مشروط

فرحت قاضی

کیا تمہیں بادشاہ کی رحم دلی اور انصاف کے پیچھے استحصال نظر نہیں آتا؟

لوگوں کے حُلیے کو ان کے پیشوں اور پس منظر کے تناظر میں دیکھنا اشد ضروری ہے۔
ایک شخص کار سے اترا اور مسجد کی صف میں جاکر کھڑا ہوگیا ظہر کی نماز کا وقت تھا اس کی پراڈو اور لبا س سے امارت اور وجاہت ٹپک رہی تھی نماز ختم ہوگئی تو لوگوں نے اپنے اپنے گھروں کی راہ لی مگر وہ خانہ خدا میں بیٹھا رہا اس کے ہاتھ دیر تک دعا کے لئے اٹھے رہے فارغ ہوا تو مسجد کا جائزہ لینے لگا ایک ایک چیز کو دیکھتا اور ایسے سر ہلا تا گویا اسے کسی چیز کا افسوس ہورہا ہو۔
اپنے ملازم سے پوچھا:’’ کتنے پنکھے چاہیءں؟‘‘۔
جواب ملا:’’ صاحب! آٹھ کافی ہوں گے‘‘۔
اگلے روز اسی وقت دو گاڑیاں مسجد کے پاس آکر رک گئیں ایک سے وہی شخص اترا اور دوسری میں آٹھ پنکھے پڑے ہوئے تھے جو کہ کچھ دیر میں ہی لگ گئے۔
لوگوں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔
یہ ایک پسماندہ آبادی اور یہاں غریب رہائش رکھتے تھے مکینوں سے زیادہ صبر نہ ہوسکا ایک نے پوچھا: ’’ معذرت چاہتا ہوں آپ ان داتا اور نیک دل انسان کو پہلی مرتبہ دیکھ رہا ہوں جناب آپ کیا کرتے ہو؟‘‘۔
’’
میں پاکستان سے لوگوں کو روزگار اور ملازمت کے لئے بیرون ممالک بھیجتا ہوں‘‘۔
دیہی باشندوں کی دل چسبی بڑھ گئی ایک تو اسی وقت دوڑا دوڑا گیا بکساکھولا اور پیسے لاکر اس نیک بندے کی جھولی میں رکھ دئیے اور منتیں کرنے لگا اس نے پیسے جیب میں رکھے چند روز میں پاسپورٹ بنوا کر دیا اپنے کارندے کے ساتھ گاڑی میں بٹھایا اور تھوڑے وقفے سے پوچھتا کہ اب وہ کہاں ہیں بالآخر کراچی پہنچ گئے تو دیہاتی نے بتایا کہ شپ یار ڈ سے چند قدم کے فاصلے پر ایک ہوٹل میں رات گزارے گا اور صبح روانگی ہوگی۔
یہ بات چیت موبائل پر ہورہی تھی اور نیک انسان نے اسے لاؤڈ پر لگایا ہوا تھا تاکہ وہاں موجود تمام افراد بھی سنتے رہیں پھر اس نے بعض افراد سے اس دیہاتی کی گفتگو بھی کروائی اس کے پاس اگلے روز تک متعدد دیہی باشندے بیرون ملک جانے کے لئے رقوم جمع کرا چکے تھے مگر صبح سے دوپہر اور پھر شام ہوگئی بالآخر دیہاتی کا فون آگیا اس نے بتایا کہ اس کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے علاقے کے باسیوں کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔

