیمنٹ کے ایوان میں کرتی ہیں، یہی نہیں ہر بدھ کو وہ ایوان میں پارلیمنٹ کے اراکین کے سوالات کا جواب دیتی ہیں ۔ پھر اس کے علاوہ پارلیمانی کمیٹیوں کے اجلاس میں امور خارجہ سے لے کر تعلیم اور معیشت کے امور تک کے بارے میں تفصیل سے بحث ہوتی ہے اور اراکین پارلیمنٹ متعلقہ وزیروں اور حکام کو طلب کر سکتے ہیں اور ان کا کھل کر احتساب کر سکتے ہیں۔ یہی ہے اصل روح جمہوریت کی۔

One Comment