امن کی آشا اور جنگ کی بھاشا

بیرسٹر حمید باشانی

کشمیر حکمران طبقات کے لیے مداری کاکبوتر ہے۔ وہ جب چاہیں اسے پٹاری سے نکال کر تماشا دکھاتے ہیں۔جب چاہیں واپس پٹاری میں بند کر دیتے ہیں۔بھارتی لکھاری ارون دھتی رائے کی یہ بات مجھے ویزر اعظم محمد نواز شریف کے اس بیان پر یاد آئی جس میں انہوں نے کہا کہ بھارت کو تجارتی راہدری نہیں دی جا سکتی۔

تاجکستان کے دارلحکومت دوشنبے میں گزشتہ ہفتے چار فریقی اجلا س کے دوران جناب نواز شریف نے کہا کہ بھارت کشمیریوں پر پیلٹ گنیں استعمال کرر ہا ہے اور ہم اسے تجارتی رعایت کیسے دے سکتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان امن، دوستی اور اچھی ہمسائیگی کی راہ میں مسئلہ کشمیر کہاں کہاں اور کیسے کیسے کھڑا ہو جاتا ہے، یا کھڑا کر دیا جاتا ہے یہ اسکی ایک تازہ ترین مثال ہے۔پیلٹ گنیں تو بھارت نے پچھلے سال استعمال کرنی شروع کیں اور پھر ان کا استعمال بند بھی کر دیا مگر اس سے بہت پہلے مجھے نواز شریف کی وہ تقاریر یاد آتی ہیں جو انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران پاک بھارت دوستی، امن اور تجارت کے باب میں کی تھیں۔

حالانکہ اس وقت بھارت کشمیریوں کے خلاف جو گن استعمال کر رہاتھا اس سے صرف آنکھ ہی نہیں پوری جان جاتی تھی۔مگر نواز شریف نے کمال جرات سے اس سچائی کا اظہار کیا تھاکہ بھارت سے دوستی اور امن ہی مسئلہ کشمیر کے حل کا راستہ ہے۔مگر اقتدار میں آنے کے بعد وہ اس سلسلے میں کچھ کر نہ سکے۔جلد ہی جنگ باز قوتوں نے گھیر کر ان کو دیوار سے لگا دیا۔امن کی آشا ان کے دل میں ہی رہ گئی۔ان کے پورے دور اقتدار میں سرحدوں پر جنگ کی بھاشا اور گولیاں چلتی رہیں۔

یہ ایک بڑا المیہ ہے۔ مگر نیا نہیں ہے۔جنگ باز قوتوں کا یہ بہت پرانا کھیل ہے۔ یہ سلسلہ عمل تقسیم بر صغیر سے شروع ہوا۔ قیام پاکستان کے فورا بعد اقتدار پر وہ لوگ قابض ہو گئے جو نہ تو حق حکمرانی رکھتے تھے اور نہ ہی اس کے اہل تھے۔ یہ نا جائز قابض تھے۔اس قبضے کو برقرار رکھنے کے لیے انہوں نے دو قسم کے لوگوں کو اپنے ساتھ ملایا۔پہلی قسم جاگیرداروں، وڈیروں اور سرداروں پر مشتمل تھی۔ دوسری قسم مذہبی بنیاد پرستوں اور رجعت پسندوں پر مشتمل تھی۔ان قابض قوتوں کے افکار ، خواہشات اور حرکات پاکستان کے بانیوں سے متصادم تھے۔ چنانچہ انہوں نے پاکستان کے قیام کا نئے سرے سے جواز ڈھونڈنا شروع کر دیا۔ اس جواز کی تلاش میں انہوں نے دو قومی نظریے کا ایک اپنا ورشن ایجاد کیا۔نفاذاسلام کا نعرہ لگایا۔ اور پاکستان کو ایک سیکورٹی ریاست قرار دیا۔

جاگیرداری تو تحفظ دینے کے لیے کئی اقدامات کیے گئے۔ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر پابندی لگا دی گئی۔ انجمن ترقی پسند مصنفین کو غیر قانونی قرار دیا گیا۔ ترقی پسند رہنماؤں پر عقوبت خانوں میں وحشیانہ تشدد کیا گیا۔ کسی ایسی تحریک کو سر اٹھانے کا موقع نہیں دیا گیا جو ملک سے جاگیرداری کو ختم کر سکتی تھی۔چنانچہ پاکستان ان معدودے چند ممالک میں شامل ہے جہاں اج بھی جاگیرداری اپنی اصل شکل میں موجود ہے۔ جہاں اج بھی مزارے، ہاری اور کھیت مزدور جاگیردار کے رحم و کرم پر ہیں۔ 