اگر اس آبادی کے مکین اشیاء ، افعا ل اور واقعات کو ایک دوسرے سے الگ تھلگ نہیں بلکہ جوڑ اور سیاق و سباق سے ملاکر دیکھتے تو دھوکہ اور فریب کا یہ سانحہ انہیں شاید نہ سہنا پڑتا
ہم اس وقت دھوکہ کھاتے ہیں جب انسانوں کو نیک اور برے کے خانوں میں بانٹ کر دیکھتے ہیں ایک انسا ن مسجد کو باقاعدہ چندہ دیتا ہے حج پر بھی جا چکا ہے غریبوں کی امداد کرتا ہے ان کی غمی اور خوشی میں حاضری کو اپنی ڈیوٹی سمجھتا ہے اسی طرح ایک دوسرا شخص ہے جس نے مسجد کا کم ہی ر خ کیا ہے بھک منگا ہاتھ آگے کرتا ہے تو اشارے سے بتاد یتا ہے کہ نہیں ہے غمی اور خوشی میں شاذ و نادر ہی چہرہ دکھاتا ہے۔
ان دونوں کو ہم نے نیک اور برے میں تقسیم کر رکھا ہے اسی طرح ہم نے بعض افعال اور اشیاء کو بھی انسانوں سے مشروط کیا ہوا ہے حالانکہ بسا اوقات یہ اس کے پیشے کا تقاضہ بھی ہوتا ہے ایک بدمعاش اپنے پیشے سے ہم آہنگ اپنا حلیہ بناتا ہے چنانچہ اس کی لمبی مونچھیں سر پر ٹیڑھی ٹوپی کندھے پر پستول گفتگو میں جارحیت اور چھبتی ہوئی گالیوں سے بھرا ہوا منہ اور اگر ایک دو قتل بھی کئے ہوں تو پھر یہ اس کی پہچان ہے اسے دیکھ کر لوگوں پر دہشت کا طاری ہونا بھی ضروری ہے اور یہ رائے رکھتے ہوں کہ اس کے لئے کسی کی جان لینا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔
وکیل بات چیت میں موکل اور جج کو قائل کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہو بے دھڑک بول سکتا ہو تھوڑی بہت ادا کاری کرنا بھی آتا ہو۔
بھکاری ایسا حلیہ بناتا ہے جسے دیکھتے ہی رحم اور ہمدردی کے جذبات جاگ اٹھتے ہیں اس کا لباس میلہ اور مہینوں سے دھویا ہوا نہیں ہوگا ہاتھ یا پیر ٹیڑھا کرکے یہ ظاہر کرے گا کہ وہ تو کام کاج کا اہل نہیں ہے اور اس کے پاس بھیک مانگنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔
القصہ ہر انسان اپنے پیشے اور عمر کی مناسبت سے اپنا حلیہ بناتا ہے جس طرح ایک فلم کی کہانی اور پلاٹ ہوتا ہے اور ہر اد اکار اپنا کردار ادا کرتا ہے بعینہٰ یہی کچھ زندگی میں بھی ہوتا ہے اور یہ چھوٹے تو بڑے پیمانے پر بھی ہوتا ہے۔

سرکاری کالونی میں ایک شخص اپنے کنبے کے ساتھ غیر قانونی طور پر رہائش پذیر ہے اسے یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ شکا یت کی صورت میں اس کا بوریا بستر گول کیا جاسکتا ہے چنانچہ اسے پڑوسیوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے وہ ان کے بچوں کو کبھی ٹافی پکڑا دیتا ہے تو گھر فروٹ یا کھانا بھیج دیتا ہے یا پھر اسے اپنا حلیہ دہشت ناک بنانا پڑتا ہے ایک ڈکٹیٹر بھی یہی کرتا ہے وہ نئے تھانے دار کی مانند آتے ہی اصلاحات کا ڈھنڈورا پیٹتا ہے کرپشن اور اقرباء پروری کے خلاف آپریشن شروع کر دیتا ہے فری میڈیکل کیمپ لگاتا ہے عوام پر ظاہر کرتا ہے کہ وہ ان کا نجات دہندہ ہے اور ان کی ناتمام خواہشات کی تکمیل کے لئے آیا ہوا ہے ۔
اس کے ساتھ ہی وہ مخالفین کو پھانسی پر لٹکا تا ہے کوڑے برسا تا ہے جیلوں میں ٹھونستا ہے دیواروں میں چنو ادیتا ہے۔
یہ حقیقت آہستہ آہستہ کھلتی ہے کہ اس کے اقتدار ہاتھ میں لینے کا حقیقی مقصد کیا تھا۔
انسانوں کے قول و فعل کو ان کے پس منظر سے الگ تھلگ دیکھنے سے یہ دھوکہ بھی ہوتا ہے کہ ہم ایک کو اچھا اور دوسرے کو برا سمجھ لیتے ہیں اس کی مثال پاکستان میں دو جنرلوں ۔۔۔ جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف ۔۔۔ کی حکومتیں ہیں۔

