کیا پیپلزپارٹی کا موقف بدل گیا ہے؟

نون لیگ کی اندرون خانہ ہمدرد جماعت پیپلز پارٹی نے پانامہ اور جے آئی ٹی کے مسئلے پرمیاں صاحب کو ہری جھنڈی دکھا دی ہے اور قائدِ حزبِ اختلاف خورشید شاہ نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ جے آئی ٹی کے مسئلے کو طول نہ دے۔

پی پی پی کے رہنما آج پانامہ اور جے آئی ٹی سے متعلق مقدمے کی سماعت کے لئے سپریم کورٹ بھی آئے اور میاں صاحب کو مشورے بھی دے ڈالے۔ پارٹی کے ایک رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا کہ اگر جے آئی ٹی کی جلد دس کھولی تو میاں صاحب کو مزید شرمندگی ہوگی۔

تجزیہ نگاروں کے خیال میں پی پی پی کا رویہ بدلتا ہوا نظر آرہا ہے کیونکہ ماضی میں پی پی پی اور ن لیگ میں یہ مفاہمت تھی کہ جب فوج کی طرف سے دباؤہوگا تو دونوں جماعتیں متحد ہوجائیں گی لیکن اب پی پی پی کسی طرح بھی دوستانہ حزبِ اختلاف کا کردار ادا نہیں کر رہی۔ تو کیا پی پی پی جی ایچ کیو کے حق میں ہے۔

اس سوال کا جواب دیتے ہوئے معروف تجزیہ نگار ڈاکٹر توصیف احمد نے کہا، ’’پی پی پی نے شروع میں میثاقِ جمہوریت کی روح کے مطابق سویلین حکومت کا ساتھ دیا اور دھرنے کو ناکام بنایا لیکن پھر اسٹیبلشمنٹ نے چوہدری نثار کے ذریعے پی پی پی اور نون لیگ میں تعلقات خراب کرائے۔ نثار نے ڈاکٹر عاصم کو گرفتار کرایا اور ابھی کچھ دنوں پہلے ڈاکٹر عاصم کی بہن کے گھر بھی چھاپا مارا گیا تو نیب کے اقدامات نے پی پی پی کو ن لیگ سے بدظن کر دیا اور اب پی پی پی اسی لئے ہی نواز شریف کی مخالف دکھائی دیتی ہے۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ پی پی پی ایسا فوج کو خوش کرنے کے لئے کر رہی ہے۔ ’’زرداری کی پارٹی فوج کو خوش کرنا چاہتی ہے۔ انہیں یہ امید ہے کہ اگلے انتخابات میں انہیں جی ایچ کیو سے کچھ ملے گا لیکن میرے خیال میں فوج کسی سیاسی جماعت کو کچھ نہیں دے گی اور وہ سب کے ہی خلاف اقدامات کرے گی۔‘‘

لیکن سابق صدر زرداری کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے ایسے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا۔ ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’ہمارا ایک اصولی موقف ہے کہ نواز شریف کو استعفیٰ دینا چاہیے۔ دنیا بھر میں جب ایسے الزامات کسی وزیر یا سرکاری افسر پر لگتے ہیں تو وہ استعفیٰ دے دیتا ہے۔ یہاں تو وزیرِ اعظم کا مسئلہ ہے۔ پانامہ کیس سے سیاست دانوں کی بدنامی ہوئی ہے اور اگروزیرِ اعظم اس مسئلے کو مزید طول دیتے ہیں تو اس سے پارلیمنٹ کی توقیر اور سیاست دانوں کی ساکھ متاثر ہوگی۔‘‘

پی پی پی کے رہنما اور سابق وفاقی وزیرِ مملکت آیت اللہ درانی نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہماری پارٹی میں اندورنی طور پر بہت دباؤ ہے کہ ہم نواز مخالف جماعتوں کے ساتھ چلیں۔ گزشتہ چار برسوں میں ہم نے نواز کا ساتھ دیا اور میثاقِ جمہوریت کی پاسداری کی، جس کے ذریعے ہم نے جمہوریت کو بچایا۔ اس کے لئے ہمیں سیاسی قربانیاں بھی دینی پڑیں اور پنجاب میں ہمیں سیاسی طور پر بہت نقصان ہوا، لیکن اب جب کہ پانامہ کیس میں یہ بات واضح ہے کہ نواز شریف نے چوری کی ہے تو ہم اس کا ساتھ کیوں دیں‘‘۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’اگر نواز شریف نے پارلیمنٹ کو برخاست کیا تو ہم دوسری جماعتوں سے مشورہ کر کے کوئی لائحہ عمل تیار کریں گے۔ میرے خیال میں نواز کو کسی دوسرے شخص کو وزیرِ اعظم بنا دینا چاہیے تاکہ پارلیمنٹ اپنی مدت پوری کر لے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ نواز شریف اپنے علاوہ کسی اور پر اعتبار ہی نہیں کرتے‘‘۔
انہوں نے اس تاثر کو زائل کیا کہ پی پی پی اور جی ایچ کیو میں کوئی خاموش مفاہمت ہورہی ہے۔

DW

One Comment