ترکی کی ناکام فوجی بغاوت اور پاکستان کے پاناما کیس کا متوقع فیصلہ

انور عباس انور

پاناما کیس ۔۔۔ ہم پاکستانیوں کے اعصاب پر سوار ہوچکا ہے ، ٹی وی آن کریں تو پہلی خبر سے آخر تک پاناما کیس دکھائی دیتا ہے ۔۔۔ کسی سرکاری و نجی دفتر جائیں تو وہاں چھوٹے عملے سے بڑے باس تک یہی زیر بحث ہوتا ہے کہ کیا فیصلہ آئے گا؟سپریم کورٹ میں اب تک کی ہونے والی پانچ سماعتوں سے یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ شریف خاندان کو ہاتھوں سے دی گئیں گانٹھیں دانتوں سے کھولنی پڑ رہی ہیں، وزیر اعظم لاکھ کہیں کہ وہ استعفی نہیں دیں گے ،نہ دیں۔۔۔ عدالت کا فیصلہ خودبخود انہیں اقتدار سے الگ کردیگا۔جو عدالت نے آج کیس کی پانچویں سماعت کے اختتام پر محفوظ کرلیا ہے۔

پچھلے سال جولائی کے مہینے میں مصطفی کمال اتارک کے ترکی میں فوجی بغاوت ہوئی،جسے ترکی کے صدر طیب اردوان کے پاس موجود ایک صحافی کی موبائل فون کال نے ناکام بنا دیا۔۔۔ اس ناکام فوجی بغاوت کے نتیجہ میں طیب اردوان نے ایک لاکھ سے زائد فوجی،ججزاور اساتذہ سمیت ہر شعبہ ہائے زندگی سے سرکاری ملازمین ملازمت سے فارغ کیے ، پاکستان میں اس ناکام فوجی بغاوت کی سالگرہ اس اہتمام سے دکھائی جا رہی ہے جیسے یہ تاثر دینا مقصود ہو کہ اگر پاکستان میں وزیر اعظم کو غیر جمہوری انداز و طریقہ سے اقتدار سے محروم کیا گیا تو ترکی کی طرح پاکستان کی شاہراہوں پر کروڑوں عوام کا مارچ ہوگا۔

پاکستان کی شاہراہوں پر استنبول جیسے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں یا نہیں ،یہ تو آنے والا کل بتائے گا، لیکن ابھی حکمران جماعت اور خاندان سپریم کورٹ میں ابتلا ، پریشانی اور کرب سے گزر رہا ہے،پاکستان میں ترکی کی تاریخ اس حد تک تو دہرائی جا چکی ہے کہ ترکی فوجی حکمرانی کے چار دور دیکھ چکا ہے اور پاکستان میں بھی عوام چار فوجی مارشل لاؤں کے عذاب بھگت کر ان کی سزا پا رہے ہیں، ترکی اور پاکستان میں یہ بات بھی قدر مشترک ہے کہ دونوں ممالک نے سیاستدانوں کو سزائے موت دیکر ریکارڈ قائم کیا ہے،ترکی نے عدنان مندریس اور پاکستان نے ذوالفقا ر علی بھٹو کو قتل کیاہے۔پاکستان ترکی سے ایک قدم آگے ہے کہ پاکستان کے فوجی حکمرانوں نے اکبر بگٹی کو بھی راستے کی دیوار سمجھتے ہوئے قتل کرکے راستے سے ہٹایا۔

پاکستان اور ترکی کے حکمرانوں میں گہری دوستی قائم ہوئی ہے، تعلقات سرکاری حدود سے نکل کر ذاتی اور کاروباری نوعیت میں ڈھل گئے ہیں،پاکستانی وزیر اعظم کی خواہش ہے کہ پاکستان ترکی بن جائے، اور پاکستان کے عوام ترکی کے عوام کا روپ دھار لیں۔۔۔سوال پیدا ہوتاہے کہ پاکستان ترکی بن سکتا ہے ؟کیا نواز شریف طیب اردوان جیسی سیاست کر سکتے ہیں؟ کیا پاکستان کے عوام ترکی کے عوام بن سکتے ہیں؟

ان سب باتوں کے جوابات نفی میں ہیں، کیونکہ ترکی میں کوئی مقتدرہ قوتوں کی قائم کی ہوئی نرسری نہیں ہے ،جہاں سیاستدان تیار کیے جاتے ہوں،جب کہ پاکستان میں یہ نرسری قیام پاکستان کے ساتھ ہی وجود میں آ چکی تھیں، نواز شریف طیب اردوان بھی نہیں کیونکہ طیب اردوان اور ان کے ساتھیوں پر یا اسکے خاندان پر کوئی کرپشن کا کیس نہیں ہے۔

