خواتین بلوچ قومی تحریک میں 

سیوت بلوچ

تاریخ کامطالعہ کرنے سے ہمیں بہت سی ایسی مثالیں ملیں گے کہ خواتین نے قبائل، گروہ، سماج اور ریاستوں کی سربراہی کی ہیں۔ انسانی سما کے تمام شعبہ جات میں خواتین نے نمایاں کردار ادا کی ہیں اور کررہے ہیں۔ جبکہ عورتوں کا فعال کردار ہمیں بلوچ قومی تاریخ میں بھی ملے گا۔ حتی کہ انہوں نے اندرونی اور بیرونی مسائل بھی حل کی ہیں یا حل کرنے میں مدد دی ہیں۔لیکن ہمیں بلوچ سماج میں خواتین کے کردار انفرادی حوالے سے نظر آتے ہیں تاریخ میں کئی بھی یہ درج نہیں ہے کہ بلوچ سماج میں سماجی تبدیلی کیلئے خواتین اجتماعی طورپر ابھر کر سامنے آئے ہو۔

قومی آزادی کی تحریکیں پارٹی و تنظیموں کے بغیر نہیں لڑی گئی ہیں یعنی پارٹی و تنظیموں کے بغیر کوئی بھی تحریک نہیں لڑی جاسکتی ہیں۔ اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ خواتین کے شمولیت کے بغیر تنظیم اور پارٹیاں قومی تحریکوں میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکتے ہیں ۔بلوچ قومی تحریک میں سیاسی پارٹیوں کے اندر دیکھا جائے خصوصاً بی این ایم اور بی آر پی میں تو قیام سے لے کر آج تک ان میں ایسی کوئی خواتین قیادت نظر نہیں آتی ہیں جو اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا کر بلوچی قومی تحریک میں نمایاں کردار ادا کر سکیں۔

قومی اور انقلابی تحریکوں میں طلباء تنظیموں کا ایک بہت بڑا کردار ہوتا ہے۔وہ اس لئے کہ یہ طلباء تنظیم نوجوانوں کو سیاسی تربیت کے ذریعے سیاسی محاذکے لئے تیار کرتے ہیں۔یہ غلط نہیں ہوگا اگر میں کہوں کہ قومی جدوجہد کو آکسیجن فراہم کرنے والے یہی طلباء تنظیمیں ہوتی ہیں۔ اسی طرح بلوچ قومی جدوجہد میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد یہی عمل تسلسل کے ساتھ سرانجام دے رہا ہے۔

چونکہ بی ایس او کی تاریخ طویل ہے اگر ہم بی ایس او کو ماضی اور حال کے تناظر میں دیکھے تو ہمیں بی ایس او میں خواتین کی کردار نمایاں نظر نہیں آئے گی۔البتہ بی ایس او آزاد میں چیئرپرسن کریمہ بلوچ کی کردار روشن باب کی مانند ہے لیکن اجتماعی حوالے سے المیہ یہ ہے کہ بی ایس او آزاد کی ابتدائی ایام سے تاحال بی ایس او آزاد میں کریمہ بلوچ کے علاوہ کوئی خواتین قیادت نظر نہیں آتی ہے۔آخر وہ کون سی وجوہات ہیں کہ ہمارے تحریک کے اندر کئی سال گزرنے کے باوجود خواتین کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔

میری ناقص رائے کے مطابق اس المیہ کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں۔جیسا کہ ہم نے باقاعدہ طور پراجتماعی صورت میں عورتوں کو تحریک کے لئے تربیت نہیں دی ہے بلکہ ان سے صرف محدود پیمانے کے تنظیمی کام لئے گئے ہیں۔خواتین کارکنان کو یہ تربیت نہیں دی گئی ہے کہ خواتین کیا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ حالانکہ ہمارے پالیسی ساز ادارے اس چیز سے بخوبی واقف ہیں کہ جتنے حالات سخت ہونگے اور اتنی زیادہ خواتین فعال کردار ادا کرسکتی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود انفرادی طور پر جو خواتین تحریک میں شامل ہو جاتے ہیں پھر کچھ وقتوں کے بعد تحریک سے کنارہ کش ہو کر خاموشی اختیار کرتے ہیں۔

میری ناقص رائے کے مطابق یہ ہماری پارٹی پالیسیوں میں کمزوری کی علامات ہیں ۔میں بطور سیاسی کارکن اس المیہ کی زمہ داری سیاسی پارٹیوں پر عائد کرتی ہوں۔ ہمارے پارٹی لیڈر خواتین کی کاکردگی کی بات تو کرتے ہیں لیکن خواتین کو اجتماعی حوالے سے تحریک کا حصہ بنایا جائے اس حوالے سے کوئی عملی اقدام نہیں اُٹھایا گیا ہے ۔پارٹی کے ساتھ بی ایس او آذاد کے فیصلہ ساز اداروں پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ بحیثیت انقلابی طلباء تنظیم بی ایس او آزاد نوجوان خواتین سیاسی کارکنان کیلئے پارٹیوں میں عوامی سیاست کرنے کیلئے اُن کی سیاسی سمت واضح کرنے میں ناکام رہا ہے۔

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے ادارے منظم انداز میں خواتین سیاسی کارکنان میں سیاسی شعور پیدا کریں سیاسی شعور حاصل کرنے کے بعد خواتین معاشرتی پابندیوں کو تھوڑ کر عملی اور اجتماعی طور پر اپنے کرداروں کو اجاگر کریں گے اگرچہ یہ ایک طویل سیاسی عمل ہے مگر آنے والے وقتوں میں اس کے نتائج آنا شروع ہو نگے کیونکہ اب عورتیں چاردیواری سے نکل کر کھلی دنیا میں آگئیں ہیں۔اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ ہم اپنے عورتوں کو کس طرح سے سماجی طور پر ان روایات، اقدار اور اور فرسودہ نظریات سے آزاد کریں گے۔

ان کی سیاسی حیثیت بہتر بنانے کے لیے ان کو اجتماعی طور پر متحد کر کے زیادہ سے زیادہ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ دینا ہوگا ان کی منظم سیاسی تربیت کرنا چاہئے تاکہ وہ گوریلہ جنگ اور سیاسی میدان میں منظم انداز میں حصہ لے سکیں ان موجودہ حالات میں خواتین کو متحرک کرنا لازمی امر ہو گیا ہے۔

Comments are closed.