جندو فقیر 

ملک سانول رضا 

دادا

 آج دربار_فرید کی زیارت کے لئے چلتے ہیں۔ مدت ہوئی آپ گاؤں سے باہر نہیں گئے۔ 

ہاں بیٹا جوانی میں تو کبھی کبھی پیدل بھی چلے جاتے تھے۔ اب پکے راستوں نے دل بھی پتھر کے کر دئے ہیں۔

 روانہ ہوئے

 دادا جان ایک شان بے نیازی سے عمارتوں اور سڑکوں کو دیکھ رہے تھے۔ باتوں اور یادوں کے دوران سفر جاری رہا۔ 

دادا

یہ کوٹ بہادر شوگر مل ہے۔ یہاں چینی بنتی ہے۔ یہ مل اپنی بجلی خود بناتی ہے بلکہ بیچتی بھی ہے۔ 

یہ کوٹ، بہادر کب بنا؟ 

ویسے بیٹا بہادر کوٹوں میں تو نہیں رہتے۔ 

پارک سے مشرقی سڑک پہ مڑنے لگے

 تو کہا یہ تو ونگ کی سڑک ہے۔ 

شہر میں زیادہ رش ہوتا ہے بائی پاس سے چلتے ہیں

 رکنا ذرا، یہاں ایک سکول ہوتا تھا۔ 

یہ سکول ہی تو ہے۔

 دکانوں کے پیچھے، سڑک پر دکانیں جو کھل گئی ہیں۔ ورکشاپوں کے پیچھے، 

کھاد کی دکانوں کی اوٹ میں، زہر کے سٹالوں میں

 گِھرا

 سکول۔

اگر یہ سب نہ ہوتے تو ہنستے، کھیلتے بچے پھلواریوں کے بیچ دوڑتے، طالب کتنا اچھا لگتے اب تو سکول سے گزرتے زہر کی بو آتی ہو گی؟ ویسے سکول اب دکانیں ہی تو بن گئے ہیں اس لئے  تیرا بھائی کہہ رہا تھا کہ میری بنک کی تنخواہ سے گزارا نہیں ہوتا گاؤں میں سکول کھولتے ہیں۔ 

میرے پاس کہنے کو کچھ نہ تھا آگے بڑھے مزار کے گنبد پر نظریں جمائے دادا اپنی دنیا میں کھو گئے۔ 

سایہء دربار میں موٹر روکی اترے تو ایک خاک نشیں نابینا فقیر نے صدا لگائی۔ 

دادا چونکے، قریب ہوئے، غور سے دیکھا

 میں جلدی سے آگے بڑھا کہیں بے خودی میں گر نہ جائیں

 تُو جندو فقیر ہے ناں؟ 

دادا اس کے قریب بیٹھ گئے۔ جِندو پہلے تو تیرے رشتے روٹھے اب لگتا ہے آنکھوں نے بھی ساتھ چھوڑ دیا ہے۔ 

تو بشکو خان ہے؟ 

ہاں ہاں 

کافی مدت بعد آئے ہو۔ 

یہ نیانڑیں کون ہے؟ 

یہ پوتری ہے میری۔ 

یہ کہتے ہوئے جِندُو رو پڑا 

بے دید آنکھوں کے آنسو خدا کسی کے نہ دکھائے۔ 

دادا تڑپ اٹھے اپنے کرتے کی اندرونی جیب کی ساری رقم جندو کے ہاتھوں میں دی اور خامشی سے اٹھے۔۔

 مجھے کہا 

گھر چلو 

میں نے کہا

 دادا! وہ زیارت، دربار۔۔۔ 

خاموش رہے، دروازہ کھولا اور گاڑی میں بیٹھ گئے۔

 دور۔۔۔ سامنے دیکھتے ہوئے اپنے آپ سے کہنے لگے یہ اینٹ گارے کے مدفن تو روزی دے رہے ہیں محلات والے چھین رہے ہیں

 کافی دیر چپ رہے پھر کہا پیاس لگی ہے میں نے بوتل آگے بڑھائی کہنے لگا بہتا پانی زندگی دیتا ہے پیاس بجھاتا ہے بوتل واپس رکھ دی۔

 سڑک کنارے ٹیوب ویل چل رہا تھا رکنے کا اشارہ کیا نیچے اتر کر بہتے پانیوں سے ہاتھ منہ دھویا، پیا

