سرِ بازار جمہوریت کا ناچ 

شہزاد عرفان

یہ شاید روایت میں ٹھیک ہو کہ محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے مگر جمہوریت میں اس جذباتی فعل کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔۔۔۔۔ جو کچھ نوازشریف نے ماضی میں بھٹو خاندان کے ساتھ کیا وہی سب کچھ اب پیپلزپارٹی واپس ان کے ساتھ کر رہی ہے، اچھے یا برے دونوں ہی عوام کے منتخب پارلیمنٹ کے لیڈرز اور جمہوریت کی آخری امید ہیں ۔

 آج کی صوتحال میں یقیناََ ضیاء الحق کی بے چین مکروہ روح ہنسی سے لوٹ پوٹ خوش ہے کہ ان دونوں کو ہی خاکی اسٹبلشمنٹ نے اپنی محبت ، نفرت اور انتقام کا نشانہ بنایا ہےـ ایک کو دوسرے کا دشمن اور اقتدار پر بٹھانے کا وعدہ دیکر آمریت کا طوق عوام کے گلے میں ڈالا ہے۔ کون پانامہ ہے کون سوئیس ہے یہ صرف دونوں کاروباری سیاسی لیڈر ہی جانتے ہیں یا اسٹبلشمنٹ جسے ہر حال میں گُڈ، بیڈ اینڈ اگلیکا سیاسی شو چلانا ہوتا ہے تاکہ عوام ہمیشہ فرشتہ اور شیطان کی تلاش میں جمہوریت اور اسلام کے درمیان اپنی عمریں گزار دیں۔

 اس ملک میں فوجی آمریت کے آسیب نے کبھی بھی عوام کو جمہوریت کا پھل نہیں کھانے دیا ۔ دنیا میں اچھے یا بُرے ، غلط یا صحیح کے فرق کو جانچنے کے لئے یونیورسل پیمانہ استعمال ہوتا ہے ۔اگر جانچ کا پیمانہ ہی خراب اور غلط ہو تو اس پر پرکھا جانے والا ہر معاملہ خودبخود غلط ثابت ہوجائے گا اور ایسے میں جہاں پیمانے کو اسٹبلشمنٹ ڈکٹیٹ کرائے وہ کیسےٹھیک ہوسکتا ہے ؟۔

پچھلے ستر سالوں میں یہ پیمانہ خاکی اسٹبلشمنٹ کے ہاتھ میں ہے جس کے ترازو کے پلڑے میں ایک طرف حُب الوطنی، وہابی اسلامی شریعت، ایمانداری اور پنجابی کا بھاری سرٹیفکیٹ پڑا ہےاور دوسری طرف جمہوریت، طبقاتی جدوجہد اور قومیتوں کے انسانی حقوق کا خالی پلڑا ہے۔ سرائیکی کی کہاوت ہے کہ ڄمدی کوں پالا پئے ڳئےیعنی کونپل کے اُگتے ہی سردی سے مر گئی۔ یہ پارلیمنٹ یہ لیڈرز یہ پارٹیاں یہ سب دراصل عوام کی ملکیت ہیں۔ آمروں کو علم ہے کہ اگر عوام کو اس ملک کو غلام بنا کر رکھنا ہے تو دو ہی راستے ہیں ایک یہ کہ مارشل لاء لگاؤ اور سب کچھ اپنے ہاتھ  میں کرلو اور اگر اس کا موقع نہ ملے تو جمہوریت کو ڈنڈے بلیک میلنگ اور کرپشن کے راستے نہ چلنے دو اور اس کے بدلے ایک فیک جمہوریت کا ڈھونگ بنا کر حکمرانی کرو ، پارلیمنٹ سیاسی پارٹیوں اور عوامی لیڈرز کو کرپشن کی طرف لے آو تاکہ جمہوریت کی روح مرجائے ۔

اس چوئنگم کی طرح جسے  کسی غذائیت کے بغیر سب چباتے رہیں مگر۔ عوام کے پاس دو راستے ہیں ایک یہ کہ ایسے حالات میں وہ ان کرپٹ سیاست دانوں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں تب بھی فائدہ خاکی اسٹبلشمنٹ کے آمروں کا ہے اور اگر اپنے جمہوری سیاسی نظام کے ساتھ چلتے ہیں تب بھی فائدہ خاکی اسٹبلشمنٹ کی آمریت کو ہے ۔۔۔۔ پھر آخر عوام کہاں جائیں ۔ کیا کریں؟ عوام کے پاس  اس ٹوٹی پھوٹی جمہوریت میں ہی کسی بڑی سیاسی سماجی تبدیلی کی جدوجہد کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے جس بات کا اندازہ ذوالفقارعلی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو تھا وہ آج آصف علی زرداری اور بلاول زرداری کو نہیں ہے کہ بے شک نواز شریف آمریت کی پیداوار سہی، موقع پرست اور منتقم مزاج سہی مگر جمہوری پیمانے میں ایک عوام کا منتخب جمہوری وزیراعظم ہے جسے اس کے اپنے ہی پالتو بھیڑیوں نے آن گھیرا ہے۔

