افغانستان میں امریکامستقل پڑاؤ کے لئے بیتاب 

آصف جیلانی 

افغانستان کی جنگ کو سولہ سال ہونے کو آئے ہیں، لیکن یہ جنگ کبھی ختم نہ ہونے والی جنگ بن گئی ہے۔ امریکا کی تاریخ میں تو یہ سب سے طویل جنگ ہے جس پر اب تک دس کھرب ڈالر خرچ ہو چکے ہیں اور امریکا کے ساڑھے تین ہزار سے زیادہ فوجیوں اور شہریوں کی جانیں بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ 2015میں سی این این پر ایک انٹرویو میں ڈونلڈ ٹرمپ نے سخت طیش میں کہا تھا کہ 2001میں افغانستان پر حملہ ہولناک غلطی تھی۔ سب ستیاناس ہو گیا ہے ، سب ستیا ناس۔ اب ہمیں وہاں سے فی الفور نکلنا پڑے گا۔

لیکن شعبدہ باز کی طرح ، جیسے وہ انتخابی مہم کے دوران لن ترانیوں سے پھر گئے ، اسی طرح اب انہوں نے افغانستان کے بارے میں نیا راگ الاپنا شروع کر دیا ہے۔ شروعات اس کی انہوں نے گذشتہ اپریل میں مہمند وادی میں امریکا کے سب سے بڑے غیر جوہری بم ، مدر آف آل بمب کے حملہ سے کی ہے ، کسی کو علم نہیں کہ اس حملہ میں کتنے افراد ہلاک ہوئے ، عام خیال ہے کہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد کئی سو تھی۔ یہ حملہ افغانستان میں کسی امریکی یا امریکی تنصیب پر حملہ کے جواب میں نہیں تھا بلکہ جواز یہ پیش کیا گیا کہ یہاں داعش کی سپاہ سر گرم تھیں۔محض مفروضہ کی بنیاد پر یہ قتل عام تھا۔

اب یہ واضح ہے کہ اوباما کی طرح ٹرمپ ، افغانستان کی جنگ کو اپنی جنگ قرار دینے کے لئے بے قرار ہیں ۔ اوبامانے 2009میں افغانستان کی جنگ کو اپنی جنگ بنانے کے لئے ایک لاکھ چالیس ہزار امریکی فوجی ، افغانستان میں جھونک دئے تھے لیکن وہ یہ جنگ جیتنے میں سراسر ناکام رہے۔ اوباما کی ناکامی کے باوجود ، اب ٹرمپ نے افغانستان میں مزید فوج بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ ٹرمپ انتظامیہ کا استدلا ل ہے کہ اوباما جنگ جیتنے میں اس بناء پر ناکام رہے کہ امریکی فوجیں زیادہ عرصہ تک افغانستان میں نہیں رہیں بلکہ بہت جلد واپس بلالی گئیں تھیں۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ٹرمپ طویل عرصہ کے لئے،یہی کوئی دس بیس سال کے لئے امریکی فوجیں افغانستان میں تعینات کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ پچھلے دنوں برسلز میں نیٹو کے وزراء دفاع کے اجلاس میں یہ طے کیا گیا ہے کہ طالبان کے خلاف جنگ جاری رکھنے کے لئے مزید 4000 فوج افغانستان بھیجی جائے گی ۔ اس اجلاس میں امریکی وزیر دفاع جنرل میٹیس نے کہا کہا طالبان کے مکمل خاتمہ تک افغانستان آپریشن جاری رکھا جائے گا۔

یہ بات ناقابل فہم ہے کہ اوباما کے دور میں ایک لاکھ چالیس ہزار امریکی فوج ،طالبان کو ختم نہیں کر سکی تو اب نیٹو کی چار ہزار فوج اور امریکا کی پانچ ہزار فوج ، کل ملا کر نو ہزار فوج طالبان کو کس طرح شکست دے سکتی ہے، جب کہ صورت حال یہ ہے کہ اس سال کے اوایل میں افغان فوج نے مزید پانچ فی صد علاقہ طالبان کے ہاتھ گنوا دیا ہے اور پچھلے سال افغان حکومت کے زیر کنٹرول علاقہ میں 15فی صد کی کمی ہوئی ہے ۔ اس وقت افغانستان کے 19اضلاع کا مکمل کنٹرول طالبان کے ہاتھ میں ہے۔2015 میں صوبہ کندوز کے صدر مقام پر طالبان نے قبضہ کر کے سب کو حیران کر دیا تھا۔

اس کے بعد 2016 میں طالبان نے کئی صوبوں کے اہم مقامات پر قبضہ کرلیا۔ لشکر گاہ کا صدر مقام ہلمند اس وقت طالبان کے محاصرے میں ہے اور یہی صورت حال ہلمند کے شمال میں اُزرگان میں ہے ۔ طالبان کے زیر کنٹرول علاقوں میں اضافہ اور افغانستان میں گذشتہ سولہ برسوں سے جاری جنگ کی اصل وجہ یہ ہے کہ افغانستان کی صورت حال کو فوجی قوت کے ذریعہ حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ افغانستان کے مسئلہ کو صحیح تناظر میں دیکھنے اور حل کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ہے ، اس پر غور نہیں کیا گیا کہ شورش کی اصل وجہ کیا ہے؟ یہ محض فوجی مسئلہ نہیں ہے ۔

