سياسی پناہ کے  ليے ترکِ اسلام کے واقعات

جرمنی ميں موجود مسلمان ممالک سے تعلق رکھنے والے چند پناہ گزين اپنا مذہب ترک کر کے مسيحی عقیدہ اپنا ليتے ہيں۔ لیکن سوال يہ ہے کہ آيا ايسے تارکين وطن اس فيصلے تک مذہب کے بارے ميں اپنی رائے تبديل ہونے کے بعد پہنچتے ہيں يا ان کا مقصد اپنے لیے سياسی پناہ کے حصول کے امکانات میں اضافہ ہوتا ہے۔

اس بارے ميں بحث پہلے بھی ہوتی رہی ہے ليکن يہ معاملہ حال ہی میں ايک مرتبہ پھر اس وقت بحث کا موضوع بنا جب ایک جيل ميں قيد ايک افغان پناہ گزين نے مسیحیت اختیار کر لی اور اس کے بعد اس کی ملک بدری کے احکامات پر عملدرآمد روک ديا گيا۔

اس کہانی نے ايک غير متوقع موڑ اس وقت ليا، جب اسی افغان تارک وطن نے بعد ازاں جرمن صوبے باويريا کے ايک چھوٹے سے شہر ميں ايک چھوٹے بچے کو قتل کر ديا۔ یوں پیدا ہونے والی صورت حال نے نہ صرف سياستدانوں بلکہ کليسا کو بھی ایک کشمکش ميں مبتلا کر ديا کیونکہ دونوں کو ہی اب کئی کٹھن سوالات کا سامنا ہے۔

جرمنی ميں سبھی سياسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سياستدان جرائم ميں ملوث پناہ گزينوں کی ملک بدری پر ايک عرصے سے زور ديتے آئے ہيں۔ آرنشوانگ ميں ایک بچے کو قتل کرنے والے افغان تارک وطن کو بھی واپس اس کے وطن بھيجا جانا تھا تاہم ميونخ کی ايک عدالت نے اس کی ملک بدری کے احکامات پر عملدرآمد روک ديا تھا۔

عدالت کا موقف تھا کہ اسلام ترک کرنے اور مسیحی عقیدہ اپنانے کے نتيجے ميں اس افغان باشندے کو اپنے ملک ميں تشدد کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا اور اس کی جان کو بھی براہ راست خطرہ ہو سکتا تھا۔ جرمنی ميں جرائم کی تحقیقات کرنے والے ماہر اہلکاروں کی ملکی تنظیم ،بی ڈی کے، کے نائب سربراہ الُف کُیوش کے بقول کئی مسلمان تارکين وطن عموماً مسیحیت صرف اس ليے قبول کر لیتے ہيں کہ ان کو سياسی پناہ ملنے کے امکانات روشن ہو جائيں۔

اس طریقہء کار سے منسلک مسيحی مذہبی رہنما اکثر اپنا مذہب تبديل کرنے والوں کی کڑی جانچ پڑتال نہيں کرتے اور نہ ہی ايسا کوئی باقاعدہ نظام موجود ہے جس سے پتہ چلایا جا سکے کہ کوئی شخص واقعی مسیحی تعلیمات سے متاثر ہوا ہے يا اس کے درپردہ مقاصد کچھ اور ہيں۔ الُف کُیوش کی رائے ميں متعلقہ تارک وطن سے سخت سوال و جواب کے سلسلے سے اس کی حقيقی نيت کا تعين ممکن ہے۔

اس کے برعکس جرمنی میں کيتھولک کلیسا کی ملکی تنظیم جرمن بشپس کانفرنس کے مطابق کسی بھی درخواست گزار کو باقاعدہ طور پر مسیحیت

اپنانے سے قبل کئی ماہ تک مختلف تربيتی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اور اس جملہ امور کا تفصيلی جائزہ بھی ليا جاتا ہے۔ اس تنظیم کے مطابق يہ عوامل تمام خواہش مند افراد کے ليے يکساں ہيں اور متعلقہ افراد کی قوميت، سابقہ مذہب یا ثقافتی پس منظر مذہب کی تبديلی کے مراحل پر بالکل اثر انداز نہيں ہوتے۔

جرمن شہر کولون ميں ايک چرچ سے منسلک ريفيوجی ريليف کوآرڈينيٹر کلاؤس ہاگےڈورن کا کہنا ہے کہ مہاجرين کے ليے کام کرنے والے رضاکاروں کی طرف سے انہيں متعدد مرتبہ ايسی فون کالز موصول ہوتی ہيں، جن ميں وہ تارکين وطن کی ملک بدری رکوانے کے ليے مذہب کی تبديلی کی درخواست کرتے ہيں۔ ہاگےڈورن نے کہا کہ کليسا ايسے معاملات ميں بالکل تعاون نہيں کرتا۔

مہاجرين کو معلومات فراہم کرنے والے کولون ميں قائم ايک مسيحی مرکز کی سربراہ ارمگارڈ کونِن بتاتی ہيں کہ ننانوے فيصد واقعات ميں مسيحیت اپنانے والے مذہب ميں حقيقی طور پر دلچسپی رکھتے ہيں، خواہ اس کی قيمت انہيں اپنوں سے جدا ہو کر ہی کيوں نہ چکانا پڑے۔ کونِن کا کہنا ہے کہ اپنا مذہب ترک کر کے مسيحی بننے والے لوگ اپنے ایسے فیصلوں کی مختلف وجوہات بيان کرتے ہيں۔

ان ميں سے کچھ يہ کہتے ہيں کہ وہ اپنے ملک ميں پائے جانے والے اسلام کو ترک کرنا چاہتے ہيں تو کچھ يہ بھی کہتے ہيں کہ ان کی رائے ميں مسيحی مذہب ہی درحقيقت محبت کی تلقين کرتا ہے۔ چند مہاجرين يہ قدم جرمن معاشرے کے ساتھ اپنا ربط بڑھانے کے لیے بھی اٹھاتے ہيں۔

DW

3 Comments