جیت کا نشہ اور اخلاقی گراوٹ کے مظاہرے

آصف جاوید

کل  بروز اتوار، مورخہ 18 اپریل کو پاکستان  کی کرکٹ ٹیم نے انگلینڈ کے  مشہور  زمانہ کرکٹ پلے گراؤنڈ اوول گراؤنڈ پر آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی 2017 کے فائنل میں دفاعی چیمپیئن انڈیا کو ناقابلِ یقین شکست دے کر پہلی مرتبہ  چیمپئنز ٹرافی جیت لی ہے، اور پاکستان کو  عظیم الشان فتح سے سرفراز کیا ہے۔  ہم اس فتح پر پاکستانی ٹیم اور پاکستانی قوم کو مبارک باد  پیش کرتے  ہیں۔ کرکٹ سے ہماری دلچسپی بھی بچپن سے قائم ہے۔  میچ واقعی قابلِ دید تھا، پاکستانی ٹیم نے اپنا شاندار ترین کھیل پیش کیا۔ اور انڈیا کی باؤلنگ اور بیٹنگ دونوں  لائنوں کو  بڑے ہی جارحانہ انداز اور مکمّل اسپورٹ مین اسپر ٹ کے ساتھ  شکست سے دوچار کیا۔

 کرکٹ  برِّ صغیر کے عوام   کا  مقبول ترین کھیل ہے۔  پہلے یہ کھیل زیادہ تر پڑھے لکھے عوام اور اشرافیہ میں کھیلا جاتا تھا، مگر برّصغیر کی تقسیم کے بعد  کرکٹ آہستہ آہستہ مقبول ترین عوامی کھیل بن چکا ہے۔ کھیل کے  میدان میں تو دو ٹیموں کے گیارہ ، گیارہ کھلاڑی کھیل رہے ہوتے ہیں، مگر عوام اس کھیل سے اسٹیڈیم کے علاوہ اپنے اپنے گھروں میں بیٹھ کر ٹیلیویژن پر   بھی اس ہی طرح لطف اندوز ہورہے ہوتے ہیں جیسے اسٹیدیم میں بیٹھے شائقین لطف اندوز ہورہے ہوتے ہیں۔

 کل کرکٹ میچ  کے فائنل میں پاکستان کی فتح پر پورے پاکستان اور دنیا کے ہر خطّے میں جہاں جہاں پاکستانی رہتے ہیں جشن کا سا سماں ہے۔  پاکستان کے علاوہ، متّحدہ عرب امارات، سعودی عرب، آسٹریلیا، برطانیہ، یوروپ ، امریکہ اور کینیڈا میں بھی فتح کا جشن بڑی شان سے منایا گیا ہے۔ کل پوری قوم فتح کے  نشے میں مست تھی۔  اس مستی کے عالم میں قوم کے کچھ نادان نوجوانوں  کے ساتھ ساتھ مقتدرہ کے ایوانوں سے  بھی کچھ ایسی باتیں اور  غیر ذمّہ دارانہ حرکتیں  ظہور پذیر ہوئی جو کہ  قابلِ اعتراض ہیں۔ اور پاکستانی قوم کے شایانِ شان نہیں ہیں۔

 خوشی منانا ایک قدرتی امر ہے۔  فتح کی خوشی منانا قطعی طور پر ایسا عمل نہیں ہے کہ اس پر کوئی تنقید کی جائے، یا  اس عمل کی مذمّت کی جائے۔ مگر باشعور قومیں فتح کا جشن  وقار اور متانت سے مناتی ہیں۔   حریف کی تذلیل کرکے نہیں مناتی  ہیں۔ کرکٹ تو ایک کھیل ہے، میدانِ جنگ میں میں ہونے والی اصلی جنگوں میں فتح پانے کے بعد  بھی پروقار فاتح فوجیں ،مفتوح افواج کی تذلیل نہیں کرتی ہیں۔

اس  عمل کی ایک اعلیترین مثال 16 دسمبر، سنہ 1971 کو  سابقہ مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں انڈین افواج  کے ہاتھوں پاکستانی افواج کی شرمناک شکست اور باقاعدہ ہتھیار ڈالنے کے بعد  انڈیا کی ایسٹرن کمانڈ  کی  فاتح فوج  کا پاکستان کی مفتوح فوج کے ساتھ جنیوا کنونشن کی بنیادوں پر پروقار سلوک تھا۔ میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا نامی کتاب میں کتاب کے مصنٗف بریگیڈئیر (ر)صدّیق سالک رقم طراز ہیں کہ انڈین فوج نے   حتّی الامکان پاکستانی فوج کی تذلیل سے اجتناب کیا، عزّت اور وقار سے پیش آئے اور   جنیوا کنونشن  میں طے کئے گئے اصول و ضوابط کے ساتھ پاکستانی فوجی جنگی قیدیوں سے سلوک کیا گیا، جس کی نگرانی اقومِ متّحدہ کرتی رہی تھی۔

