خیبر پختونخوا کے پختون اور پی ٹی آئی کا انقلاب

 فیض اللہ

میں پشاور یونیورسٹی میں شعبہِ بین الاقوامی تعلقات میں پڑھتا تھا۔ 2006 میں جنرل پرویز مشرف کا قتدار عروج پر تھا۔ کلاس کے اکثر طلباء بشمول اساتذہ ان کے سرگرم حمایتی تھے۔ کچھ اساتذہ کی مجبوری بھی ہوسکتی تھی۔ تاہم چیئرمین صاحب فخر سے کہتے تھے کہ مشرف صاحب مجھے ذاتی طور پر جانتے ہیں۔

جب ہم کلاس فیلوز آپس میں سیاسی بحث و مباحثہ کرتے تو میرے دوست مجھے بلوچی کہہ کر کہتے وہاں سے ہٹ کروں گا کہ پتہ بھی نہیں چلے گا۔ وہ اکبر بگٹی کی بیہمانہ ہلاکت کا مذاق اڑاتے تھے۔ اس وقت میرے پاس ایک ہی جواب تھا کہ آپ ہمیں ہٹ کرنے کے علاوہ اور کر ہی کیا سکتے ہیں۔ لیکن انسانی تاریخ بھی عجیب شے ہے یہ حق کے لئے لڑنے والوں کبھی ذلیل نہیں کرتی۔

ابھی زیادہ عرصے نہیں ہوا ہے کہ اکبر بگٹی کا احترام اور عزت ہرحریت پسند اور مزاحمت پسند کرتا ہے۔ وہ بلوچوں کے تاریخ کا ایک تابندہ اور درخشاں باپ بن گئے جبکہ خود کو نہ ڈرنے والا کمانڈو کہنے والا مشرف نے عدالت جاتے ہوئے پہلے بیمار ی کا بہانہ بنایا اور پھر موقع پاتے ہی بھاگ گئے۔

رہی بات پختونخوا کے پختونوں کی ،2007 میں ابھی میں وہاں ہی تھا کہ سوات کے لوگوں کو پہلے طالبان اور پھر پاک فوج نے وہاں سے ہٹ کیا کہ ان کو پتہ ہی نہیں چلا۔ وہاں سے لاکھوں لوگ بے گھر ہوگئے۔ پھر 2014 کے بعد فاٹا کے لوگ وہاں سے ہٹ ہوگئے کہ ان کو پتہ بھی نہیں چلا۔ لیکن پختونخوا کے پختون آج بھی نہیں بدلے۔

جب پختونخوا کے پرانے یا نئے دوستوں کے ساتھ بات ہوتی ہے تو پوچھتا ہوں کہ صوبے کے حالات اب کیسے ہیں تو بتاتے ہیں کہ یار تبدیلی تو آئی ہے۔ جب پوچھتا ہوں کہ کیسے؟ تو جواب ملتا ہے کرپشن کم ہوگیا اور پولیس بہتر ہوگئی۔ پھرپوچھتا ہوں وہ کیسے؟ تو پھر جواب ملتا ہے کہ اکثر لوگ کہتے ہیں کرپشن بہت کم ہوگیا ہے۔ اور ہاں یہ بھی کہتے ہیں کہ پولیس والے اب ٹرک والوں سے چیک پوسٹوں پر پیسے نہیں لیتے۔ بہرحال یہ ایک معمہ ہے کہ کہ ادارتی اورانتظامی اصلاحات کے بغیر کرپشن کیسے رک گیا اور گورننس کیسے بہتر ہوئی۔ یہ بات میری سمجھ سے بالاترہے۔

پاکستان میں بہت دانشور کہتے ہیں کہ عمران خان نوجوانوں کو سیاست میں لے کر آئے۔ میرے خیال میں نوجوانوں کی سیاست صرف دھرنوں اور سوشل میڈیا کی حد تک محدود ہے جہاں ان کو ہجوم کی شکل میں دل کا بھڑاس نکالنے کا موقع ملتاہے اور ان کو پی ٹی آئی میں یہی چیز پر کشش لگتی ہے۔ اور عمران خان کی پاپولر سیاست نے نوجوانوں کی سیاسی فہم کواتنا سطحی بنایا کہ وہ بنیادی قومی مسائل جیسے چھوٹے صوبوں کا استحصال، آئین پر عمل در آمد، جمہوریت اور اداروں کا استحکام، مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی، انسانی حقوق کی پامالی، ہمسایہ ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات وغیرہ کو مسائل ہی نہیں سمجھتے۔

ان کو اس خوش فہمی میں مبتلا کیا گیا ہے کہ اگر زرداری، نواز شریف، محمود خان اچکزئی، مولانا فضل الرحمن اور اسفندیار گئے تو اس ملک میں انقلاب برپا ہو جائے گا۔ کرپشن ختم ہو جائے گا۔ ادارے مضبوط ہو جائیں گے۔ باغی بلوچ ہتھیار پھینک دیں گے۔ مسنگ پرسنز گھر واپس آجائیں گے۔ فاٹا ترقی کرے گا۔ بے گھر لوگوں کو گھر ملےگا۔ شرح خواندگی سو فیصد ہو جائے گی۔ طالبان تشدد چھوڑ کر تبلیغ شروع کریں گے۔ پاک فوج سیاست اور کاروبار چھوڑ کر سرحد محفوظ بنائے گی۔ بیوروکریسی رشوت لینا چھوڑ دے گی۔

پرویز رشید، فردوس عاشق اعوان، جہانگیر ترین وغیرہ کی طرح سب سیاستدان کرپشن سے توبہ کریں گے۔ بلوچستان اور پختونخوا کے وسائل پر وہاں کے لوگوں کا حق تسلیم ہو جائے گا۔ وسطی پنجاب کے لوگوں کو بھی ترقیاتی پراجیکٹس میں سے حصہ ملے گا۔ اعلیٰ اور معیاری تعلیم کے لئے ہر شہر میں یونیورسٹیاں قائم کی جائیں گی جن میں بیرون ممالک سے لوگ پڑھنے آئیں گے۔ صحت کا بہترین نظام ہوگا۔ جاگیرداروں سے زمینیں لے کر کسانوں میں بانٹی جائیں گی۔ زراعت اور صنعت پر خاص توجہ دی جائے گی۔ لوڈ شیڈنگ ختم ہو جائے گی۔ عورتوں اور اقلیتوں کو برابر حقوق دیے جائیں گے۔

اور بھی بہت کچھ بس صرف عمران خان کو ایک بار وزیر اعظم بن جائے پھر دیکھنا۔

2 Comments