جے آئی ٹی دو قومی نظریہ کا احتساب کر رہی ہے‎

انور عباس انور

ذوالفقار علی بھٹو پر چلنے والے مقدمہ قتل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بھٹو کے وکلاء نے مقدمہ کو مقدمہ سمجھ کر لڑا ہی نہیں ،اگر ذوالفقا ر علی بھٹو اور ان کے وکلاء مقدمہ قتل کو سیاسی نہ بناتے اور خالصتا اسے فوجداری مقدمہ سمجھ کر لڑا جاتا تو شائد فیصلہ مختلف ہوتا۔۔۔ذوالفقا ر علی بھٹو کو تختہ دار پر جھولے عرصہ بیت گیا لیکن کہنے والے آج بھی اپنے موقف پر قائم ہیں، ایسی ہی خیالات کا اظہار میاں نواز شریف اور ان کے خونی و سیاسی رفقائے کار بھی کرتے رہے ہیں۔

پانامہ کیس۔۔۔ جب سے شروع ہوا ہے ، وزیر اعظم نواز شریف نے خود قوم سے اور پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے خود کو احتساب کے لیے پیش کیا اور ایک نئی روایت قائم کرنے میں پہل کی ، ان کے فرزند ارجمند و اکبر، حسین نواز نے بھی متعدد بار مختلف ٹی وی ٹاک شوز میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ انکوائری کے لیے منتخب ہر فورم پر سارا حساب کتاب پیش کریں گے ، ایسے ہی بیانات حسن نواز اور مریم نواز کے بھی ریکارڈ پر موجود ہیں۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے پانامہ کیس کا فیصلہ سنایا تو دو ججز نے کھل کر وزیر اعظم کو نااہل قرار دیا اور باقی تین ججز نے معاملے کی مزید انکوائری کی ضرورت محسوس کی اور ایک جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ دیا ،تو اس وقت حکمران جماعت اور خاندان کے چیدہ اور سرکردہ راہنماؤ ں نے مٹھائیاں تقسیم کیں اور تاثر پیدا کیا گیا کہ عدالت عظمی نے شریف خاندان کو پانامہ کیس کے الزامات سے بری قرار دیا ہے ،جب کہ مخالفین کا استدلال یہ تھا کہ اگر بری کیا گیا ہے تو پھر جے آئی ٹی کس مقصد کے لیے قائم کی جا رہی ہے ؟

اب جب حکمران خاندان کے افراد جے آئی ٹی میں پیشیاں بھگتتے جا رہے ہیں ،ان کے لب و لہجے میں تلخی بڑھتی جا رہی ہے، نواز شریف ، شہباز شریف ،حسن اور حسین نواز شریف نے بھی بہت نامناسب باتیں کہیں لیکن پاکستان کی طاقتور خاتون کا خطاب پانے والی بی بی مریم نواز شریف کے شوہر کیپٹن ریٹائرڈ صفدر نے تو حد کردی ہے، موصوف نے جے آئی ٹی میں پیشی کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے فرمایا کہ’’ احتساب نواز شریف کا نہیں دو قومی نظریہ کا احتساب ہو رہا ہے،پانامہ کیس نظریہ پاکستان کے خلاف کیس ہے، کیپٹن صفدر نے یہ بھی کہا کہ جے آئی ٹی میں دوران پوچھ گچھ باہر سے چٹیں آتی رہیں ‘‘ وزیر اعظم نواز شریف نے بھی سعودی عرب سے لندن پہنچ کر کھل کر کہا کہ’’ پانامہ کیس تماشا ہے، یہ احتساب نہیں مذاق ہو رہا ہے،جے آئی ٹی واٹس ایپ کال سے شروع ہوئی،ان کے اندر بغض بھرا ہوا ہے،‘‘۔

حکمران جماعت و خاندان کے ارکان سے جے آئی ٹی کے استفسارات اس کے فرائض میں شامل ہے، اور اسے حق حاصل ہے حقائق تک پہنچنے کے لیے جو وہ مناسب خیال کرے پیش ہونے والوں سے سوالات پوچھے، ایسا تو نہیں ہوسکتا کہ جے آئی ٹی کے معزز ممبران اپنے سامنے تشریف فرما افراد سے کہیں کہ جناب جو بیان ریکارڈ کروانا چاہتے ہیں آپ کروا دیں اور تشریف لے جائیں‘‘۔ جے آئی ٹی کے استفسارات سے پریشان حکمران عوام کو گمراہ کرنے کے مشن پر ہیں، ان کا خیال ہے کہ عوام کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی جائے کہ جے آئی ٹی ان کے مخالفین کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے، اور عدالت عظمی کو بدنام کرنے کے لیے جے آئی ٹی کے کندھے پر بندوق رکھ کر عدالت عظمی کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے ،کیا جے آئی ٹی کے روبرو پیش ہونے، اس کے سولات کے جوابات دینے کو نظریہ پاکستان کا احتساب قرار دینا حقائق کو تروڑ مروڑ کر عوام کو گمراہ کرنے کی سوچی سمجھی سکیم نہیں ہے؟