کل ہمارے میڈیا نے جلتی پر تیل کا کام کیا، کل سارا دن میڈیا پر انڈیا کے خلاف زہر اگلا جاتا رہا۔  ایسا لگ رہا تھا کہ ہم نے کرکٹ کا میچ نہیں جیتا ہے، انڈیا فتح کرلیا ہے۔  ایک چینل پر  تبصرہ نگار فرمارہے تھے کہ

اہلیان پاکستان ۔۔۔! کرکٹ میچ کی فتح مبارک لیکن ایک معرکہ ابھی باقی ہے۔اصل میچ  غزوہِ ہند  ہوگا انڈیا کے میدانوں اور ایوانوں میں ہوگا۔اور انشاءاللہ حافظ سعید کی کپتانی میں ہوگا۔ وہ وقت اب دور نہیں۔جب کشمیر   سمیت  سارے انڈیا پر پر پاکستان کا قبضہ ہوگا ۔لال قلعہ پر پاکستان کا جھنڈا لہرا رہا ہوگا، پاکستانیو ں اِس نجس اور پلید ہندو بنیے سے آخری اور فیصلہ کن معرکے کی تیاری کر لو۔

ایک چینل پر  کشمیریوں کے بے گناہ خون کے ایک ایک قطرے کا حساب  لینے کا عہد کیا جارہا تھا تو دوسرے چینل پر علّامہ عامر لیاقت حسین انڈین اداکار رشّی کپور کو  آنڈو بکرے کے کپورےکھلا رہے تھے۔

چینل بدلتے ہوئے ایک چینل پر نظر پڑی جس میں  ایک جید عالم پاکستان کی بین الاقوامی شناخت میں کرکٹ کے کردارپر  لیکچر دے رہے تھے۔  ایک اور چینل پر ایک سابقہ کرکٹر جو کہ اب ایک تبلیغی عالم دین بن چکے ہیں، فرمارہے تھے کہ  پاکستان کی فتح  ، اسلام کی فتح ہے، 22 رمضان المبارک کو اللہّ کے فرشتے اوول کرکٹ گراؤنڈمیں پاکستانی ٹیم کے ساتھ روحانی طور پر شاملِ کھیل تھے۔ اوول گراؤنڈ پر نبیوں اور ولیوں کا سایہ تھا، کیونکہ اس ٹیم میں پاک فوج اور پاک بحریہ کے جوان بھی کرکٹر کے روپ میں پاکستان کی شان ، بان، اور آن کے لئے  میدانِ جنگ  (کرکٹ کےگراؤنڈ )میں مصروف تھے۔  یہ جیت پاکستان کا مقدّر تھی، اور اس میں ہار نا ممکن تھی۔

  ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو اللہ نے جتوایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چونکہ پروگرام میں لائیو سوال کرنے کی  اجازت نہیں تھی، اگر ہوتی تو میرا دل چاہ رہا تھا کہ پوچھوں کہ بھیّا  اگر پاکستان کو  ٹیم کی بہتر کارکردگی نے  نہیں جتوایا ، بلکہ اللہّ نے جتوایا  ہے تو اب تک پاکستان کو ہروا کون رہا تھا؟؟؟؟

سوشل میڈیا پر کچھ نادان اور  غیر ذمّہ دار قسم کے نوجوانوں نے ایک کمزور سی بکری پر انڈیا کا جھنڈا بنا کر ایک طاقتور پہاڑی بکرے پر پاکستان کا جھنڈا بنا کر بر سرِ  عام چوک پر کھڑے ہوکر  بکرے کو بکری پر جنسی حملہ آور ہوتے اور  بکری کو  زبردستی قابو کرکے جنسی عمل کرنے کی وڈیو بنا کر اپ لوڈ کردی جو کہ بے انتہا وائرل ہوگی۔  یہ اخلاقی گراوٹ اور لطف اندوزی کی ایک گھٹیا ترین مثال ہے۔

انگلینڈ کے اوول میں منعقدہ چیمپئنز ٹرافی کے فائنل میں پاکستان کی جیت پر  پاکستانی فوج کے ترجمان  نے بھی انتہا درجے کی غیر ذمّہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے  پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی جیت کے بہانے  انڈیا  کو  اپنے طنز  ایسا کا نشانہ بنایاہے ،   جو ایک پیشہ ورانہ فوج کے ترجمان کو زیب نہیں دیتا۔  پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے میچ دیکھنے والے کرکٹ شائقین کی تصاویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا:-یہ ہمارا بلوچستان ہے۔

ٹویٹ کی گئی تصاویر میں لوگ پاکستان کی جیت کا جشن مناتے نظر آ رہے ہیں۔

فوج کے ترجمان نے مزید لکھا:-جس کسی سے بھی اس کا تعلق ہو۔۔۔ دور رہیں۔

سوشل میڈیا پر تقریباً آدھ گھنٹے بعد میجر جنرل آصف غفور نے ایک اور ویڈیو پوسٹ کی جس کے ساتھ انھوں نے لکھا کہ :- اور یہ ہے۔۔۔ سری نگر (انڈین کشمیر)۔

