بلوچستان :مغوی سیکرٹریِ تعلیم کو بازیاب کرانے میں سردمہری کیوں؟ 

محمدحسین ہنرمل

بلوچستان میں تعلیم اور صحت کے شعبے پہلے سے ہی قابل رحم رہے ہیں جبکہ دوسری طرف ان شعبہ کے ملازمین کولاپتہ یا قتل کرکے گویا رہی سہی کسراغوا کار پوری کررہے ہیں۔ ملک کی قلیل آبادی والے اس صوبے میں ڈاکٹرحضرات تو اتنی بڑی تعدادمیں اغواء کیے گئے کہ شاید پنجاب جیسا گنجان آباد صوبہ بھی اتنا متاثر ہوا ہو۔پروفیسرڈاکٹر عبدالمناف ترین ، پروفیسر ڈاکٹر غلام رسول ، ڈاکٹرارشاد کھوسہ اورڈاکٹر دین محمد بنگلزئی (با لترتیب) جیسے ماہر کارڈیالوجسٹ ، سائیکاٹرسٹ، ماہر امراض ذیابیطس اور سرجنزکو اغواء کرناگزشتہ چند سالوں میں تو معمول بن چکاتھا۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بروقت کاروائی سے شاید بہت کم کسی کی جان بچائی گئی ہو،البتہ اپنی مزاحمت کی برکت سے ڈاکٹر سیدخالد شاہ جیسے اِکادُکا شخص معجزانہ طورپر ضرور بچ پائے ہیں ۔ ان مغویوں کوبعدمیں بیشک رہائی مل جاتی ہے لیکن اہل خانہ کی پیہم ذہنی اذیت ، عوامی ہیجان اوراغواء کاروں کوکروڑوں روپے کی خطیر رقم کی ادائیگی کے بعد، جوکہ خاکم بدہن حکمران حلقوں میں سنجیدگی کے ساتھ اب بھی نہیں لیا جارہا۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کی مقامی شاخ کے مطابق 2008سے 2016تک کے درمیانے عرصے کے دوران کوئٹہ سے پچاس سے زیادہ ڈاکٹراور میڈیکل پروفیسرزاغواء ہوچکے ہیں جن میں سے اکثر تاوان کی بھاری رقوم اداکرنے کے بعد گھر لو ٹے۔ 

محکمہ تعلیم کے ملازمین ، پروفیسر ز اور اسکول اساتذہ کے ساتھ اگرچہ اغواء کے واقعات قدرے کم پیش آئے ہیں لیکن نسلی اور لسانی بنیادوں پر اس شعبے کے مایہ ناز پروفیسرز ، لکچررز اور اسکول اساتذہ کی ایک بڑی تعداد کو ماضی میں چن چن کر موت کے گھاٹ اتار ی گئی۔سیکرٹری ہائر ایجوکیشن بلوچستان عبداللہ جان ترین بھی اعلیٰ تعلیم کے شعبے کاوہ بدقسمت آفیسر ہیں جو رواں سال مارچ کے مہینے میں کوئٹہ سے اغواء ہوئے تاحال رہانہیں ہوئے ہیں۔

بلوچستان حکومت نے اپنے پرانے نہج پر کاروائی کرکے تعلیم کے اس اعلیٰ آفیسر کی گمشدگی کے اوپر بھی ایکشن لیاتھا لیکن تاحال ان کی عدم بازیانی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ معاملہ اب سرد خانے کا نذرکردیاگیاہے۔ حکومت کی یہی سردمہری ہی کانتیجہ ہے کہ مغوی سیکرٹری کا معمرباپ بالآخرآرمی چیف جنرل قمر باجوہ کے نام اپنے بیٹے کی رہائی کے لئے انہیں خط لکھناپڑا۔ان کا کہنا تھا کہ’’ ان کے بیٹے نے تیس سال تک ایک ایماندارگورنمنٹ ملازم کی حیثیت سے عوام کی خدمت کی ہے جس نے کبھی بھی کسی کا کچھ نہیں بگاڑا ہے ،اب ان کی گمشدگی مزیدمیرے لئے ناقابل برداشت ہوچکاہے جس کی وجہ سے وہ آرمی چیف کوخط لکھ کران کا تعاون حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے مزید افسوس کرتے ہوئے کہاکہ بیٹے کی رہائی کے بدلے اغواکار ان سے خطیر رقم کا مطالبہ کررہے ہیں جو اس کا متحمل نہیں ہوسکتا‘‘۔

