آخرکیوں نواز شریف پارلیمنٹ کو اعتماد میں نہیں لیتے؟

لیاقت علی

ملفوف الفاظ اور اشاروں کنایوں میں نواز شریف کے حمایتی بالعموم اور ہمارے لبرل، روشن خیال اور جمہوریت پسند احباب کہتے ہیں کہ وزیر اعظم کے خلاف فوج اور عدلیہ باہم ہم مشورہ ہوکر ّسازشٗ کررہےہیں۔ کیوں؟ اس سازش کے پس پشت محرکات کیا ہیں؟ نواز شریف نے ایسا کیا ہے جس سے فوج اور عدلیہ دونوں بیک وقت ناراض ہوگئے ہیں؟

مسلم لیگ کے حمایتیوں کا کہنا ہے کہ نواز شریف چونکہ سی پیک بنا رہے ہیں جو خطے کے کچھ ممالک کو بوجوہ ناپسند ہے اس لئے وہ اپنے مقامی ایجنٹوں کے ذریعے ان کی حکومت کو غیر مستحکم کر رہے ہیں تاکہ سی پیک مکمل نہ ہوسکے۔ سی پیک پاکستان اور چین کی حکومتوں کے مابین معاہدہ ہے نہ کہ نواز شریف کی فیملی اور چین کی حکومت کے مابین۔ نواز شریف نہیں بھی رہے گا تو سی پیک پھر بھی رہے گا کیونکہ سی پیک پاکستان سے زیادہ چین کے معاشی اور سیاسی مفادات سے ہم آہنگ ہے۔

چلو مان لیا کہ خطے کے کچھ ممالک سی پیک کے خلاف سازش میں مصروف ہیں تو کیا اپنے ان مقاصد تکمیل کے وہ فوج اور عدلیہ کو استعمال کررہے ہیں؟ پاکستان کی فوج تو بھارت کے خلاف اسرائیل سے بھی ہاتھ ملانے کو تیار ہے بالکل اسی طرح جس طرح سعودی عرب ایران کے خلاف اسرائیل سے ہاتھ ملانے کے لئے تیار ہو رہا ہے۔ لہذا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ سی پیک کی مخالفت کے لئے بھارت سے ہاتھ ملا ئے۔

چلو مان لیتے ہیں کہ سی پیک میں فوج کے کچھ مخصوص مفادات ہیں اور اپنے ان مفادات کے حصول کے لئے وہ چاہتی ہے کہ سی پیک کا زیادہ سے زیادہ کنٹرول اس کے پاس رہے لیکن عدلیہ کا سی پیک سے کیا لینا دینا۔ عدلیہ نے تو سی پیک میں کوئی ٹھیکہ نہیں لینا اور ن ہی ججوں کی اسامیاں ہیں جن کے حصول کے لئے عدلیہ نواز شریف پر دباو بڑھانے کی خواہاں ہے۔لہذا یہ کہنا کہ نواز شریف کے خلاف مبینہ سازش کی قوت محرکہ سی پیک مخالفت ہے اور اس سازش میں فوج اور عدلیہ ہم مشورہ ہیں کوئی قابل اعتبار بیانیہ نہیں ہے۔

لبرل دوستوں کا موقف اس ّسازشٗ کے بارے میں مسلم لیگیوں سے مختلف ہے۔ ان کے نزدیک نواز شریف کے خلاف جاری یہ ساری لڑائی دراصل سول ملٹری تعلقات کی لڑائی ہے۔ نواز شریف ریاستی اور حکومتی امور میں سوہلین بالا دستی چاہتے ہیں جو کہ فوج کو کسی صورت قبول نہیں ہے۔ ان کے نزدیک نواز شریف بھارت سے قریبی تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کی اس خواہش کو فوج نہیں چاہتی کہ کسی صورت عملی جامہ پہنایا جاسکے۔ کیونکہ فوج کے نزدیک بھارت سے تعلقات کا نتیجہ ان کی بالا دستی کے خاتمے کی صورت نکلنے کا امکان ہوسکتا ہے اور ایسا فوج ہر گز نہیں چاہتی۔

نواز شریف افغانستان کی بارے میں پالیسی پر سویلین بالا دستی چاہتے ہیں جب کہ افغانستان کے بارے میں پالیسی فوج اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتی ہے۔ ممکن ہے یہ موقف ہمارے لبرل دوستوں کا درست ہو اور نواز شریف یہی کچھ چاہتے ہوں جو ہمارے لبرل دوست کہہ رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ نواز شریف نے کہاں اور کب اپنے اس موقف کا اظہار کیا ہے اور عوام اور پارلیمنٹ کو اعتماد لیا ہے۔

کیا وہ پارلیمنٹ کا اجلاس بلا کر عوام کے نمائندوں کو نہیں بتا سکتے تھے کہ فوج ان کی اس بنا پر مخالف ہے کیونکہ وہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستی اور اچھے ہمسائیگی کے تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ویسے جب صدر زرداری نے ممبئی دہشت گرد حملے کے بعد یہ کہا تھا کہ آئی ایس آئی کا سربراہ بھارت جائے گا اور وہاں تفتیش کے عمل میں اپنے بھارتی ہم منصب سے تعاون کرے گا تو اس کے خلاف سب سے زیادہ واویلا نواز شریف اور ن لیگ نے کیا تھا۔

اور جب صدر زرداری نے آئی ایس آئی کو وزارت داخلہ کے ماتحت کرنے کی کوشش کی تھی تو ن لیگ کہتی تھی کہ ایک اعلیٰ قومی ادارے کو رحمان ملک جیسے وزیر داخلہ کے ماتحت کرنا قومی سانحے سے کم نہیں ہے۔ پھر میمو گیٹ کی آڑ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف فوج، عدلیہ اور ن لیگ پر مشتمل تثلیت کی لشکر کشی اس کی بہت بڑی اور واضح مثال تھی۔

یک چشم جسٹس نے پیپلز پارٹی کو وہ خوار کیا تھا کہ خدا کی پنا ہ لیکن ان دنوں افتخار محمد چودہری کے سب سے بڑے محافظ اور حمایتی میاں نواز شریف اور ان کی جماعت ہوا کرتی تھی۔ یو سف رضا گیلانی کو وزارت عظمی سے معزول کروانے اور بعد ازاں گھر بھیجنے میں نواز شریف اور ان کے حواریوں نے اپنی تمام تر توانیاں صر ف کی تھیں۔

نواز شریف کے خلاف اگر واقعی ہی فوج اور عدلیہ ہم مشورہ ہیں تو انہیں چاہیے کہ وہ پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیں اور بتائیں کہ ان کی پالیسیوں کی بنا پر فوج اور عدلیہ انھیں اقتدار سے محروم کرنا چاہتی ہیں اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو ان کے لبرل حمایتی ان کی طرف جو کچھ منسوب کر رہے ہیں وہ محض ان کی خوش فہمی اور رجائیت پسندی ہے ورنہ نواز شریف اور ن لیگ کا ان کے اس بیانیہ سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔

One Comment