پاوندہ تہذیب کا ارتقاء اور ادب قدیم اشتمالیت اور کوچی زندگی میں مماثلت 

پائند خان خروٹی

Afghanistan. Ghazni. Kuchi (Pashtun) nomad.

انسانی تاریخ میں قدیم اشتمالی معاشرہ کی نشاندہی کرنے والا سب سے پہلا معتبر نام کارل مارکس کا ہے جنہوں نے انسانی تاریخ کے مختلف ارتقائی مراحل کا ذکر کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ انسان پیدائشی طور پر خودغرض، لالچی اور ایک دوسرے کا دشمن نہیں ہے بلکہ تاریخ کے ابتدائی ادوار میں بے غرضی ،مساوات ، بھائی چارہ اور یکجہتی پر مشتمل ایک اشتمالی معاشرے میں رہتا رہا ہے۔ بعدازاں کارل مارکس کے قریبی ساتھی اور مبارز فریڈرک اینگلزنے لیوس ہنری مارگن کے حوالے سے مارکس کے اس نقطے کو وضاحت کے ساتھ مدلل اندا زمیں آگے بڑھایا۔’’انہوں نے تجزیہ کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ سماج اور سماجی اداروں کی ترقی سب سے زیادہ جس چیز پرمنحصر ہے وہ مادی پیدوار کاطریقہ ہے‘‘۔(1) قدیم اشتمالی سماج سے آگے بڑھ کر انسان نے مختلف پیداواری طریقوں کو اختیار کرتے ہوئے مختلف قسم کی معاشروں کو اختیار کیا۔ تاہم طویل عرصے کے اس سفر کے باوجود پرانے اشتمالی معاشرے کے اثرات اب بھی انسانی آبادی کے مختلف حصوں میں نظر آتے ہیں۔ 

دنیا کے مختلف علاقوں میں خانہ بدوشی کی روایت اب بھی موجود ہے اور دنیا کے مختلف حصوں میں کوچ کرنے والے خانہ بدوشوں نے قدیم اشتمالی معاشرے کی اقدار اور رویوں کو آج بھی برقرار رکھا ہوا ہے۔ خانہ بدوش جس کو پشتوزبان میں کوچی یا پاوندہ بھی کہا جاتا ہے کی معاشرتی زندگی اور قدیم اشتمالی سماج میں خوشگوار مماثلت حیرت انگیز بھی ہے لیکن ایک نئے ترقی یافتہ اشتمالی معاشرے کی جانب سفر کرنے میں اعتماد اور حوصلہ بخشنے کا باعث بھی ۔ خانہ بدوشی کی زندگی کا بغور جائزہ لیا جائے تو دنیا کے مختلف حصوں میں ان کی اشکال میں فرق ہو سکتا ہے لیکن مجموعی حالت کے اعتبار سے کوچی لوگ آج بھی ابتدائی انسانی زندگی کی اقدار، رسم و رواج اور روایات کے پاسدار نظر آتے ہیں۔ خاص طور پر ایشیائی ممالک میں خانہ بدوشو ں کی اجتماعی زندگی آج بھی برابری ، اخوت ، بے غرضی اور مہر و محبت میں پیوست ہے ۔ اس کا ذکر پشتو اولسی فوالکلور کی مقبول ترین صنف ’’ٹپے‘‘ میں کچھ یوں ہے کہ دنیا کی زیب و زینت انسانوں سے وابستہ ہے اور انسانوں کے بغیر دنیا بیابان کے مترادف ہے۔ 

دنیا پہ خلقو شائستہ دہ ۔ چی خلق نہ وی کنڈوالے شکاری کورونہ 

پشتو خلقی فوالکلور کے ایک اور صنف ’’غاڑہ‘‘میں کوئی عورت جو اپنے محبوب کی مجبوری اور مشکل کے وقت اس کی ضرورت کے مطابق نقد رقم فراہم کرنے کی استطاعت نہیں رکھتی لیکن اپنے خلوص اور سچائی کا بھرپور مظاہرہ اپنے ذاتی استعمال کے کنگن دے کر کرتی ہے۔