بلوچستان میں اغواکار نہ صرف محکمہ صحت ،تعلیم اور تاجر برادری کے لوگوں کو اٹھاکراسی پراکتفاء کرتے ہیں بلکہ سیاسی جماعتوں کے رہنما،ان کے رشتے دار اور صحافی بھی ان کا پسندیدہ شکار رہاہے۔ اے این پی کے سابق صوبائی صدر ارباب عبدالظاہر کاسی کی چارسال پہلے گمشدگی اورر گزشتہ سال پشتونخواملی عوامی پارٹی کے رکن اسمبلی مصطفیٰ ترین کے بیٹے کی گمشدگی اس کی بین مثالیں ہیں جوبعدمیں بھاری رقم کے تاوان کی ادائیگی کے بعد ہوئے تھے ۔ تاجر برادری کے لوگوں سے تو روز اس نوعیت کے واقعات روزانہ کی بنیادپر پیش آتے ہیں البتہ یہ اور بات ہے کہ میڈیا میں ایسے واقعات بریکنگ نیوز کے طورپرخبروں کی زینت نہیں بن پارہے ۔

اغوابرائے تاوان کی وارداتوں کے سلسلے میں صوبے کے سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ نے خود اسمبلی اجلاس کے دوران صوبے میں اٹھہتر اغوکار گروپوں کی موجودگی کا انکشاف کرلیاتھا(روزنامہ ڈان 21 ستمبر2013)۔اب جب صوبے کے منتخب وزیر اعلیٰ صاحب خود اسمبلی کے فلورپرسترسے زیادہ گینگزکا اعتراف کرلیتے ہیں تو اس مکروہ دھندے میں اور کتنے لوگ ملوث ہونگے ، واللہ اعلم باالغیب؟بے شک اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتاکہ اغواء برائے کے تاوان کے وارداتوں میں ان دہشت گرد گروپوں کا ہاتھ ہے جو جہاد کے مقدس نام کی آڑمیں پچھلے پندرہ سال سے ایسا کررہے ہیں لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ان وارتوں میں یہاں کے لوکل لوگوں کو بری الذمہ ہیں۔

جتنے اغواکار گروپوں کو دہشتگرد گروپوں کی سرپرستی میں نان نفقہ مل رہا ہے اتنی ہی تعداد میں یہاں کے بااثر اور طاقتور لوگوں کی سرپرستی میں بھی اس قسم کے مکروہ عملیات ہورہے ہیں۔اس کے علاوہ صوبے میں چونکہ اسٹبلشمنٹ مخالف علیحدگی پسندتحریکیں بھی چل رہی ہیں ، یوں ایسے عناصر بھی اپنے تئیں بندوق کی نوک پراغواگردی کے جرائم کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں۔پچھلے سالوں میں توصوبے میں اغواء کاری کے وارداتوں میں بے پناہ اضافے سے بلوچستان کے اسمبلی ارکان نے باقاعدہ طورپر پارلیمنٹ ہاوس کے سامنے احتجاج کی کال دیتے ہوئے یہ دھمکی بھی دی تھی کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اگر اتنے بے بس ہیں تو پھر ان وارداتوں کو روکنے کے لئے وہ خود الگ فورس تشکیل دینے پر مجبور ہونگے۔

افسوس کا پہلوتویہ بھی ہے کہ پچھلی دور حکومت میں جب اس قسم کے وارداتوں میں غیرمعمولی اضافہ ہوا توکچھ ذرائع کی طرف سے بعض ایسے افراد کے ملوث ہونے پر بھی انگلیاں اٹھائی گئیں جو باقاعدہ طور پر صوبائی ایوان کے منتخب رکن تھے۔بلوچستان میں اغواء برائے تاوان کے وارداتوں کا ذکر کرکے اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ گویا ملک کے دوسرے صوبوں باالخصوص خیبر پختونخوا اورکراچی میں سب خیریت ہے۔

بلوچستان کے علاوہ خیبر پختونخواسے اسلامیہ کالج کے وی سی پروفیسر اجمل خان، سندھ سے چیف جسٹس، پنجاب سے یوسف رضا گیلانی اور سلمان تاثیر جیسی شخصیات کے بیٹوں کے علاوہ سینکڑوں کی تعداد میں لوگ اغواء کرکے ملک کے کونے کونے میں یہ نیٹ ورک اب بھی فعال ہے، جس کا خاتمہ ماضی کے روایتی طرز کے فارمولے اپنانے کی بجائے ایک جدید اور جاندار مکینیزم ہی کے ذریعے ممکن ہوسکتاہے۔

Comments are closed.