ترکی میں فوجی بغاوت ناکام ہوئی تو لوگ گھروں سے باہر نکل کھڑے ہوئے اور نہتے ہونے کے باوجود انہوں نے مسلح فوجی دستوں کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرکے رکھ دیا،جبکہ پاکستان میں عوام اور ان کے نمائندوں کی جانب سے فوج کو اقتدار سنبھالنے کی دعوتیں دی جاتی ہیں اور فوج کے برسراقتدار آنے پر مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں، اور اگر کوئی سیاسی جماعت فوجی مارشل لا کے خلاف تحریک چلاتی ہے تو اسے غداری کے مقدمات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

پاکستان میں فوجی جرنیل پر آئین توڑنے پر غداری کا مقدمہ چلانے کی کوشش ہوئی تو ہرطرف ہلچل مچ گئی اور حکومت کے وزیر داخلہ نے خود فوجی جرنیل کو عدالت کے روبرو پیش کرنے کی بجائے اسے فوجی ہسپتال پہنچانے کا فریضہ ادا کیا،جہاں سے وہ سیدھا بیرون ملک پرواز کرگیا،جہاں (ملک میں) آئین سے کھلواڑ کرنے والوں کے ساتھ ایسا برتاؤ کیا جائے، آئین کو کاغذ کے بارہ صفحات کہنے والوں کو پورے فوجی اور قومی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا جائے، ایسے ملک کے عوام کیسے ترکی جیسی قوم بن سکتے ہیں؟ جس ملک کے حکمران اپنے حلقہ انتخاب یعنی پارلیمان میں چار سالوں میں چار بار آئے ہوں ،وہ طیب اردوان کا اوتار کیونکر ہوسکتے ہیں؟

مسلم لیگ نواز کو یہ خوش فہمی ہے کہاگر اسے انتخابی میدان کی بجائے کسی دوسرے طریقہ سے( جن میں عدالتی فیصلہ بھی شامل ہے ) اقتدار سے بے دخل کیا گیا تو پاکستان ترکی بن جائے گا، عوام شاہراؤں پر نکل آئیں گے اور اس وقت تک واپس گھروں میں نہیں جائیں گے جب تک ان کی اقتدار سے بے دخلی کا فیصلہ واپس نہیں لے لیا جاتا۔

سنا ہے کہ عدالت کی جانب سے فیصلہ محفوظ کیے جانے کے بعد وزیر اعظم ہاؤس میں اہم اجلاس ہوا ہے جس میں نواز شریف کی نااہلی کی صورت میں کسی اور رکن پارلیمان کو نیا وزیر اعطم منتخب کرلیا جائے گا، اگر یہ فیصلہ ہوا ہے تو بہت ہی شاندار ہے، اس سے جمہوریت کی گاڑی پٹڑی سے اترنے سے بچ جائے گی اور دوسرا مسلم لیگ نواز کی حکومت ہی قائم رہے گی اور نواز شریف ایوان وزیر اعظم میں بیٹھ کر تمام فیصلے اور پالیسیاں چلائیں گے۔ اچھا ہوا کہ نواز شریف اور ساتھیوں نے پاکستان کے عوام کو ترکی کے عوام کی پیروی کرنے کی مشق میں نہیں جھونکا، ورنہ کھکھ پلے نہیں رہنا تھا، اس کی وجہ یہ ہے کہ نہ پاکستانی عوام نے باہر نکلنا تھا اور نہ ہی نواز شریف کے طیب اردوان بننے کا خواب پورا ہوتا۔ 

نیا وزیر اعطم کون ہوگا؟ اس کا فیصلہ مسلم لیگ نواز کی پارلیمانی پارٹی ایک ہفتے تک کرلے گی، نواز شریف کابینہ کے سنیئرترین رکن وزیر داخلہ آج کے مشاورتی اجلاس سے بھی غائب رہے، جس سے سیاسی اور حکومتی حلقوں میں چہ میگوئیاں بڑھ گئی ہیں۔چوہدری نثار کے خلاف حکومتی سطح پر یکطرفہ کارروائی جا رہی ہے ،ان کے خلاف خبروں کی اشاعت ہورہی ہے،دیکھنا یہ ہے کہ چوہدری نثار علی خان نواز شریف کی نااہلی کی صورت میں کیا پوزیشن لیتے ہیں؟

2 Comments