وس مونشتہ دپیسو ۔ پہ گران کنگڑ ژدم دلاسو 

خانہ بدوش آج بھی سادگی اور اعتماد کا وہ معیار رکھتے ہیں جو سرمائے کی بنیاد پر ترقی کرتے معاشرے میں معدوم ہوتا جارہا ہے۔ایک محبوبہ ایک ٹپے میں اپنی سچائی کا اظہار یو ں کررہی ہے جس کا ترجمہ ہے میرے محبوب نے سفر پر جانے سے پہلے مجھے اللہ کی حفاظت میں دیا ہے۔میں اس وقت اللہ کی پناہ میں ہوں میرے چہرے کی طرف اٹھنے والی ہر نگاہِ بد رکھنے والا شخص کافر ہوجاتاہے ۔
مخ تہ می مہ گورہ کافر شوے۔ زہ مسافر جانان پہ خدائے سپارلے یمہ

مختلف مذاہب میں بھی مال مویشی اور اس سے وابستہ سرگرمیوں کو نہ صرف پسندیدہ قرار دیا گیا ہے بلکہ خود انبیاء کرام حتیٰ کہ آخری نبی ؐ تک مال مویشی پالنے سے وابستگی اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے خانہ بدوشوں نے اسی طریقہ زندگی و تجارت کو برقرار رکھا ہے ۔ خانہ بدوشوں نے اپنی گزر اوقات کیلئے جن ذرائع کو اختیار کیا ہے وہ آج کے جدید دور میں بھی انسانیت کیلئے منافع بخش ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک میں مال مویشیوں کی افزائش اور پرورش ، تازہ دودھ ، گوشت اور متعلقہ مصنوعات (اون، مکھن، پنیر، خشک دودھ، پوشاک اور چمڑے کا سامان وغیرہ) نہ صرف وابستہ افراد کیلئے روزگار کا ذریعہ ہے بلکہ کئی ممالک کیلئے زر مبادلہ کے حصول کا وسیلہ بھی ہے۔ خاص کر پاکستان جیسے زرعی ممالک میں مالداری ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے ۔ بلوچستان میں مال مویشی پالنے کااہم پہلو یہ ہے کہ اس سے نسبتاً پسماندہ اور دیہی علاقوں میں پشتون بلوچ معاشی طورپر ناآسودہ خواتین کی بڑی تعداد وابستہ ہے جو اس کی آمدنی سے عام طور پر اپنی گھریلو ضروریات اور بچوں کی تعلیم ونشو ونما کے اخراجات پورا کرتی ہیں ۔

فریڈرک اینگلز کے خیال میں انسانی تاریخ میں گلہ بانی کاآغاز دریائے آمو کے قریب سے ہوا ہے ۔ آریائی اقوام نے پہلی بار جانور کو پالتو بنایا اورگھریلو ضروریات کے لئے استعمال کیا۔ گوشت اور دودھ کے عام استعمال کی وجہ سے ہی آر یا ئی ا قوام کے افراددیگر اقوام کے مقابلے میں جسمانی طو رپر مضبوط تھے اور انہوں نے سماجی ترقی کی۔ انسانی تہذیب کے ابتدائی آثار متعلقہ خطہ میں دیکھے جاسکتے ہیں ۔اینگلز کے تحقیق کے مطابق اس زمانے میں کرنسی کی عدم موجودگی کے بارے باعث اشیاء کے تبادلے کے ساتھ ساتھ خرید وفروخت کیلئے جانور کو معیار تصور کیاجاتا تھا ۔ ایک پشتو روایت کے مطابق جانور کو پشتو زبان میں پسہ کہاجا تا ہے اور پیسے کالفظ اسی سے نکالا ہے ۔آر یائی تہذیب کے اثرات کوچی خاندانوں میں کے رسم ورواج ،تقریبات اور تہواروں میں آج بھی نمایاں نظر آتے ہیں جن میں سواس تیکا نشان ، دلہن کو سندور لگانا ، بالوں کامانگ نکالنا اور آگ کااحترام کرنا وغیرہ شامل ہیں ۔

