قاہرہ کے ریلوے اسٹیشنوں پر چلتے پھرتے مذہبی فتوے لیجیے

مصر کی معروف یونیورسٹی الازہر نے عوام کی مذہبی رہنمائی اور انسداد دہشت گردی کے اقدامات کےطور پر قاہرہ کے ریلوے اسٹیشنوں پر جامعہ کے اماموں کے اسٹال قائم کیے ہیں۔ مصری باشندے اس اقدام سے خوش بھی ہیں اور کچھ نالاں بھی۔

مصری دارالحکومت قاہرہ کے قریب ایک پرہجوم ریلوے اسٹیشن پر امام سید عمر نامی بورٹھا شخص اسلامی فتوے جاری کر رہے تھے۔ سید عمر جامعہ الازہر کے متعدد اماموں میں سے ایک ہیں۔ الازہر یونیورسٹی سنی اسلام کی تعلیمات دینے والا ایک معروف ادارہ  ہے۔

امام عمر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہم یہاں مذہب سے متعلق لوگوں کے سوالات کے جواب دینے اور ایسے نوجوان افراد کو درست سمت دکھانے آئے ہیں جو راہ سے بھٹک گئے ہیں‘‘۔

گزشتہ جمعرات کو الازہر یونیورسٹی کی جانب سے قاہرہ کے میٹرو اسٹیشنوں پر چھوٹے چھوٹے مذہبی اسٹال قائم کیے گئے ہیں جہاں پوچھنے والوں کی مذہبی رہنمائی کی جاتی ہے۔ لیکن بقول جامعہ الازہر کے اماموں کے، اس کا بنیادی مقصد دہشت گردی کی مذمت اور اسلام میں غلط تشریحات کو درست کرنا ہے۔

 یہ مہم الازہر یونیورسٹی نے سینائی کے علاقے میں جہادی گروپ اسلامک اسٹیٹ کے خلاف  مصری فوج کی انسداد دہشت گردی مہم کے تناظر میں شروع کی ہے۔

اس کے باوجود مصر میں مسیحی اقلیت کے خلاف پر تشدد کارروائیوں میں سو سے زائد ہلاکتیں ہوئیں اور رواں ماہ تک سینائی میں ریاستی سکیورٹی کے اٹھائیس سے زائد اہلکاروں کی اموات ہو چکی ہیں۔ اسی حالیہ جاری بحران نے الازہر یونیورسٹی کو قاہرہ کے ریلوے اسٹیشنوں پر مصریوں تک پہنچنے کا اقدام اٹھانے پر آمادہ کیا۔

سید عمر نے کہا،’’ کچھ نوجوان ایسے غیر سرکاری فتاوی پر کان دھر رہے ہیں جو ایسے افراد نے جاری کیے ہیں جو اس کے مجاز نہیں۔ میں ہمیشہ نوجوانوں کے سوالات کے جواب قرآنی آیات سے دیتا ہوں۔ میں اُنہیں بتاتا ہوں کہ اسلام امن اور آشتی کا مذہب ہے۔‘‘۔

کئی مصری باشندوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اُن کی رائے میں الازہر کی عوامی جگہوں پر موجودگی راہ بھٹکے ہوئے نوجوانوں کو صحیح سمت دکھانے کے لیے درست حکمت عملی ہے۔

تاہم جامعہ الازہر کی اچھی ساکھ کے باوجود ہر کوئی اس پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ ایک درمیانی عمر کے مصری شخص اشرف الکندی نے کہا کہ روحانیت کی تعلیم کے لیے مساجد سے زیادہ کوئی جگہ محفوظ اور بہتر نہیں۔

 الگندی کو اس بات پر بھی تحفظات تھے کہ جامعہ کے امام لوگوں کو رہنمائی دینے سے قبل اُن سے ذاتی معلومات کیوں حاصل کرتے ہیں۔ کئی افراد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بوتھ میں داخل ہونے سے پہلے انہیں اپنے نام، فون نمبر اور شناختی نمبر دینے پڑے۔

کیا اس کے پیچھے کوئی خاص وجہ ہے؟ جامعہ الازہر کے ایک اعلی مذہبی مشیر احمد السعید ابولاعزم کا کہنا ہے کہ لوگوں کی ذاتی کوائف لینا معمول کی بات ہے اور اس میں شک و شبے کی کوئی بات نہیں۔

DW

Comments are closed.