ہم اور خواب 

خالد محمود

یہ محروم طبقات اور غریب عوام بھی عجیب وغریب نفسیاتی کیفیت میں مبتلا کر دیے جاتے ہیں۔ریاست بالعموم سیاسی اور معاشی عدل قائم کرنے سے مسلسل قاصر ہے ۔ اسی لئے جب بھی کسی تگڑے عوام دشمن پر گرفت ہوتی ہے تو ان کے چہروں پر پُرنور تابناکی دیکھنے کو ملتی ہے۔آنکھوں سے نیند اور پیٹ سے بھوک غائب ہو جاتی ہے۔لوگ رات کے پچھلے پہراپنی آرام دہ کھٹیا چھوڑ کے جرنیلی سڑک پر آن کھڑے ہوتے ہیں کہ اس ’’یک چشم سورما‘‘کا دیدار کرسکیں جس نے ایک آمر کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کی ہے۔

انہیں جاگتے میں ایسے خواب دکھائی دیتے ہیں جس میں شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ پر پانی پینے کے علاوہ ایک ہی گالف کورس میں گالف کھیلتے پائے جاتے ہیں۔ایسے خواب نہایت خطرناک ہوتے ہیں کیونکہ یہ محروم لوگ اپنے خوابوں کو بھی صحیفہ سمجھنے لگتے ہیں۔بعد از خرابی بسیار، جب ان پر یہ حقیقت دھیرے دھیرے کھلتی ہے کہ’’ یک چشم سورما‘‘ کی پنسل کے اندر طاقتور سکہ تو مستعار لیا گیا تھا اور اس کے عوض اسے کئی فرائض منصبی اور غیر منصبی مبنی بر ہدایات ادا کرنے پڑے تھے ،تو پھر ان کے تھوبڑوں پر برستی وحشت ’’دیدنی‘‘ ہوتی ہے۔خواب ٹوٹ جاتے ہیں مگر ان کی گردنوں پر لٹکتی ناانصافی کی تلوار نہیں ٹوٹتی۔

اس مملکت خدا داد اور آدم ساز میں ،امراء اور طاقتور حلقوں کا کھیل جاری اور ساری ہے۔ان غریبوں پر نان نفقے کا پھندا اس قدر تنگ ہے کہ چار دن مزدوری نہ ملے تو نوبت فاقوں پر پہنچ جاتی ہے۔اس کے برعکس،مراعات یافتہ مقدس گائیاں اگر بیس سال بھی کام نہ کریں تو ان کی کھرلی میں چارہ ختم نہیں ہوتا۔اور نہ ان کے چہرے پر کوئی چنتا نمودار ہوتی ہے۔

بعض دانشوروں کا خیال ہے کہ اس ملک میں جتنی تیزی سے غربت پھیل رہی اب تک انقلاب آ جانا چاہئیے۔ہمارے کرم فرم محترم زاہد ممتاز کی رائے ہے کہ پنجاب میں بھینس کا وجود اس خونی انقلاب کی راہ میں حائل ہے ۔ایک عام دہقانی اپنی گائے یا بھینس کا دودھ بیچ کر دن پورے کرتا جاتا ہے ۔اس پر کوئی بڑی بپتا آن پڑے تو بچھڑا بیچ دیتا ہے اور اگر معاملہ ہاتھ سے نکلتا دکھائی دے تو وہ بھینس بیچ کر وقت گزار لیتا ہے ۔گوبر کے اپلے اس کے چولہے کی آنچ سرد نہیں ہونے دیتے ۔

لہذا وہ پوری تن تن دہی سے اپنے ڈھور ڈنگر کی خدمت میں جتا رہتا ہے اس لئے اس کے پاس وقت نہیں ہوتا کہ وہ سڑکوں پر آ کر اپنے حقوق کی خاطر اپنی پیٹھ پر ڈنڈے کھائے ۔ اس محروم طبقے کی بے گانگیت دن بدن بڑھتی چلی جاتی ہے ۔ جس سے حقوق یافتہ اور طاقتور حلقوں کو کوئی سروکار نہیں ہے ۔حقوق یافتہ طبقات اور طاقتور حلقوں کی تال میل دائمی بندوبست کے تحت چلتی ہے۔

اس میں خال خال کوئی کھاڑی آ جاتی ہے۔اور اپنے فریم سے باہر جاتی ’’ڈھیلی چُولوں‘‘ کو پھر سے شکنجے میں کس دیا جاتا ہے۔ وقفے وقفے سے اس طبقے کو ٹرک کی ’’بتّی‘‘ کے پیچھے لگا دیا جاتا اور ٹیلی ویژن اور اخبارات کے ذریعے اسے کئی نئے سبز باغ دکھا دیے جاتے ہیں۔کم عمر لوگ ان خوابوں کو پھر سے حکمرانوں کی طرف سے صحیفہ سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔اور جنہوں نے باربار اس طرح کے دھوکے کھائے ہیں وہ ان خوابوں اورحکمرانوں کے صحیفوں میں کوئی فرق محسوس نہیں کرتے۔

5 Comments