پشتون خانہ بدوش دنیا کے دیگر خانہ بدوشوں کے مقابلے میں اس اعتبار سے ممتاز اور منفرد حیثیت کے حامل ہے کہ وہ اپنی خانہ بدوشی کی زندگی میں تجارتی سرگرمیوں میں شامل ہوتے ہیں۔ماضی میں وسط ایشیاء کے ممالک سے ہندوستان تک سفر کرنے والے خانہ بدوش وسط ایشیاء اور افغانستان سے خشک میوہ جات ،تیار قالین،اون ،رخت،سیاہ زیرہ،ریشم اور جڑی بوٹیاں ہندوستان لے جاتے تھے اور وہاں سے مصالحہ جات ،گڑ،چینی،الائچی اور سپاری وغیرہ لے آتے تھے۔ ان میں سے بعض خاندان پیمنٹ کے کاروبار کرتے تھے اور ان کے مرد حضرات پنجاب میں محنت مزدوری کے لئے بھی جاتے تھے ۔ تیسری اینگلو افغان جنگ(1919) کے بعد ان کے دریائے سندھ عبور کرنے پر پابندی لگ گئی اس طرح پشتون خانہ بدوش موسم گرما میں کابل پغمان ، غزنی جبکہ موسم سرما میں پشاور ،سوات،ڈیرہ اسماعیل خان، کاکڑ خراسان ، لورالائی اور سبی تک محدود ہوگئے۔تقسیم ہند کے بعد ان کی آمدورفت اور نقل و حمل مزید محدود ہوئی جبکہ ایوبی دور فروری 1962ء میں پاک افغان سرحد کو مستحکم کرنے کے نتیجے میں وہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان تقسیم ہو کر رہ گئے۔

یہاں اس دلچسپ تاریخی واقعے کا ذکر بے جا نہ ہوگا کہ ’’پہلی اینگلو افغان جنگ (1839) کے بعد انگریزوں نے پشتون خانہ بدوش قبائل میں سے چھ ہزار افراد کو ان کے اونٹوں کے ہمراہ سونے کے ذخائر ،معدنیات ،ٹیلی فون اور ریلوے کے شعبے میں کام کے غرض سے اپنے ہمراہ لے گئے۔مذکورہ چھ ہزار افراد کو واپس آنے کی اجازت نہ ملی اور ہمیشہ کیلئے وہیں کے ہو گئے‘‘۔(2)واضح رہے کہ اس دو رمیں اونٹ کو ریگستانی جہاز کی حیثیت سے خاص اہمیت حاصل تھی یعنی چھ ہزار افراد کو اونٹوں کے ساتھ لے جانے کا مطلب یہ ہوا چھ ہزار افراد بمعہ اس وقت کے جہاز(اونٹ) مقامی خانہ بدوشوں کو افرادی قوت اور مالی اعتبار سے نا قابل تلافی نقصان پہنچایا گیا۔

خانہ بدوش خاندانوں کی زندگی ہماری معمول کی معاشرتی زندگی سے مختلف ڈھانچہ رکھتی ہے ۔ خاندانی رشتوں کی بات ہو یاگھر سے باہر محنت ومشقت کا معاملہ ہو صنفی امتیاز کاسلسلہ آج بھی ان کے ہاں موجود نہیں۔ روایتی برقعے کی پابندیوں سے آزاد لیکن فطری شرم وحیا او رعزت وقار ان کی آنکھوں اور رویوں میں شہری خواتین سے زیادہ موجود ہیں ۔ ان میں تمام افراد مرد و زن ضروریات زندگی پورا کرنے کیلئے مل جل کر محنت کرتے ہیں اور ضرورت کے مطابق تقسیم کرتے ہیں ۔ تیار خوروں کی طرح دوسروں کی خیرات ،زکوٰۃ ، عطیات اور بیرونی امداد پرانحصار کرنے کی بجائے مکمل طورپر وہ اپنی محنت وہمت پر بھروسہ کرتے ہیں ۔ زیارکش طبقہ کی محنت کی بنیاد پر قائم معاشرتی ڈھانچے میں منطقی طورپر اونچ نیچ اور طبقات سے پاک جمہوریت میں کسی قسم کے استحصال کی گنجائش نہیں ہوتی ۔ خود انحصاری کی معیشت نے انہیں بیکاری ، بیگاری اور تیار خوری کے تصور سے نجات دے رکھی ہے ۔ خو د کفالت حاصل کرنے کیلئے نت نئے طریقے اختیار کرنے والے جدید دنیا کو خانہ بدوشوں کی اپنی ہمت و محنت سے حاصل کردہ خود کفالت سے سیکھنے کے بے شمار مواقع موجود ہیں ۔