افغان عوام در اصل اس لئے لڑ رہے ہیں کیونکہ انہیں کئی محاذوں پر سنگین مسائل کا سامنا ہے ۔ ایک طرف ان جنگی سرداروں کے تشدد اور استحصال کا سامنا ہے جن کی امریکا اور افغانستان میں اس کا قریبی اتحادی ہندوستان پشت پناہی کر رہا ہے۔ہندوستان نے ترقیاتی منصوبوں میں سرمایہ کاری کر کے افغان عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ ان کا زبردست بہی خواہ ہے جب کہ استحصالی قوتوں کے ساتھ ہندوستان کا گٹھ جوڑ ہے اور افغان معیشت پر اس کا وسیع کنٹرول ہے۔ جنگی سرداروں اور استحصالی قوتوں کے سامنے افغان عوام اپنے آپ کو بے بس سمجھتے ہیں۔ 

ایک سنگین پہلو اس صورت حال کا یہ ہے کہ افغان جنگی سردار اور افغان حکومت کے اعلی اہل کار ، ملک میں امریکی فوجوں کی تعیناتی کے زبردست خواہاں ہیں کیونکہ ان فوجوں سے ان کے مالی مفادات وابستہ ہیں یہ عناصر چاہتے ہیں کہ امریکا اور نیٹو کی افواج طویل عرصہ تک افغانستان میں تعینات رہیں ۔ ویسے امریکا جنوبی کوریا ، جاپان اور فلی پائین کی طرح افغانستان میں بھی مستقل اپنے اڈے بر قرار رکھنا چاہتا ہے۔ 2001 سے پہلے امریکیوں نے خواب میں بھی یہ نہیں سوچا ہوگا کہ افغانستان پر حملہ کے بعد انہیں فوجی نوعیت کے بے حد اہم علاقہ میں قدم جمانے کا موقع ملے گا۔

ایک طرف چین ہے جس کو وہ ہمیشہ گھیرے میں لینے کے لئے تگ و دو کرتا رہا ہے ، دوسری طرف شمال میں روس کازیر اثر تیل اور گیس سے مالا مال وسط ایشیاء ہے تیسری جانب ایران ہے جس کو وہ اپنا او ر اپنے اتحادیوں کا رقیب سمجھتا ہے پھر چوتھی جانب پاکستان اور پورا بر صغیر ہے۔ ایسے اہم علاقہ کو امریکا چھوڑنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ فوجی اہمیت کے علاوہ امریکا کو افغانستان کی بے پناہ معدنی دولت کا احساس ہے جو اس کی زمین میں پوشیدہ ہے جس سے امریکا فیض یاب ہو نے کے بے قرار ہے۔انتظار اسے طالبان کی شورش کے خاتمہ او ر امن کے قیام کا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا ، افغانستان میں مستقل فوجی پڑاؤ کا خواہاں ہے اور اسی کے لئے منصوبہ بندی کر رہا ہے۔

اس دوران افغانستان میں ایک نیا سیاسی اتحاد قائم ہوا ہے جو نہ صرف صدر اشرف غنی کے لئے بلکہ امریکا کے لئے بھی باعث تشویش ہے۔ چند روز قبل ترکی کی دارالحکومت انقرہ میں افغان نایب صدر اور جنبش ملی کے سربراہ جنرل عبد الرشید دوستم ، وزیر خارجہ اور جمعیت اسلامی کے سربراہ صلاح الدین ربانی اور حزب وحدت اسلامی کی قاید آیت اللہ محمد محقق نے صدر اشرف غنی کے خلاف سیاسی محاذ کے قیام کا اعلان کیا ہے۔

گذشتہ صدارتی انتخاب میں اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے نتایج کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا جس کی وجہ سے سنگین بحران پیدا ہوگیا تھا۔ امریکا کے سابق وزیر خارجہ جان کیری نے اشرف غنی اور عبد اللہ عبداللہ کے درمیان اشتراک اقتدار کا معاہدہ طے کیا تھا جس کے تحت جنرل دوستم نایب صدر ڈاکٹر عبد اللہ عبداللہ سی ای او اور آیت اللہ محققی نائب سی ای او مقرر ہوئے تھے ۔ لیکن انقرہ میں نئے اتحاد کے اعلان کے بعد یہ اشتراک ٹوٹتا نظر آتا ہے اور مرکزی افغان قیادت بکھرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ یوں امریکا کے لئے جو افغانستان میں نیٹو اور امریکا کی فوجوں کی تعیناتی کے لئے کوشاں ہے، سنگین مسئلہ کھڑا ہوگیا ہے ۔ 

Comments are closed.