دہشت گردی جاری رہے گی۔ سید صلاح الدین

امریکا کی طرف سے حال ہی میں دہشت گرد قرار دیے گئے سرکردہ کشمیری عسکریت پسند رہنما سید صلاح الدین نے کہا ہے کہ متنازعہ خطے کشمیر کے نئی دہلی کے زیر انتظام حصے میں ان کی تنظیم کی ’بھارت کے خلاف مسلح جدوجہد‘ جاری رہے گی۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں مظفر آباد سے نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسی ،آئی ایس آئی، کے حمایت یافتہ سید صلاح الدین کو امریکی حکومت نے ابھی حال ہی میں، جب بھارتی وزیر اعظم مودی امریکا کا دورہ کرنے والے تھے، ایک ’عالمگیر دہشت گرد‘ قرار دے کر نہ صرف بلیک لسٹ کر دیا تھا بلکہ ان پر دیگر پابندیاں بھی عائد کر دی گئی تھیں۔

لیکن پاکستانی ریاست نے اس فیصلے کو تسلیم نہ کرنے کا عندیہ دیاہے ۔دوسرے لفظوں میں اس نے دہشت گردوں کی حمایت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مظفر آباد میں یکم جولائی کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سید صلاح الدین نے مطالبہ کیا کہ اقوام متحدہ اپنی ان قراردادوں پر عمل درآمد کو یقینی بنائے، جن کے تحت کشمیری عوام کو ان کا حق خود ارادیت دیا جانا چاہیے تاکہ وہ خود یہ فیصلہ کر سکیں کہ وہ اپنے لیے آزادی چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ الحاق۔

سید صلاح الدین بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں نئی دہلی کی حکمرانی کے خلاف مسلح تحریک چلانے والے عسکریت پسندوں کے سب سے بڑے گروپوں میں شمار ہونے والے گروہ حزب المجاہدین کے سپریم کمانڈر ہیں۔ انہیں امریکی حکومت نے گزشتہ ماہ کے اواخر میں اس وقت ایک ’عالمی دہشت گرد‘ قرار دے دیا تھا، جب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی ڈونلڈ ٹرمپ کے دور صدارت میں اپنے پہلے سرکاری دورے کے لیے واشنگٹن پہنچنے والے تھے۔

حزب المجاہدین کے باغیوں کے سپریم کمانڈر سید صلاح الدین نے صحافیوں کو بتایا کہ ان کی تنظیم آئندہ بھی بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں نئی دہلی کے فوجی دستوں کے خلاف اپنی مسلح جدوجہد جاری رکھے گی۔

 یاد رہےکہ حزب المجاہدین ، لشکر طیبہ اور جیش محمد کے ساتھ مل کر بھارتی کشمیر میں دہشت گردی کی کاروائیوں میں  ملوث ہے۔پاکستانی ریاست نے نہایت کامیابی سے کشمیری عوام کی جینوئن  جدوجہد کو ہائی جیک کرکے اسے مذہبی جنگ میں تبدیل کر دیا ہے۔

بھارت کا الزام ہے کہ پاکستان کشمیر کے اپنے زیر انتظام حصے سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں جا کر مسلح کارروائیاں کرنے والے عسکریت پسندوں کی حمایت کرتا ہے لیکن پاکستانی حکومت اپنے خلاف نئی دہلی کے ان الزامات کو مسترد کرتی ہے۔

جموں کشمیر کی منقسم ریاست سات عشرے قبل تقریباﹰ برصغیر کی تقسیم کے وقت ہی سے پاکستان اور بھارت کے مابین ایک متنازعہ خطہ ہے۔ یہ دونوں جنوبی ایشیائی ملک ہمسائے ہونے کے علاوہ ایک دوسرے کے روایتی حریف بھی ہیں اور دو ایٹمی طاقتیں بھی۔

زیادہ تر کشمیر ہی کے مسئلے کے باعث ان دونوں ممالک کے مابین اب تک تین جنگیں بھی ہو چکی ہیں اور دونوں میں سے ہر ایک کا دعویٰ ہے کہ دوسرے فریق نے کشمیر کے اپنے زیر انتظام حصے پر زبردستی قبضہ کر رکھا ہے۔ اسلام آباد اور نئی دہلی دونوں ہی پورے جموں کشمیر پر اپنی اپنی ملکیت کے دعوے کرتے ہیں۔

DW/News Desk

One Comment