فطرت کے ہم رکاب زندگی گزارنے کے باعث خانہ بدوش پیداواری ذرائع تبدیل ہونے کے ساتھ پیدا ہونے والی منافقت ، مکاری ، جسم فروشی اور دوغلا پن سے آج بھی آزاد ہے اور فطرت کے مختلف مظاہر کی نغمگی اور مو سیقیت سے براہ راست لطف اندوز ہوتے ہیں اور انہیں اپنے اندر جذب کرکے خوبصورت ٹنگ ٹکور سے دنیا کو مستفید کرتے ہیں ۔ ایک چرواء ( شپونکے) جب قدرتی چراہ گاہوں میں بھیڑ بکریاں چراتے ہوئے دنیا کاپہلا موسیقی آلہ بانسری/شپیلی کی دلکش آواز سے پوری فضا کو نغمہ زن کردیتا ہے تو سننے والے پر خوشی ومسرت کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے ۔ ایک روایت کے مطابق موسیقی کے اس نرالہ انداز سے متاثر ہوکر سانپ بھی جھوم اٹھتے ہیں ۔ فطرت کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہنے کی وجہ سے وہ نام نہاد ترقی سے پیدا ہونے والی علتوں موٹا پا، بلڈ پریشر ، ٹینشن اور ڈپریشن سے نابلد ہوتے ہیں ۔ ان کی زندگی میں موجود اطمینان وسکون دیدنی ہوتا ہے ۔ کوچی خاندانوں کے افراد آج بھی بد ہضمی اور بے خوابی وغیرہ جیسی بیماریوں سے آزاد جسمانی قوت اور حسن کانمونہ ہے ۔ ان کے مردوزن کو آج بھی مصنوعی بناؤ سنگھار، زیورات ، کاسمیٹک اور پلاسٹک سرجری کی ضرورت نہیں ہوتی ۔

کوچیانی ادب اور اس کی مختلف اصناف ٹپے ، کہاوتیں ، اتن نارے ، پہیلیاں ، لطیفے ، فالونہ ، غاڑی اور اولسی نکلونہ(داستان) وغیرہ کی تخلیقات کااصل جوہر عوام الناس کی ا جتماعی تخلیقی صلاحیت ہے ۔ اس طرح کوچی اد ب اجتماعی دانش کانمائندہ ہے اور ان میں سے ہر شخص خود کو بجا طو رپر اس خلقی ادب کاخالق محسوس کرتا ہے اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ خانہ بدوشوں کی ملکیت کاتصور آج بھی اجتماعی ہے انفرادی نہیں ۔ گویا کوچیوں کے سفید اجسام کینسرزدہ ا ستحصالی نظام یعنی جاگیر داری اور سرمایہ داری کے سیاہ داغ لگنے سے محفوظ رہے ہیں ۔ اس کے علاوہ کوچی نہ صرف جدید عالمی قصابوں اور قصاب خانوں کے ظلم و استحصال سے ناواقف ہیں بلکہ منبرپر بیٹھ کر حسین دنیا کو عارضی اور فانی قرار دینے والوں کے کئی منزلہ شاندار بنگلوں اور عیش وعشرت کی زندگی سے بھی ناآشنا ہیں ۔

جدید دنیا سے الگ تھلگ رہنے والے کوچی کو خاندانوں میں اپنے بچوں کے نام رکھتے ہوئے بھی وسیع النظری اور فراغ دلی کامظاہرہ کیاجاتا ہے ۔ وہ مخصوص حکمرانوں ، مذاہب اورمعاشی غنڈوں سے متاثر ہوکر اپنے بچوں کے نام نہیں رکھتے بلکہ فطری مناظر ، دیگر جانداروں ، خوبصورت پرندوں ، پہاڑوں ، آبشاروں ، دریاؤں اور دیگر قدرتی مناظر کے حوالے سے اپنے نام رکھتے ہیں ۔ مثلاً سورگل(پھول کا نام ) بریشنا(آسمانی بجلی) ، زرکہ( چکور) ،پلوشہ(کرن) ،تاترہ (پہاڑ کانام )،وژمہ(باد نسیم)،چنار(درخت کانام )،پاغوندہ(پودا کے نام)،آباسین (دریا کانام)، پامیر (پہاڑ کانام)، باز(پرندے کانام)، میوند( علاقے کانام )،پغمان( علاقے کانام)وغیرہ

