نئی خاتون اول اور عبوری وزیر اعظم کی ترجیحات

انور عباس انور

اگر شہباز شریف وزیر اعظم پاکستان منتخب ہوئے تو پاکستان کی خاتون اول کا تاج کس کے سر سجے گا؟ پاکستانی میڈیا نے ایک نئے بحث چھیڑ دی ہے،یہ سوال دیکھا جائے تو قبل از وقت ہے، کیونکہ شہباز شریف کے وزیر اعظم پاکستان منتخب ہونے میں ابھی ساٹھ روز باقی ہیں، دنیا میں جس برق رفتاری سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، اسے مدنظر رکھا جائے تو ان ساٹھ دنوں میں بعد کچھ ہو سکتا ہے، جس میں یہ بھی ممکن ہے کہ شہباز شریف کی بجائے کسی اور کے سر پر وزارت عظمی کا ہما بٹھا دیا جائے ۔پاکستان سمیت میں تیسری دنیا میں ایسے معجزات رونما ہونے میں دیر نہیں لگتی ،اس خیال کی بنیاد پر شہباز شریف کے وزارت عظمی کے منصب پر فائز ہونے کے متعلق شکوک و شبہات کا اظہارکیاجا رہاہے۔

پنجاب کے وزیر اعلی شہباز شریف کے عقد میں اس وقت ایک سے زائد بیویاں موجود ہیں، جن میں نصرت شہباز، عالیہ ہنی ، تہمینہ دررانی ،نرگس کھوسہ اورکلثوم حئی شامل ہیں، نصرت شہباز اور عالیہ ہنی اب اس دنیا میں نہیں رہیں، پاکستان کی خاتون اول تہمینہ دررانی، کلثوم حئی اور نرگس کھوسہ میں سے کوئی ایک ہوگی۔اور اس بات کا اختیار اگلے وزیر اعظم(اگر منتخب ہوئے تو) شہباز شریف کے پاس ہوگا کہ وہ اپنی کس شریک حیات کو پاکستان کی خاتون اول کا اعزاز عطا کرتے ہیں۔

شادی کرنے میں شہباز شریف سابق گورنر پنجاب ملک غلام مصطفی کھر کی تقلید کر رہے ہیں ،لیکن ابھی تک شہباز شریف مصطفیٰ کھر کی سات شادیوں کا ریکارڈ توڑنے اور نیا ریکارڈ قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے،مصطفی کھر کی ازدواج میں بلال کھر کی امی صفیہ، تہمینہ دررانی، عائشہ کھر(بٹ)عبدالرحمن کھر کی والدہ جو مصطفی کھر کے خاندان سے تھیں،مصطفی کھر جب پنجاب کے گورنر اور وزیر اعلی بنے تو تہمینہ کھر(اب دررانی) فسٹ لیڈی آف پنجاب رہیں۔

؎شہباز شریف کے وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد تہمینہ دررانی ( تہمینہ شریف) خاتون اول بن کر ایک بار پھر بام عروج پر دکھائی دیں گی، مصطفی کھر سے علیحدگی کے بعد تہمینہ دورانی نے ایک ناول ’’مائی فیوڈل لارڈ ‘‘ اردو میں ’’ میڈا سائیں‘‘تحریر کیا جس نے بڑا نام کمایا اور مال بھی تہمینہ کے حصے میں آیا۔۔۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ تہمینہ دررانی جو تہمینہ شریف بن چکی ہیں کیا شہباز شریف خصوصا شریف خاندان کی اقتدار سے علیحدگی کے بعد ایک اور ناول لکھیں گی۔،

تہمینہ دررانی کے خاتون اول بننے کی راہ میں ایک رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے وہ یہ کہ تہمینہ شریف حکومت کے غلط اقدامات پر کھل کر تنقید کرتی رہی ہیں، ممکن ہے کہ شہباز شریف اس وجہ سے تہمینہ دورانی کو ڈراپ کردیں،اگر ایسا ہوا تو پاکستان خاتون اول سے محروم رہے گا۔