 اسی دوران ایک جوان آیا سلام کیا اس سے پوچھا 

یہاں قائم خان کی ہٹی ہوتی تھی؟ 

بزرگو! مدت ہوئی قائم خان فوت ہو گیا دکان بھی بند ہوئی۔ 

دادا ہم دونوں سے مخاطب ہوئے اسی کچی سڑک پر قائم خان دکان سجائے مسافروں کی راہ تکتا، آنے والوں کو کھانا کھلائے بغیر جانا نہ دیتا چونکہ دکان سے گھر ذرا دور تھا تو قائم خان نے ایک نقارہ رکھا ہوا تھا جتنے مسافر آتے اتنی مرتبہ نقارے پہ چوٹ مارتا اور گھر میں کھانا پکنا شروع ہو جاتا کھانا کھلا کر دعاؤں سے رخصت کرتا۔ 

جوان کہنے لگا

 اب کھانے کے ساتھ ساتھ انسان بھی بک رہا ہے اب کون کسے مفت کھلاتا ہے۔۔۔ 

واپس گاڑی میں بیٹھے۔ 

اب دادا کی طبیعت کچھ بہتر لگ رہی تھی۔ 

میں نے پوچھا

 آپ فقیر کو دیکھ کر اداس ہو گئے اور زیارت کئے بغیر واپس چلے آئے؟ 

تھوڑی دیر خاموش رہے

 پھر بولے  جندو کا والد بھی اسی دربار میں بھیک مانگتا تھا تُو  راستے میں مِلیں، فیکٹریاں دکانیں سڑکیں دکھا رہا تھا اور ترقی کی داستانیں سنا رہا تھا لیکن جندو تو تین نسلوں سے بھیک مانگ رہا ہے اس کی زندگی میں تو بدلاؤ نہیں آیا گارے سیمنٹ میں بدلے، لکڑی لوہے میں تبدیل ہوئی لیکن انسان تو ابھی تک بھکاری ہے۔ آپ نے جناح کو مار دکھایا پھر بھی جِندُو کی حالت نہ بدلی۔ میں اس جلسے میں موجود تھا جس میں لیاقت کو گولی لگی لیکن تب بھی جندو کی بیوی منگتی تھی۔ 

ایوب نے دریا بیچ کے دیکھے جندو کا گھرانہ پھر بھی فقیر رہا۔ 

جناح کی بہن کو رسوا کر کے دیکھ لیا،۔ 

بھوکےبنگالیوں کو جدا کر کے دیکھ لیا جندو پھر بھی بھکاری رہا جب بنگالیوں کے برتنوں کے ساتھ ساتھ ان کی بیٹیاں آپ کے بازاروں میں بک رہی تھیں اسی سال جندو کا باپ مرا فقیری کی گدی جندو نے سنبھالی،۔ 

پھر بھٹو آیا وہ روٹی تقسیم کرتے کرتے کفر بانٹنے لگا جندو کی حالت پھر بھی نہ بدلی پھر ملاں نے کہا بھٹو کو لٹکاؤ جندو سُکھی ہو جائے گا ایک کافر نے اسے کالی ٹوپی پہنائی لیکن اسی دن جندو کی بیٹی اغوا ہوئی اور بیوی نے زہر پھانک لیا پھر جس دن جلاد سے آموں کی پیٹیوں نے بدلا لیا اسی روز جندو کا بیٹا ہیروئین پیتے مر گیا۔ 

ہم نے گوروں کے آگے سجدے کئے، ۔

عرب پیسے سے اللہ کے گھر بنائے لیکن جندو فقیر کے گھر کی بھوک نہ مٹ سکی۔ 

 تجھے کربلا کا واقعہ یاد ہے؟ یزید کے دربار کا حال بھی پڑھا ہو گا۔ قتل حسین کے بعد جب علی کی بیٹی یزید کے دربار میں لائی گئی تو حسنین کی بہن نے دربار یزید کے پرخچے اڑا دئیے۔ یزید جیسا مردود اٹھا، ۔

معافی مانگی، چادر اوڑھائی اور عزت سے گھر روانہ کیا بیٹیوں کو تو یزید بھی نہیں مارتے لیکن تم نے بھٹو کی بیٹی کو بھی مار دیا۔۔۔۔۔ جندو پھر بھی فقیر رہا۔۔۔۔۔ 

اپنے شہر کے ٹول پلازے پہ گاڑی آہستہ ہوئی۔ 

پونے بارہ بج رہے تھے ریڈیو چلایا تو خبر آئی وزیر اعظم پاکستان نااہل قرار دے دئیے گئے ہیں۔ 

دادا نے رکنے کا اشارہ کیا اور پوری خبر سنی۔ 

انتہائی غصے میں کہا واپس چلو جلدی چلو۔۔۔ میں حیران ہوا۔۔۔۔۔ پچاس منٹ بعد دربار_فرید پہنچے گاڑی سے اترے جندو کی صدا آئی اللہ کے نام پر 

میری طرف دیکھا 

بادشاہ تو ہٹا دیا گیا ہے پھر جندو ابھی تک بھیک کیوں مانگ رہا ہے؟

Comments are closed.