کوچیانی (خانہ بدوش ) ادب وثقافت اشتراک واجتماعیت کی بہترین مثال ہے ۔ ا ن کے ادبی ذخائر(پانگے) کسی خاص شخص سے متعلق نہیں اور نہ ہی کسی خاص شخص کی ذاتی ملکیت ہوتی ہے ۔ کوچیانی ادب کے ہیرو بھی انفرادیت کی بنیاد کی بجائے اجتماعی اوصاف کی بنیاد پر تراشے جاتے ہیں ۔ اس لئے ان کے گھریلو معاملات سے متعلق فیصلے اور جرگوں میں شرکت عمر اوروراثت کی بجائے عقل، اہلیت ، ننگ اور غیرت کے معیار پر ہوتا ہے ۔

معاشی اور معاشرتی ترقی کے سفر میں ہم نے علم ودانش کی دنیا میں بھی اجتماعیت کو ترک کرکے انفرادی ملکیت اور اس کے احساس کوفروغ دیا جس کے نتیجے میں ہمار اادب اور فن کچھ دربار اوربادار کے حدود میں مقید ہوگیا ۔ اس کے مقابلے میں کوچیانی ادب آج بھی ان حدوداور پابندیوں سے آزاد ، عوام کی اجتماعی دکھ اور سکھ کابھرپور ترجمان ہے ۔ آج کے معاشرے میں سرمایہ بٹورنے ، سستی شہرت ، شارٹ کٹ اور مختلف لالچ کے تحت علمی وادبی سر گرمیاں عام ہیں ۔ ہمارے اکثر شعراء وادیب سیلف پروجیکشن او رذاتی مفاد کے حصول کیلئے تخلیقی سرگرمیوں سے زیادہ شاہ اور شاہ پرستوں یعنی خواص کے ساتھ ربط وتعلق بنانے پر توجہ دیتے ہیں جن کی وجہ سے ادیب وشاعر معاشرے کے کسی حصے میں بھی آئیڈیل کے طور پر قبول نہیں کئے جاتے حتیٰ کہ ان کے اپنے بچے بھی انہیں ہیرو تسلیم کرنے کوتیار نہیں ہیں ۔ اس کے مقابلے میں کوچیانی ادب اپنے اجتماعیت اور سب کو ساتھ لیکر چلنے کی روش کے باعث آفاقیت اور اعلیٰ اقدار کامظہر ہے اور تمام دنیا کیلئے بیک وقت کشش اور دلچسپی کاحامل ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ خلقی یا اولسی فوالکلور کو عالمی ادب کا سنہرا بچپن قرار دیا جاتا ہے ۔ 

عالمی میڈیا اور جرنلزم آج بھی مختلف زبانوں میں اپنے اسٹاف کی بھرتی کے بعد اسے درست اور خالص زبان سے شعور وآگاہی حاصل کرنے کیلئے خانہ بدوشوں کے پاس بھیجتے ہیں تاکہ وہ اپنی زبا ن کی اور یجنلیٹی سے آشنا ہوسکیں اور ان الفاظ سے بھی آگاہ ہوں جنہیں عام طو رپر شہروں میں متروک کردیاگیا ہے جو خانہ بدوشوں کے پاس اپنی اصل حالت میں موجود ہے ۔ واضح رہے کہ پشتون خانہ بدوشوں کی قدیم ٹیکنالوجی طرز علاج ، خوراک ، پوشاک ، کشیدہ کاری ، کھیل، مختلف مواقعوں پر اجتماعی تقریبات ، موسیقی اور دیگر مظاہر کامکمل ریکارڈ خان خادم کو چی کی شاہکار پشتو تحقیقی کتاب ’’کوچیانی پانگہ‘‘ میں موجود ہے ۔

’’پشتون خانہ بدوش قبائل دیگر لوگوں کی طرح پیروں اور ملاؤں کا احترام کرتے ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ان کے عمل و کردار سے واقف نہیں وہ ان کو جاننے اور پہچاننے کے باوجود ان کے آباؤ اجداد کے احترام او رعزت کے حوالے سے خود ان کے قول و فعل میں تضاد بارے میں خاموشی اختیار کرتے ہیں ‘‘۔ (3)ان زیار کش خانہ بدوشوں میں یہ پشتوٹپہ مشہور ہے کہ فقیر یا ملنگ ہمارے لئے دعا کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ سے اپنی حالت بہتر بنانے کی دعا کیوں نہیں مانگتے او ر خود گھر گھر خیرات مانگنے پر کیوں مجبور ہے؟

