وزیر اعظم کو موجودہ صورتحال تک پہنچانے میں کس کا کردار ہے؟

انور عباس انور

سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت پاناما پیپرز کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ عدالت عظمیٰ کے روبرو پیش کردے گی، اب عدالت عظمیٰ کے فاضل جج صاحبان رپورٹ کا تفصیلی جائزہ لیں گے، اور پھر سماعت ہوگی، شاید رپورٹ پر(وزیر اعظم ) حکومت کے اعتراضات سننے کے لیے تاریخ مقرر کرنا بھی لازمی ہو۔۔۔ وزیر اعظم کو موجودہ صورتحال تک پہنچانے میں کس کا کردار ہے؟شہر کے فائیوسٹار ہوٹلز ہوں، سرکاری اور نجی اداروں کے دفاتر ہوں ، کھیت ہوں یا کھلیان ہوں، یاپھر جھونپڑیوں میں رہنے والے پکھی واس ہوں ، دیہات کے چوپال ہوں، چاہے چھوٹے شہروں کے چاہے خانے، بسوں ویگنوں میں سفر کرنے والے مسافروں سے لیکر فٹ پاتھوں پر بیٹھے مزدوروں کے مابین یہی سوال زیر بحث ہے کہ وزیر اعظم اور ان کے خاندان کو موجودہ صورتحال میں دھکیلنے میں کس کا کردار ہے؟ پانامہ پیپرز کیس کو سنجیدہ نہ لینے کا مشورہ کس نے دیا؟

برطانیہ اور آئس لینڈ کے وزرا ئے اعظم اپنے منصب سے مستعفی ہوکر کتنے سکھی ہیں،اس کا اندازہ وزیر اعظم پاکستان کو ہوگیا ہوگا،آئس لینڈ کے وزیر اعظم کی اہلیہ اور برطانوی وزیر اعظم کے والد گرامی قدر کے نام پاناما پیپرز میں آئے تھے، دونوں وزرائے اعظم نے اپنے منصب سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا اور اقتدار سے الگ ہوکر گھر کی راہ اختیار کی اور ہر طرح کی قانونی موشگافیوں سے محفوظ ہوگئے۔ برطانیہ میں تو نئے انتخابات بھی ہوچکے ہیں اور نئی حکومت برسراقتدار آنے والی ہے۔عالمی برادری کی نظروں میں آئس لینڈ اور برطانیہ کے وزرائے اعظم کے سیاسی قد کاٹھ میں اضافہ ہوا ہے، عزت ،شہرت اور وقار میں اضافہ ہی سیاستدانوں کی منزل ہوتی ہے اور ہونی چاہیے۔

پاناما پیپرز میں پاکستان کی سینکڑوں شخصیات کے اسمائے گرامی درج ہیں، سب سے پہلے نوازشریف کے خاندان بلکہ ان کے اہل خانہ کے نام شامل کیے گئے ہیں، پاناما کے ہنگامے کا آغاز ہوا تو اپوزیشن کا مشترکہ مطالبہ یہ سامنے آیا تھا کہ وزیر اعظم سمیت جن افراد کے نام پاناما میں آئے ہیں وہ اقتدار سے مستعفی ہوجائیں،اور خود کو تحقیقات کرنے والے اداروں کے حوالے کردیں ،تحقیقات میں اگر بے گناہ ثابت ہو جائیں تو واپس اپنے عہدوں پر آجائیں، لیکن وزیر اعظم اور ان کے خاندان نے باہمی مشاورت سے اپوزیشن کے مطالبے پر مستعفی ہونے سے کلی انکار کرکے اپنے پاؤں پر کلہاڑا دے مارا،اور اب اس کے نتائج بھی بھگت رہے ہیں۔

وزیر اعظم ، اور ان کے خاندان سمیت پارٹی کے راہنما جے آئی ٹی میں وزیر اعظم کی دختر نیک اختر مریم نواز شریف کی پیشی کے حوالے سے آہ و بکا کر رہے ہیں ، صوبائی اور وفاقی وزرا نے آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے، جے آئی ٹی کے ارکان سے لیکر عدلیہ کے ججز صاحبان تک کو ’’تڑیاں ‘‘ اور دھمکیاں دی جا رہی ہیں،مسلم لیگی وزراء اور نواز شریف کے پسران اور دماد اول کے بیانات میں کھلی دھمکیاں دی جا رہی ہیں، اور ان بیانات کے ذریعہ جے آئی ٹی اور عدالت عظمیٰ کے فاضل بنچ کو متنازعہ بنایا جا رہا ہے۔۔۔

یہ صورتحال کسی طور خوش آئند نہیں، اس کھلی جا رحیت کے دورس نتائج برآمد ہوں گے، اور شاید نواز شریف اور ان کے خاندان کے افراد کئی عشروں تک ان نتائج کو فراموش نہ کر سکیں۔

وزیر اعظم اور ان کے خاندان کو پاناما پیپرز سے باعزت باہر نکلنے کے مشورے دینے کی بجائے انہیں جنگ پر آمادہ کرنے کے لیے جن جن حضرات نے مشورے دئیے ہیں انہوں نے نواز شریف اور ان کے خاندان سے وفا نہیں کی بلکہ کوئی پرانے حسابات برابر کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اور ہمارے بھولے بھالے اور سیدھے سادھے وزیر اعظم ان آستین کے سانپوں کو پہنچاننے میں غلطی کر گئے ہیں، اب ایک دو ہفتوں کی بات رہ گئی ہے، اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہونے میں اب زیادہ دیر باقی نہیں، میں بھی انتظار کرتا ہوں اور قارئین آپ بھی انتطار کریں۔

