ریمنڈ ڈیوس کی نسوار اور کتاب

علی احمد جان

مزنگ چورنگی پر دو نوجوانوں کو مارنے والے بلیک واٹر نام کی تنظیم کے آلہ کا ر ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری کے بعد جو سب سے پہلی شے ان کی جیب سے برآمد ہوئی تھی وہ پشاوری نسوار تھی۔ نسوار کی ان کی جیب میں موجودگی نے ساری تفتیش ہی گو یا ختم کردی تھی۔ ہمارے میڈیا نےایک تربیت یافتہ امریکی جاسوس کے گرفتار ہونے کی بریکنگ نیوز چلادی تھی جس کی جیب سے پشاوری نسوار کے ساتھ لاہور اور پشاور شہر کے نقشے برآمد ہوئےتھے۔ پھر کیا تھا کہ ٹیلی ویژن کی سکرین پر نسوار اور یہود و نصارا کی گٹھ جوڑ کی نہ ختم ہونے والی داستان سننے کو ملی ۔

ریمنڈ ڈیوس عرف ریمنڈ دیوس سے کی جانے والی حساس نوعیت کی تفتیش کے دوران تفتیشی کمرے کے اندر رکھے میز کے شیشے کے نیچے ایک کیمرہ پہنچا دیا گیا جس کے ذریعے ہمارے تفتیش کاروں کی تفتیشی صلاحیتوں کو دنیا نے نہ صرف دیکھا بلکہ متعرف بھی ہوگئی تھی۔ ہزار کوششوں کے باوجود یہ جاسوس اتنا پکا نکلا کہ اس نے نسوار کا نہیں بتایا کہ وہ کہاں سے اس کی جیب میں آئی۔ گو کہ ہمارے ہاں ملزمان کی جیب سے چرس کی برآمدگی کا رواج ہے جس سے استغاثہ اور مستغیث دونوں کا فائدہ ہوتا ہے مگر پشاوری نسوار ایک ایسا معمہ بن گیا جو آج تک حل نہ ہوسکا۔

مسجد سے جوتوں کی چوری اور کسی ٹھیلے سے سیب اٹھا کر کھانےکے الزام میں یا کسی سنی سنائی توہین مذہب کے الزام میں اپنے لوگوں کو سانپ کی طرح مارنے اور راون کی طرح جلانے والوں پر بھی اس ساحر جاسوس نےاپنے ہاتھ میں پکڑے گلوک ۱۶ کا ایسا جادو چلا یا کہ وہ اس واردات کے بعد بھی اسی مزنگ چورنگی پر اپنی گاڑی میں بیٹھا رہامجال ہے کہ کسی نے اس کومیلی نظر سے بھی دیکھا ہو۔

ہمیں یہ تو نہیں معلوم ہوا کہ اس جاسوس کی گاڑی کے سامنے موٹر سایئکل پر سوار دونوجوانوں نے پستول کیوں نکال لیا تھا جو اس کی طرف سے پانچ پانچ گولیوں کا نشانہ بن گئے۔ ان کے مکان کا کرایہ اس نسواری پر ادھار تھا یا وہ ان کے پلاٹ کی پگڑی کھا گیا تھا۔ چونکہ ایسے سوال کا جواب ہمیشہ غیر اہم ہوتا ہے اس لئے ساری بحث اس کی جیب سے نکلنے والی نسوار تک محدود رہی۔ ہمارے میڈیا کی توجہ صرف اس بات پر رہی کہ نسوار صرف پشاور اور بنوں سے آتی ہے اور پشتونوں کی خوراک ہے اس کا کسی گورے سے تعلق نہیں ۔ ہمارے تفتیش کاروں اور میڈیا کے مطابق اگر کوئی گورا نسوار کھاتا ہے تو اس کے مطلب دو ہی ہیں ایک یہ کہ اس کے دماغ میں پہلے سے خلل ہے اور دوسری بات یہ ہوسکتی ہے کہ وہ نسوار کھا کھا کر اپنے دماغ میں خلل پیدا کرنا چاہتا ہے۔ جب اس جاسوس نے بجائے دو انگلیوں سے چٹکی بنا کر نسوار رکھنے کے تین انگلیوں سے نوالہ بنا کر نسوار منہ میں رکھا تو ہمارے تفتیش کاروں نے بھی اس کی نقل کرنے کی کوشش میں کافی الٹیاں کر ڈالیں ۔

حوالات سے عدالت اور پھر وہاں سے ائیر پورٹ تک کے سفر کے بارے میں لکھی ٹھیکہ دار نام کی یہ کتاب اس نسواری جاسوس نے واقعہ کے سات سال بعد شائع کی ہے۔ اس نمک حرام نے یہ کتاب لکھ کر بہت سارے زعماء اور شرفاء کے لئے مشکلات پیدا کی ہیں۔ کچھ پس چلمن حلقوں اور پردہ نشینوں کے نام لکھ کر تو اس نے نمک حرامی کی حد کردی ہے۔ ہمیں تو یہ باور کروایا گیا تھا کہ کسی برادر اسلامی ملک کی مدد سے دیت کے اسلامی قانون کے مطابق اس معاملے کو احسن طریقے سےرفع دفع کیا گیا تھا۔