کیا نواز شریف اور ان کے رفقائے کار اسی راستے پر نہیں چل پڑے جس راستے پر چل کر ذوالفقا ر علی بھٹو شہید ہوئے؟ بھٹو صاحب پر صحیح طور پر مقدمہ نہ لڑنے کا الزام لگانے والے خود کیوں مقدمہ کو سیاسی بنانے پر تلے ہوئے ہیں؟مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ ساری عمر حق و صداقت کی لڑائی لڑنے کے دعویدار بڑے بڑے صحافی بھی نواز شریف کے خلاف انکوائری کو ذاتی انتقام سے تعبیر کر رہے ہیں، ایک صحافی جن کا اپنا اخبار بھی ہے اور وہ دنیا کو پسند کرتے ہیں حالانکہ ان کی عمر کا تقاضا ہے کہ وہ سچ کا ساتھ دیں لیکن شائد ان کی کچھ مجبوریا ں سچ کا ساتھ دینے میں حائل ہو رہی ہیں ،کا کہنا ہے کہ کچھ لوگ پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔

جے آئی ٹی میں صرف دو افراد ایسے بیٹھے ہیں جن کے متعلق حکمران جماعت و خاندان کو تحفظات ہیں، باقی ارکان حکمران خاندان و جماعت کے لیے قابل قبول ہیں، باقی ارکان میں سول اداروں کے ارکان کے علاوہ پاک فوج کے افسران موجود ہیں، پوری جے آئی ٹی پر بہتان تراشی کرنے سے پاک فوج کے ارکان بھی زد میں آ رہے ہیں، اپنی فوج کے ارکان پر الزامات لگانا کسی صورت احسن اقدام نہیں کہا جا سکتا، نہ جانے وزیر اعطم اور وزیر اعلی پنجاب سمیت مسلم لیگ کو کون ایسے مشوروں سے نواز رہا ہے کہ جے آئی ٹی اور عدالت عظمی کو متنازعہ بنانے سے انہیں فائدہ ہوگا؟

نواز شریف اور ان کے خاندان کو مشکلات کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرنا چاہیے، اور اداروں پر تہمتیں لگانے سے گریز کی راہ اختیار کرنی چاہیے، عدالت عطمی سمیت دیگر اداروں سے ٹکراؤ کی پالیسی ترک کرکے مقدمہ یا انکوائری کو خالصتا قانونی بنیادوں پر لیا جائے، ورنہ ’’ شیر بن شیر‘‘کے مشورے دینے والے ایئرپورٹ پر بھی چھوڑنے نہیں آئیں گے، پاکستان سے محبت کا مقصد اس کے اداروں سے بھی محبت کرنا ہے، محض لفظ پاکستان سے پیار جتانے کو وطن عزیز سے محبت قرار نہیں پائے گی،۔

جے آئی ٹی عدالت عظمٰی کی جانب سے ملنے والی ذمہ داریوں کو تکمیل تک پہنچانے کے قریب قریب ہے، اب محض چند ایام کی بات رہ گئی ہے، جب جے آئی ٹی اپنی تحقیقاتی رپورٹ عدالت عظمی کے تین رکنی بینچ کے روبرو پیش کردے گی تو پھر عدالت عظمٰی کا بنچ سماعت کرکے اپنے ادھورے فیصلے کو مکمل کرکے سنا ئے گا، یہاں سے حکمران جماعت اور خاندان کا امتحان شروع ہوگا، عدالت عظمٰی کے فیصلے کے آگے سرتسلیم خم کیا جاتا ہے یا اسے متنازعہ بنایا جاتا ہے۔

فیصلہ شریف خاندان کے خلاف آتا ہے یا اس میں نواز شریف اور شہباز شریف کو بھی شامل کیا جاتا ہے اگر ایسا ہی ہوا تو حکمران جماعت کیا لائحہ عمل اختیار کرے گی، نئے انتخابات کی کال دے گی یا نواز شریف مستعفی ہوکر اپنے کسی باعتماد رکن اسمبلی کو وزیر اعظم بنا کر اپنی مدت پوری کرنے کا فیصلہ کرتی ہے۔ بس چند روز کی دوری پر حکمران جماعت اور شریف خاندان کا مستقبل کھڑا ہے۔

Comments are closed.