اولالذکر کو ہم ملک میں حالیہ دہشت گردی اور انتہاپسندی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کے دور اقتدار میں افغانستان میں مداخلت کی گئی باہر سے القاعدہ اور ملک میں مجاہدین اور طالبان پیدا کئے گئے درسی نصاب کو جہاد ی بنا دیا گیا سیاسی آزا دیوں پر قدغن رہا میڈیا کو پابند کیا گیا اور صحافیوں اور صحافت کو بیڑ یاں پہنائی گئیں اس کے برعکس جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں القاعدہ اور طالبان کو دہشت گرد قرار دیا گیا امریکہ کو ڈرون حملوں کی اجازت دی گئی کئی دہشت گرد اسی دور میں حوالے بھی کئے گئے نئے چینلز کھلے اور روشن خیالی کا پرچار بھی کیا گیا۔
چنانچہ دو مختلف مکتبہ فکر سے وابستہ افراد ان دونوں کو الگ الگ کرکے دیکھتے ہیں ایک کے نزدیک جنرل ضیاء الحق امیر المومنین اور مجاہد تھا تو دوسرا اسے برا کہتے ہوئے جنرل پرویز مشرف کے مختلف ہونے کے لئے اس کی روش خیالی کو بطور ثبوت پیش کرتا ہے لیکن ان کو ان کے حالات اور پس منظر میں دیکھا جائے تو پھر دونوں میں کوئی فرق نظر نہیں آئے گا۔
جنرل ضیاء الحق نے اقتدار ہاتھ میں لیا تو دنیا بھر میں سوشلسٹ تحریکیں زوروں پر تھیں روس افغانستا ن میں داخل ہوا امر یکہ سمیت دنیا بھر کے سرمایہ دار ممالک اسے افغانستان سے نکالنے کے درپے تھے اسی ضرورت کے تحت پاکستان میں القاعدہ کو آنے کی دعوت دی گئی منظم کیا گیا اور معاونت دی گئی حتیٰ کہ اس کے رہنماؤں کو بسا یا بھی گیا اسی ضرورت کے تحت نصاب تعلیم کو بھی جہادی بنایا گیا۔
جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں نائن الیون کا واقعہ پیش آیا القاعدہ اور طالبان پر الزامات عائد کئے گئے مجاہدین دہشت گرد مشہور کردئیے گئے ان کے خلاف کارروائیوں کا آغاز کر دیا گیا اسی ضرورت کے تحت پاکستان میں میڈیا کو آزادی دی گئی میڈیا پر ان کا قد کاٹھ کم کرنے کے لئے پرچار بھی کیا جانے لگا۔
چنانچہ دیکھا جائے تو جنرل ضیاء الحق کے دور کی اپنی ضروریات تھیں اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں حالات بدل گئے تھے۔

اس کی دوسری مثال پولیس اہلکاروں کا رویہ ہے پشاور کا رامداس ایک ایسا علاقہ ہے جس کی زیادہ تر آبادی غریب محنت کشوں پر مشتمل ہے اور اسی طرح محنت مزدوری کرنے والوں کی اکثریت ناخواندہ بھی ہے یہاں ڈیوٹی پر موجود پولیس اہلکار یہ حقیقت جانتا ہے اس لئے وہ ایک راہ گیر کو آواز دے کر اپنے پاس بلاتا ہے چادر اٹھاتا اور جیب میں ہاتھ دیتا ہے اور ساتھ پوچھتا بھی جاتا ہے کہ کہاں سے آرہے ہو کیا کام کرتے ہو اور اس لمحہ کدھر جانے کے ارادے سے پاؤں اٹھ رہے تھے۔
یہی پولیس اہلکار حیات آباد میں خدمات انجام دے رہا ہے اور یہ جانتا ہے کہ یہ پختونخوا کا پوش علاقہ اور آبادی ہے یہاں کا رہائشی تعلیم یافتہ اور دولت مند ہوگا اسے ملکی قوانین کی بھی شد بد ہوگی وہ حبس بے جا بھی جانتا ہوگا اور بے جا روکنے اور سوالات کرنے پر شکایت بھی کر سکتا ہے ان حالات کو ذہن میں رکھ کر وہ با ادب کھڑا ہوتا ہے اور ایک بدلا ہوا انسان لگتا ہے
راقم الحروف نے کسی سے سنا تھا کہ سکندر اعظم اور اس کا ایک وزیر ہم راہ جارہے تھے
وزیر نے کہا:’’ میں آپ کی جگہ ہوتا تو اسے ضرور سزا دیتا مگر ۔۔۔ مگر آپ نے معاف کرد یا‘‘
ارسطو کے شاگرد سکندر اعظم نے جواب دیا:’’ بجا فرمایا، میں بھی آپ کی جگہ ہوتا تو شاید یہی کہتا‘‘

جو افراد یہ جانتے ہیں کہ مخصوص حالات مخصوص انسان پیدا کرتے ہیں تو وہ ضرورت کے مطابق قلیل اور طویل المدتی منصوبے بناتے ہیں اور حالات بھی پیدا کرتے ہیں چنانچہ اگر کسی ملک پر حملے کا ارادہ ہے تو اس پر الزامات عائد کئے جاتے ہیں عوام کو ذہنی طور پر تیار رکھنے کے لئے درسی نصاب اور میڈیا کے ذریعے نفرت پیدا کی جاتی ہے سڑکوں، عمارتوں اور تعلیمی اداروں کے نام اس پالیسی سے مطابقت رکھنے والے افراد کے ناموں پر رکھے جاتے ہیں نصاب تعلیم میں فتو حا ت ، شہزادوں ، شہزادیوں اور بادشاہوں کی رحم دلی اور انصاف پر مبنی کہانیاں اور واقعات شامل کرکے شخصیت پرستی کے لئے راہ ہموار کی جاتی ہے
اگر آپ حالات اور انسانی رویے کے باہمی رشتے کو مشروط دیکھنے کے عادی نہیں اور انسانوں کی بات چیت اور افعال کو ان کے ذاتی کردار اور اخلاق سمجھتے ہیں تو بار بار غلطیوں اور فریب کھانے کا امکان ہمیشہ موجود رہے گا۔

Comments are closed.