میاں بکری چور اورخان مرغی چور

ارشد بٹ 

آئین میں اٹھارویں ترمیم کے وقت سینیٹر رضا ربانی نے آرٹیکل 62 اور 63 میں ترمیم کرنے پر بھی زور دیا۔ رضا ربانی کا کہنا تھا کہ یہ آرٹیکل غیرمنتخب طاقتوراداروں کےہاتھوں میں جمہوری اداروں کے خلاف ایک موثر ہتھیار بنیں گئے۔ یہ آریٹکل منتخب جمہوری اداروں کے استحکام اور بالادستی کی راہ میں رکاوٹ ہیں اورطاقتوراسٹیبلشمنٹ بڑی آسانی سے انکے سہارے منتخب اداروں اور حکومتوں کو اپنی ماتحتی میں لا سکتی ہے۔ پیپلز پارٹی اس پر تیار تھی مگر نواز لیگ راضی نہ ہوئی کیونکہ نواز شریف اپنے حمائتی مذہبی حلقوں کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے۔ بلآخر نواز شریف پر 62 کی تلوار چلی اور وہ نااہل قرار پا کر وزیراعظم ہاؤس سے جاتی امرا بھجوا دئے گئے۔

ملک کی اعلیٰ ترین عدالت ایک طویل تفتیشی اورعدالتی عمل کے بعد نوازشریف کو پانامہ پیپرز سکینڈل میں سزا دینے سے قاصر رہی۔ نواز شریف اور نواز فیملی پر سینکڑوں اربوں روپوں کی کرپشن، لندن فلیٹس کی ملکیت، ٹیکس چوری وغیرہ کے الزامات کی مزید تفتیش کے لئے سپریم کورٹ نے مقدمہ نیب کورٹ کے حوالے کر دیا۔

حیرانی کی بات یہ ہے کہ نواز شریف کو اس دستاویز پر نااہل قرار دیا گیا ہے جس کا عمران خان، اسرارالحق اور شیخ رشید کی پٹیشن اور پانامہ لیکس سے دور کا تعلق نہیں ہے۔ دبئی میں اپنے فرزند کی کمپنی کے چئیرمین ہونے اور امکانی تنخواہ کے الزامات کے تحت نواز شریف کی نااہلی عمل میں لانے کے لئے آئین کے آرٹیکل 62 شق کواستعمال کیا۔ اربوں روپوں کی چوری اور کرپشن کے ہنگامہ میں “بکری چوری” جیسے ملتے جلتے الزام پر نواز شریف کی نا اہلی احتساب کے نام پر ایک مذاق کے سوا کچھ نہیں۔

نوازشریف اور ان کی فیملی اندرون اور بیرون ملک اربوں روپوں کے اثاثوں کے مالک ہیں جنکا اعلی ترین عدالت احتساب نہ کر پائی مگرعدالت عظمیٰ کے نزدیک “بکری چوری” کا الزام انہیں صادق اور امین نہ ہونے کے الزام کے لئے کافی ثبوت ہے۔

غیر جانبدار مبصرین کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ پرعمران خان کو زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ ان پر بھی 62 اور 63 کی چھری چلائے جانے کے امکانات کافی روشن ہیں۔ انکو بھی مرغی چوری کے الزام میں 62 کے تحت صادق اور امین نہ ہونے کی سند ملنے والی ہے۔

بہر حال آئین کے آرٹیکل 58، 2 ب کی تنسیخ کے بعد آرٹیکل 62 اور 63 کو منسوخ شدہ آرٹیکل کا متبادل بنا دیا گیا ہے۔ ان کے استعمال سے اسٹبلشمنٹ اورعدلیہ کی ساجھے داری سے منتخب جمہوری اداروں کو اپنی گرفت میں لانا کوئی مشکل کام نہیں رہا۔ ان آرٹیکلز کی وجہ سے جمہوری اداروں کی مضبوطی اور جمہوری حکومتوں کا استحکام ایک خواب بن جائے گا۔

اب پاکستان میں جمہوری قوتوں اور اسٹبلشمنٹ کے مابین کشمکش ایک نئے دور میں داخل ہو چکی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ملک کی پارلیمانی سیاسی جماعتیں جمہوری جرات کا مظاہرہ کرتے ہوے اور مذہبی جماعتوں کے دباؤ سے نکل کر آرٹیکل 62 اور 63 میں ترامیم کرکے 1973 کے اصل آئین کی بحالی کی طرف کب قدم بڑھاتی ہیں۔

One Comment