اگلے وزیر اعظم جیسا کہ کہا جا رہا ہے کہ 45 دن کے بعد نومنتخب وزیر اعظم مستقل وزیر اعظم کے لیے نشست چھوڑ دیں گے اور پارلیمنٹ ایک بار پھر نیا قائد ایوان کا چناؤ عمل میں لائے گی،جو کہ اب تک کی حکمت عملی کے مطابق شہباز شریف ہی حرف آخر ہیں، نواز شریف کی نااہلی کے بعد پارلیمنٹ نے نیا قائد ایوان منتخب کرکے اور مسلم لیگ نواز نے عدالتی فیصلے کے آگے سرتسلیم خم کرکے جمہوریت اور جمہوری عمل کے تسلسل کو جاری رکھا،یہی جمہوریت کی خوبی ہے۔

نئے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی کابینہ میں 75 فیصد وہی چہرے شامل کیے جانے کی توقع اور امکان ہے، باقی 25 فیصد جن نئے چہروں کو کابینہ کی رونق بنایا جائے گا اس کی منظوری بھی دیدی گئی ہے، امید کی جانے چاہئے کہ نئے وزیر اعظم اپنی ترجیحات طے کرتے وقت پاکستان کے اندرونی و بیرونی حالات کو مدنظر رکھیں گے، اور عوام کی مشکلات کو کم کرنے پر اپنی توجہ مرکوز رکھی جائے گی۔

نئے وزیر اعظم نے منتخب ہونے کے بعد پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ 45 دنوں میں 45 ماہ کا کام کریں گے،اللہ کرے ایسا ہی ہو، اپوزیشن سے تعلقات بہتر رکھنا بھی نئے قائد ایوانکی ترجیحات میں شامل ہونا ضروری ہے، جیسا کہ نو منتخب وزیر اعظم نے اعلان کیا ہے کہ میں چاہیے 45گھنٹے یا 45دن کا وزیر اعظم ہوں ۔۔۔مگر ہوں وزیر اعظم۔۔۔ پارلیمنٹ میں عبوری وزیراعظم کے اس اعلان کہ ایک گھنٹے کا وزیر اعطم ہوں یا 45 روز کا،ہوں وزیر اعظم۔۔۔سے بلوچستان کے سابق وزیر اعلی نواب محمد اسلم رئیسانی اور سابق نگران وزیر اعظم غلام مصطفی جتوئی یاد آ گئے۔

غلام مصطفی جتوئی نے پیپلز پارٹی سے بغاوت کرنے کی پلاننگ کا آغاز کیا اور اسٹبلشمنٹ سے رابطے ہونے لگے تو بے نظیر بھٹو نے سخت تنقید کی جس پر غلام مصطفی جتوئی نے بے نظیر بھٹو سے کہا ’’بی بی وزارت عظمیٰ میں بڑی کشش ہوتی ہے وزارت عظمیٰ چاہے نوے روز کے لیے ہو یا دو ہفتوں کے لیے۔۔۔ اسی طرح ملک میں جعلی ڈگری کا شور مچا تو نواب اسلم رئیسانی نے تاریخی جملہ کہا’’ کہ ڈگری ڈگری ہوتی ہے چاہے جعلی ہو یا اصلی۔۔۔ ایسا ہی مفہوم غلام مصطفی جتوئی کا تھا۔ اور یہی بات عبوری وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے دہرائی ہے ،کہ وزیر اعطم وزیر اعظم ہوتا ہے چاہے 45دن کے لیے ہو یا مستقل۔

یار دوستوں کا کہنا ہے کہ اللہ سے دعا کرنی چاہیے کہ وہ نئے وزیر اعظم کو ہمت ،طاقت اور جرات عطا کرے کہ وہ اپنے ان کے مقاصد میں کامیاب و کامران کرے تا کہ وہ اپنی پہلی تقریر میں قوم سے کیے گئے وعدوں کو پایہ تکمیل تک پہنچا پائیں، اللہ انہیں اپنے فیصلے اپنی بصیرت،سوچ اور تدبر و فہم سے کریں اور ہر فیصلہ لینے یا کوئی لفظ ادا کرنے سے قبل کسی اور کی جانب نہ دیکھیں، آمین ثم آمین۔

4 Comments