دوسری طرف ان لوگوں نے کما ل ہوشیاری سے ملک کو کو سیکورٹی ریاست کا غلاف پہنا دیا۔ یہ غلاف اتنا مہنگا تھا کہ پاکستان کے عوام کا پیٹ کاٹے بغیر اس کو پہننا اور پہنے رکھنا ممکن نہ تھا۔ عوام کا پیٹ کاٹنے کے لیے کسی بہت بڑے جواز کی ضرورت تھی۔ ہندوستان سے پاکستان کے وجود کو خطرہ ایک بڑا جواز بن سکتا تھا۔ چنانچہ ہندوستان دشمنی ریاستی پالیسی کا نقطہ ماسکہ بن گئی۔ ہندو اور ہندوستان دشمنی پھیلانے پر کروڑوں روپے خرچ کیے گئے۔ 

پرائمری سکول سے لیکر یونیورسٹی تک نصاب کی کتابوں میں دو قومی نظریہ کا ٹیڑھا ورشن ہندومسلم دشمنی اور نفرت کے کئی کئی باب رقم ہوئے۔ سرکاری ریڈیو اور ٹیلی ویثرن پر مستقل زہریلا پرپیگنڈہ چلتا رہا۔ نجی اخبارات اور رسائل میں بھی نفرت اور دشمنی پر مشتمل بیانات کو نمایاں جگہ دی جاتی رہی۔ ہندو اور ہندوستان دشمنی پر مشتمل مضامین چھپتے رہے۔ امن اور دوستی کی بات کو سرکاری میڈیا تو دور کی بات ہے نجی میڈیا بھی آج تک جگہ دینے کے لیے تیار نہیں ۔ چنانچہ نصف صدی سے نفرت کے بیج بوئے جاتے رہے۔ اور اج یہ فصل پک کر تیار ہو گئی ہے۔

اقتدار کے تیسرے حصے داروںیعنی مذہبی بنیاد پرستی اور رجعت پسندی نے اسلام کے نام پر ہندو اور ہندوستان دشمنی کی سرکاری سر پرستی میں مہم جاری رکھی۔ مسجد وں اور مدرسوں میں گھنٹوں ہندوستان کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے دعوے اور اسکی بربادی کی دعائیں مانگی جاتی رہی۔ بچوں کے معصوم ذہنوں میں ہندو اور کافر کے ساتھ نفرت اور دشمنی پیدا کی جاتی رہی۔ چنانچہ آج ہمارے سماج میں ہزاروں برین واشڈ لوگ ہیں۔ جو امن، محبت اور دوستی جیسے تصورات سے نا آشنا ہیں۔ ان کے ذہن میں دشمنی ہے۔ نفرت ہے۔جنگ ، تباہی و بربادی کے تصورات ہیں۔

سرحد کے اس پار صورت حال کوئی زیادہ مختلف نہیں رہی۔ وہاں کی ہندو قو م پرست اور بنیاد پرست قوتیں نفرت کے کاروبار میں بہت سر گرم رہی ہیں۔ میڈیا کا ایک حصہ نفرت کے اس کاروبار میں شریک ہے۔ دہشت گردی کے واقعات نے اس کاروبار کو بہت زیادہ ترقی دی ہے۔ ہندوبنیاد پرست اور جنگ باز قوتوں کی ایک مضبوط لابی بن گئی ہے۔ یہ لابی رائے عامہ کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ایک قابل ذکر ووٹ بینک بھی پیدا ہو گیا ہے۔ اس ووٹ بنک اور رائے عامہ کے خوف سے امن پسند اور دوستی پر یقین رکھنے والی قوتیں بھی خاموش ہو گئی ہیں۔ ۔

گویا اس حوالے سے بھارت میں بھی بدی کی قوتوں کا غلبہ ہے۔ بدی کی یہ قوتیں سرحدوں کے دونوں طرف اپنے کھیل میں مصروف ہیں۔ اور دن بدن مضبوط ہوتی جا رہی ہیں۔ ان قوتوں کا راستہ صرف امن کے ذریعے ہی روکا جا سکتا ہے۔ اور اسی طرح مسئلہ کشمیر جنگ سے نہیں، صرف امن اور پر امن جہدو جہد سے ہی حل ہو سکتا ہے۔ وزیر اعظم کو چاہیے تھا کہ وہ اپنے انتخابی منشور پر قائم رہتے اور امن کے ایجنڈے کو آگے بڑھاتے یعنی، پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ، لیکن بد قسمتی سے وہ بھی جنگ کی بھاشا کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ 

Comments are closed.