یہ وہیں بھیڑئے ہیں جنہوں نے زیڈ اے بھٹو اور ان کی عظیم دختر مشرق بینظیر بھٹو کو بے دردی سے چیرپھاڑ کھایا تھا۔ اس میں کوئی شک  نہیں کہ بھیڑیوں کا یہ عوام خور غول جسکے منہ کوعوام کا خون کب سے لگا چکا ہے یہ ایک کے بعد ایک کرکے جنگل کے تمام واسیوں کو کھا جائیں گا ۔ مداری کا میڈیا کا صحیح استعمال کرکے پوری قوم کے سامنے پارلیمنٹ اوراس کے کمزور سے جمہوری نظام کو پولورائز کرکے رکھ دینا ایک کمال ہی تو ہے ۔ گند کو گند سے نہیں دھویا جاسکتا ۔

یہ وہی ایسٹ انڈیا کمپنی کے انگریز کا فارمولہ ہے کہ اشرافیہ اور مضبوط طاقتور طبقات کو آپس میں لڑادو عوامی نمائندے، لیڈرز اور جماعتیں ایک دوسرے کو چیر پھاڑ کھانے کو تیار ہوجائیں۔ ایک ایسی فضاء جس میں صرف وہی اکلوتے سچے کھرے اور بہترین کہلائیں ۔ کون باشعور شہری یہ نہیں جانتا کہ دراصل خرابی اور برائی کی جڑ یہی اسٹبلشمنٹ ہے جو آمریت اور ملوکیت کی بنیاد پر عوام میں یہ کافر، وہ مسلم، فرقہ واریت، ایمانداری اور حب الوطنی کے پیمانے لے کرحکمرانی کرتے چلے آرہے ہیں۔

آج کونسا ملک ایسا ہے جہاں پارٹیاں لیڈرز حکومتیں کسی نہ کسی سطح پر بلواسطہ یا بلا واسطہ کرپشن اور بدعنوانی میں ملوث نہیں ہیں ؟ ۔آج کے دور میں بڑی سے بڑی طاقتور جمہوری ریاستیں بھی یہ دعویٰ نہیں کرسکتیں کہ ان کے پاس جمہوریت مکمل طور پر نافذالعمل ہے اور ہم تو ابھی کل ہی ایک مذہبی بنیادوں پر قتل و غارت کے اصول پر ایک نوزائدہ ریاست پاکستان کے واسی ہیں–  جمہوریت کا یوٹوپیائی پیمانہ رکھنے والے اور مذہبی سوچ رکھنے والوں میں بظاہر کوئی  فرق نظرنہیں آتا کہ دونوں ہی ایک تخیلاتی معاشرے میں آج کو دیکھ رہے ہیں۔  آج ہر شخص اپنے منتخب وزیراعظم کے یا ان کے حق میں ہے یا خلاف کھڑا ہے۔

کوئی یہ نہیں جاننا چاہتا کہ نوازشریف اور زردای خاندان دونوں کم یا زیادہ بہرحال اپنی ایک کاروباری تاریخ رکھتے ہیں مگر یہ اسٹبلشمنٹ کے تنخواہ دار ریٹائریز افسران کیسے راتوں رات پاکستان کے امیرترین لوگ بن جاتے ہیں ؟ کون اس ملک میں ہاؤسنگ مافیا بن کر ایک ایسی فیک اکانومی بنا چکا ہے جو کسی بھی پیداواری عمل سے حاصل نہیں ہوئی ہے اور کون ہے جو عسکری، بحریہ فوجی کے نام سے بڑے بڑے کاروباری ادارے بینکس اور دیگر اداروں کے مالکان ہیں ؟ ہم آج پاکستان کو تاریخ کے بدترین ان دیکھے مارشل لامیں جکڑا دیکھ رہے ہیں ۔ کسی کو نواز شریف یا زرداری سے ہمدردی ہو یا نہ ہو مگر جمہوریت کا بجھتا چراغ بہرحال انھیں کے ہاتھ میں ہے۔

Comments are closed.