بہت سے عناصر کا خیال ہے کہ وزیر اعظم کو اس دلدل میں دھکیلنے میں زیادہ ہاتھ مشرف کی باقیات کا ہو سکتاہے، ممکن ہے کہ ایسا ہی ہو چونکہ میں کوئی ولی اللہ نہیں اور نہ ہی غیبی علم جانتا ہوں اور نہ ہی میرے پاس جنات اور موکلات ہیں،جن سے پوچھ کر حقائق معلوم کیے جا سکیں، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی کی طرح مسلم لیگ سے بھی ’’ پیٹریاٹ‘‘ تلاش کرلیے گئے ہیں اور وہ کسی مناسب (شاید) پاناما پیپرز کیس کا فیصلہ آتے ہی یہ پیٹریاٹ مسلم لیگ نواز کے گھونسلے سے ’’پھر‘‘ کرکے اڑ جائیں گے، اور ان کی زبانیں وہ وہ آگ کے گولے اگلیں گی کہ اللہ کی پناہ۔

مریم بی بی کو جے آئی ٹی کے روبرو پیشی سے مسلم لیگ نواز اور حکومت اس قدر پریشان ہوگی اس کا اندازہ کسی کو نہیں تھا، جے آئی ٹی پر اعتراض کرنے والوں کو جے آئی ٹی کا مشکور ہونا چاہیے کہ اس نے اس ملک کی خاتون اول محترمہ کلثوم نواز کو طلب نہیں کیا، حالانکہ بیگم کلثوم نواز کے لندن جائیداد کے حوالے سے انٹرویوز اور اخباری بیانات ریکارڈ کا حصہ ہیں۔

وزیر اعظم نواز شریف عدلیہ سے محاذ آرائی کو ترک کریں، اور جن جن افراد نے عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر مٹھائیاں تقسیم کرنے کے مشورے دئیے تھے، اور جے آئی ٹی کی تشکیل کو اپنی فتح سے تعبیر کیا تھا فوری طور پر انہیں خود سے اور اقتدار سے دور کردیں، اور اپنے خاندان یا خاندان سے باہر کے کسی قابل بھروسہ شخصیت کو وزیر اعظم بنادیں اور خود پیچھے بیٹھ کر حکومت کی طنابین سنبھال لیں اور حکومتی کاروبار چلائیں ۔۔۔ جیسے سابق صدر آصف علی زرداری نے سید یوسف رضا گیلانی اور بعد میں راجہ پرویز اشرف کو وزارت عظمی پر بٹھایا اور حکومت خود کرتے رہے۔

وزیر اعظم نواز شریف ایک مہربانی کریں کہ اپنے رفقائے کار کو اس بات سے منع کریں کہ وہ بی بی مریم نواز کی جے آئی ٹی میں پیشی کو بنت رسول اللہ سیدہ زینب کی دربار یزید میں پیشی سے مماثلت نہ دیں،کیونکہ نہ تو جے آئی ٹی دربار یزید ہے اور نہ ہی بی بی مریم کو حضرت سیدہ زینب سے کوئی مشابہت ہے۔ اگر حکومت کا یہ خیال ہے کہ وہ عدالتی فیصلے کے ذریعے وزیر اعظم کی نااہلی کو متنازعہ بنا کرمارچ تک کا وقت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے تو یہ ممکن نہیں۔۔۔

اگر اسے ممکن بنانا ہے تو اس کے لیے وزیر اعظم کو اقتدار سے فوری الگ ہوکر مسلم لیگ نواز کے اندر سے کسی شخصیت کو وزیر اعظم منتخب کرواناہوگا ۔۔۔ ورنہ ۔۔۔ ورنہ وہیں کچھ حرف بحرف ہوگا جو وہ دیوار پر لکھا پڑ چکے ہیں۔ مجھے اور دیگر جمہوریت پسندوں کو حیرت ہے کہ میاں نواز شریف نے برطانوی اور آئس لینڈ کے وزرائے اعظم سے سبق کیوں نہیں سیکھا؟

میرا خیال تھا کہ وزیر اعظم نواز شریف پاناما پیپرز میں ویسا ہی سمجھداری کا مثاہرہ کریں گے جیسا انہوں نے جنرل مشروف کے ٹیک اوور کے بعد مشکلات اور مصائب سے بچنے کے لیے سعودی عرب مقیم ہونے کا فیصلہ کیا تھا، شائد اس وقت ان کا خیال یہ تھا کہ زندہ بچیں گے تو سیاست بھی کرتے رہیں گے،لیکن اس بار انہیں امید واثق ہے کہ انہیں جان جانے کا کوئی خطرہ و خدشہ نہیں ،اسی لیے اڑنے اور لڑنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ہوسکتا ہے کہ میرا اندازہ غلط نکلے اور وزیر اعظم نواز شریف کا خیال درست ثابت ہوجائے۔ ہوتا کیا ہے آئیے میں بھی انتظار کرتا ہوں اورا ٓپ بھی انتظار کریں۔

Comments are closed.