تاریخی طو رپر خانہ بدوشوں کااہم مرکز صدیوں سے سبی ہے جہاں مال مویشی ، خشک میوہ جات ، ریشم ، سپاری اور رخت یعنی کپڑے کے کاروبار کامرکز رہا ہے۔ تاہم مالداری سے متعلق ماہرین کاخیال ہے کہ ضلع موسیٰ خیل ، ژوب اور بارکھان مالداری اور خانہ بدوشوں کی سرگرمیوں کیلئے وسیع امکانات رکھتا ہے اور اگر ان علاقوں کومنصوبہ بندی کے ساتھ ترقی دی جائے تو یہ پورے عرب جزائربشمول پاکستان کے گوشت ،اون، چمڑے اور دودھ وغیرہ کی ضروریات پوری کرسکتا ہے ۔ہر سال حج کی سعادت حاصل کرنے والے لاکھوں حجاج کرام کو قربانی کیلئے جانوروں کی فراہمی بھی یہیں سے میسر ہو سکتی ہے۔

فلکیات اور موسم کی پیشگوئی کے حوالے سے کوچی افراد غیر معمولی صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں ۔ وہ سردی ، گرمی اور بارش وغیرہ کے حوالے سے اتنی درستگی کے ساتھ پیشگوئی کرتے ہیں کہ دور جدید کے پڑھے لکھے افراد خاص طورپر ماہرین موسمیات اور متعلقہ شعبہ کے پروفیسر حضرات بھی حیران رہ جاتے ہیں۔ کوچی حضرات گھڑی اور کیلینڈر کے بغیر اوقات اور فطری مظاہر کی بنیاد پرفاصلے (سفر) کاتعین کرتے ہیں ، وہ گزرے ہوئے قافلے یاکاررواں کا جانوروں کی تھکاوٹ، پاؤں کے نشانات ، میڑہ/ بیناڑی(پچی) کی نمی سے وقت کا اندازہ لگاتے ہیں اور موسمی ضروریات کے مطابق ہجرت کرتے ہیں جو حیران کن حد تک درست ہوتا ہے ۔ گویا مادی ضرورت اور موسمی ہجرت ان کو مسلسل سفر و حرکت پر مجبور کرتے ہیں۔رات کے دوران گھپ اندھیرے میں کوچی اپنے ساتھیوں کو اپنی بات سے آگاہ کر نے کیلئے مخصوص آواز نکالتے ہیں جس کامطلب وہ آپس میں اچھی طرح سمجھ جاتے ہیں ۔

معاشرے بے زبان لوگوں کی موثر آواز بننے کیلئے ضروری ہے کہ تاریخ کے اس اہم حصے کو نظر انداز کرنے کی بجائے چلتی پھرتی تاریخ کوجدید زندگی کی سہولتوں سے آراستہ کرکے محفوظ بنایاجائے ۔ شاید افغانستان دنیا میں واحد ملک ہے جس کی پارلیمنٹ میں دس لاکھ موجودکوچیوں کا ایک خصوصی نمائندہ ہوتا ہے ۔ لہذاان لوگوں کو ڈیری پروڈکٹس ، دودھ ، گوشت ، چمڑے ، اون اور دیگر مصنوعات کی تجارت کے حوالے سے جدید سہولتیں فراہم کی جائیں تاکہ وہ اپنا معیار زندگی بلند کرکے معاشرے کی تعمیر وترقی میں جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہوکر بھرپور کردار ادا کریں ۔

حوالہ جات
۔1۔فریڈرک اینگلس،خاندان، ذاتی ملکیت اورریاست کاآغاز ، مارگن کی تحقیقات کی ضمن میں ص نمبر7، ماسکو،سوویت یونین۔
۔2۔ عدنان علیزئی ،تحقیقی مقالہ،پشتون خانہ بدوش قبائل کاجنوبی آسٹریلیا کی ترقی میں کردار2013ء 
۔3۔ خان خادم ، کوچیانی پانگہ، دکوچیانوژوند ،ژواک اوکڑنی2000۔ ص نمبر4،ناشر دانش خپرندو یہ ٹولنہ قصہ خوانی بازار پشارو۔
کتابیات
۔1۔نویں غلام حیدر علی ، شمالی پاکستان ، تاریخ وثقافت ،2015 فکشن ہاؤس لاہور۔
۔2۔سحر گل کتوزئی، پشتو ادب پوھنہ ،خیبر پبلشر پشاور2009 ء

One Comment