ہاں اس معا ملے کو نمٹانے میں تخت لاہور پر براجمان اہل سیاست اور اسلام آباد میں بیٹھے حکمرانوں کا عمل دخل تھا جس پر ملک کے اصلی تے وڈے اتنا خوش نہیں تھے۔ مگر یہ کیا کہ کمرہ عدالت سے ٹیکر چلانے والے تو ٹی وی اور اخبار کے خبر نگار نہیں بلکہ چوکیدار نکلے۔ ہماری مذہبی جماعتوں نے ریمنڈ ڈیوس کے نام کی اتنی مالا جھپی ہے کہ اب ان کے منہ کو اس نام کے لینے کا عارضہ لاحق ہو چکا ہے۔ اب ان سب کا کیا بنے گا۔ بیچارے شاہ محمود قریشی کی سیاسی خودکشی تو رائیگاں گئی کیونکہ یوسف رضا گیلانی کے بعد وزارت اعظمیٰ کے انر بورڈ پر ان کا نام آنا تھا جو اب شائد ایک خواب ہی رہ جائے ۔

خیر ! ہم نے بھی اب سیکھ لیا ہے کہ ہمارے نسوار کھانے والے زبان کے پکے اور قول کے سچے ہوتے ہیں مگر گورا چاہے جتنا نسواری ہو اس پر کبھی اعتبار نہیں کرنا چاہیے کہ وہ کب کتاب لکھے۔ اس لئے آئندہ ان کے ساتھ کسی بھی قسم کے معاہدے کی ایک شق کتاب کے نہ لکھنے کی بھی شامل ہو گی۔ ہم تو سمجھے تھے کہ یہ جو ہمارے پوچھنے کے باوجود نہ بولا شائد بولنے کی صلاحیت سے ہی محروم ہے مگر ہمیں کیا معلوم تھا کہ سات سال بعد اس کی انگلیاں گلوگ کے ٹریگر دبانے کے علاوہ قلم بھی اٹھا سکتی ہیں جو اس کی چلائی گولیوں سے بھی زیادہ مہلک ہو سکتی ہیں۔

ابھی ہم وکی لیکس اور پناما کہ تباہ کاریوں سے جانبر نہ ہوسکے تھے کہ ایک اور کتاب کا عذاب نازل ہوا۔ خیر اپنی یاداشت کی کمی کی نعمت کے طفیل ہم اس سے بھی سرخ رو ہوکر نکلیں گے اور اگلے تین مہینے بعد کسی کو یاد بھی نہیں رہیگا کہ کسی ریمنڈ ڈیوس نے کوئی کتاب بھی لکھی تھی۔

آج کس کس کو یاد ہے کہ ڈیرہ غازی خان سے بھی کسی کو پکڑواکر امریکیوں کو پیش کیا تھا۔ ہمارے ہاں تو کسی نے پوچھا بھی نہیں یوسف رمزی نام کے نوجوان کو کیسے اور کیوں امریکیوں کے حوالے کیا لیکن امریکن کانگریس میں جب پوچھا گیا تو جو جواب سامنے آیا وہ بھی ہماری یاد داشت سے محو ہو چکا ہے۔

ہمارے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ برائی کرنے کے لیے ایک ملالہ ہے اور ماتم کرنے کے لئے ایک عافیہ صدیقی ہے۔ ہمارے صحافی کرتے پہن کر ثواب بانٹنے میں مصروف ہیں اور سامعین و ناظرین عمرہ کے ٹکٹ اور موٹر سائیکلیں جیتنے میں ۔ اس بات میں کسی کو دلچسپی نہیں کہ دیت کی رقم لینے سے پہلے ہی ایک مقتول کی بیوہ مر گئی تھی اس کی وجہ کیا تھی اور باقی دو مرنے والوں کے خاندان اب کہاں ہیں۔

تاسف تو ان مذہبی سیاسی جماعتوں کو بھی نہیں ہوگا جو ریمنڈ ڈیوس کی دیت کو بے غیرتی کہتے کہتے نہیں تھکتے تھے۔ ہمارے ہاں قتل کے بعد جتنے صلح ہوتے ہیں وہ اسی قانون کے مطابق ہی ہوتے ہیں جو یہاں پرانا رواج ہے۔ سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک میں قتل پر سر قلم صرف اسی کا ہوتا ہے جو دیت ادا کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا یا اس کا ہوتا ہے جس کے مقتول کے وارثین دیت لینے سے انکار کریں۔

اس لئے بنگالی، سوڈانی، پاکستانی اور ہندوستانی مساکین کا ہر جمعے کو سر قلم کرکےال سعود اپنے انصاف کی دھاک دوسروں پر بٹھا دیتے ہیں۔ اگر ریمنڈ ڈیوس کی دیت ہماری حکومت اور پھر اس کی حکومت نے ادا کی ہے اور مقتولوں کے وارثین نے بخوشی قبول بھی کیا ہے تو ہمارے پیٹ میں مروڑ کیوں اٹھ رہا ہے۔

اس سارے قضیے میں لگتا یوں ہے کہ امریکی ٹھیکہ داری سسٹم کے تحت اپنی جان کی بازی دوسروں کی حفاظت پر لگانے پر معمور ریمنڈ ڈیوس نے اپنے خسارے کو یہ کتاب لکھ کر پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایک ناول کی طرح مگر ڈرامائی انداز میں لکھی اس کتاب کے بکنے کے امکانات تو ہیں ہی مگر اس پر بنے والی فلم سے ریمنڈ ڈیوس کے وارے نیارے ہو سکتے ہیں۔

اگر غیرت کا بخار اتر چکا ہے تو لاہور کی فلم نگری والوں کو چاہیے کہ وہ ہالی ووڈ کے ساتھ ملک کر اس کتاب پر فلم بناکر اپنی فلمی صنعت کو پھر سے اٹھانے کی کوشش کریں ورنہ مہیش بھٹ یہ کام کرکے ہمیں پچھتانے کو موقع بھی نہیں دیں گے۔ اور ہماری مثال یوں ہوگی

پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں
اس عاشقی میں عزتِ سادات بھی گئی

One Comment