اس ویڈیو میں چند افراد آتش بازی کرتے اور چیختے چلاتے نظر آ رہے ہیں، لیکن وہ کیا کہہ رہے ہیں یہ واضح طور ویڈیو میں  سنائی نہیں دے رہا تھا۔ واضح رہے کہ جو وڈیو میجر جنرل آصف غفور نے پوسٹ کی تھی ،اصل میں  وہ ویڈیو ایک گھنٹہ قبل جےاینڈ نام کی ایک نیوز ویب سائٹ  پر اپ لوڈکی گئی تھی۔

اسلام آباد میں مقیم ہمارے دانشور دوست اور روشن خیالی کے پرچارِک محترم ارشد محمود نے اس موضوع پر ایک مختصر اور جامع تبصرہ کیا ہے جو میں  آخر میں اپنے قارئین کے گوش گذار کرنا چاہوں گا

چیمپئن ٹرافی میں جیت بہرحال ایک بڑا قومی خوشی کا واقعہ ہے، لیکن اس کے ردعمل میں جو چیزیں سامنے آئی ہیں:۔

۔1۔کرکٹ جو صرف ایک کھیل ہے، پاکستان میں اسے بھی سیکولرنہیں ہونے دیا جائے گا۔ اس کے ساتھ اسلامسٹ تڑکا اورٹیم پرمذہبی اثرات ریاست کی طرف سے عائد کئے جاتے رہیں گے۔

۔2۔کھیل کے نام پربھی الٹرا نیشنلسٹ جذبات ابھارے جاتے رہیں گے۔ یعنی حب الوطنی کا مطلب کسی دوسری قوم اورملک سے نفرت سامنے دشمن بھارتہو، نفرت کا زہردوچند کردیا جائے۔ الٹرانیشنل ازم ہٹلرکا ہتھیارتھا۔ اورپھر اس نے دنیا اوراپنے ملک کوتباہ کرکے رکھ دیا۔

۔3۔غم ہو یا خوشی۔۔۔۔۔۔۔ہم مہذب رویہ اپنانے سے قاصررہیں گے۔

۔4۔سپریم مافیا (مقتدرہ)پاکستان اوراس کے عوام کو ترقی اورتہذیب کی اگلی منزل پرکبھی جانے نہ دیں گے۔

جیت کا سارا کریڈٹ اللہ کوجاتا ہے،اس کے فرشتے بہت اچھا کھیلے، آرمی چیف نے اللہ کی اس خفیہ مدد کا شکریہ ادا کرنے کے لئے ٹیم کواس کے گھر بھیجنے (یعنی عمرےپر جانے) کے آرڈرجاری کئے ہیں۔ حالانکہ اس طرح کا فیصلہ ملک کے وزیرِ اعظم کا حق بنتا ہے۔ 

 انڈیا دشمنی چونکہ آرمی کی ڈومین ہے، اس لئے انڈیا کے خلاف اس جیت کوپاکستان آرمی  نے اون کرلیا ہے۔ اب اس کا استعمال انڈیا دشمنی اوراسلام کی سربلندی کے جذبات مزید ابھارنے کے لئے استعمال کیا جائے گا۔

میں ان الفاظ کے ساتھ اس مضمون کا اختتام کرنا چاہوں گا کہ ابھی ہمیں مِن الحیث القوم اخلاقی تربیت اور تحمّل و بردباری کا رویّہ اپنانے کی سخت ترین ضرورت ہے۔ عملی زندگی اور میدانِ جنگ میں انڈیا سے چار جنگیں  ہارنے والی قوم کو یہ زیب نہیں دیتا کہ ایک کرکٹ میچ میں حاصل ہونے والی فتح کو جواز بنا کر اپنی جعلی  برتری ثابت کی جائے۔

اگر برتر بننے کا اتنا ہی جنون ہے تو، پاکستان کے عوام کو حقیقی جمہوریت، عوامی حکمرانی، بنیادی انسانی حقوق، بنیادی انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے اقدامات، پینے کے صاف پانی، تعلیم، صحت، روزگار کے مواقعوں، انفرا اسٹرکچر کو توسیع، مساوی شہری حقوق ، وسائل اور اقتدار میں منصفانہ شراکت، ریاستی دہشت گردی کے خاتمے اور جبری اغوا، ماورائے عدالت قتل جیسے قبیح اعمال سے اجتناب پر توجّہ دینی ہوگی۔

تب جا کر کہیں حقیقی خوشی کا سامان دستیاب ہوگا، کرکٹ میں فتح تو بائی چانس بھی ہوسکتی ہے۔ اس پر غیر حقیقی خوشیاں منانے اور آپے سے باہر ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

3 Comments