وزیر اعظم شہباز شریف اور نون لیگ کے تحفظات

عبوری وزیر اعظم کے انتخاب کے بعد اب نون لیگ کے حلقے یہ بات کر رہے ہیں کہ شہباز شریف کو پنجاب چھوڑ کر نہیں جانا چاہیے۔ شہباز شریف کے وزیر اعظم منتخب ہونے کی صورت میں پارٹی کی گرفت پنجاب پر کمزور پڑ سکتی ہے۔

نون لیگ کے اہم اور سینئر رہنما رانا ثناء اللہ نے آج ایک بیان میں شہباز کے پنجاب چھوڑ کر وزیرِ اعظم بننے کی مخالفت کی ہے۔ خیال کیا جاتاہے کہ نون لیگ پنجاب کو اپنا گڑھ سمجھتی ہے اور پارٹی کے کئی قائدین کے خیال میں اگر شہباز شریف پنجاب چھوڑ کر وزیرِ اعظم بنے تو اس سے پارٹی کو دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں نقصان ہوسکتا ہے۔

نون لیگ کی رہنما عظمیٰ بخاری نے اس بات کی تصدیق کی کہ پارٹی میں رہنماؤں کا ایک بڑا گروپ اس بات کا مخالف ہے کہ شہباز شریف پنجاب کی وزرات اعلیٰ چھوڑ کر وزیرِ اعظم کا عہدہ سنبھالیں۔

 اس حوالے سے انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’پار ٹی کے دو تہائی رہنماؤں کی اکثریت یہ چاہتی ہے کہ شہباز شریف پنجاب میں رہیں کیونکہ جس انداز میں وہ پنجاب میں کام کر رہے ہیں کوئی اور رہنما نہیں کر سکتا۔ مشکل یہ ہے کہ شہباز شریف وزیرِ اعلیٰ رہتے ہوئے انتخابات تو لڑسکتے ہیں لیکن اس صورت میں وہ انتخابی مہم میں حصہ نہیں لیں سکیں گے اور ان کے بغیر انتخابی مہم اتنی جاندارنہیں رہے گی‘‘۔

کئی سیاسی مبصرین کے خیال میں مرکز میں نون لیگ کے سینئر رہنما شریف خاندان کے فرد کے علاوہ کسی اور کے کنٹرول میں نہیں آئیں گے۔ عظمیٰ بخاری نے اس مشکل کا اعتراف کرتے ہوئے کہا، ’’یہ بات درست ہے کہ مرکز میں ر ہنما صرف شہباز شریف کے ہی ماتحت چل سکتے ہیں۔ چوہدری نثار نے پہلے ہی وزارت لینے سے انکار کر دیا ہے۔ خواجہ سعد رفیق بھی انتخابی مہم چلانا چاہتے ہیں اور وزارت لینا نہیں چاہتے۔ اسحاق ڈار مقدمات کی وجہ سے وزرات نہیں لیں گے۔ تو نون لیگ کے لئے یہ مشکل مرحلہ ہے۔ اگر ہم پنجاب سے شہباز شریف کو مرکز بھیجتے ہیں تو ہمارے گڑھ میں ہمیں مسائل کا سامنا کر نا پڑ سکتا ہے لیکن اگر ہم مرکز میں ان کو نہیں بھیجتے تو پارٹی کو مرکز میں مسائل کا سامنا ہوگا۔ ان نکات پر بحث ہو رہی ہے اور جلد ہی اس حوالے سے کوئی فیصلہ کر لیا جائے گا۔‘‘

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’ہم اس وقت پارٹی کے اندرونی معاملات اور این اے ایک سو بیس کے انتخابات کے حوالے سے مصروف ہیں لیکن پارٹی میں بہت سارے لوگوں کی یہ رائے ہے کہ آئین میں ترمیم کر کے میاں نواز شریف کو واپس لایا جائے تاہم ایسی کوئی ترمیم دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات کے بعد ہی ہوگی‘‘۔

دوسری جانب نون لیگ کے انتہائی سینئر رہنما راجہ ظفر الحق نے اس بات سے لاعلمی کا اظہار کیا کہ شہباز شریف کو مرکز میں نہیں لایا جا رہا ہے۔’’میری اطلاعات کے مطابق ابھی تک تو پارٹی کا فیصلہ یہی ہے کہ شاہد خاقان عباسی پینتالیس دن کے لئے وزیرِاعظم رہیں گے اور اس کے بعد شہباز شریف وزارت عظمی سنبھالیں گے‘‘۔

انہوں نے کہا کہ ابھی تک پارٹی نے کسی ایسی آئینی ترمیم پر بحث نہیں کی ہے کہ جس کے تحت میاں صاحب کو واپس لیا جا سکے اور نہ ہی ایسی کوئی تجویز زیرِ غور ہے۔

شہباز شریف کے انتخابات نہ لڑنے اور مرکز نہ جانے کے حوالے سے متعلق خبروں نے ملک میں ایک بار پھر سیاسی افواہوں کو جگہ دے دی ہے۔ کچھ تجزیہ کاروں کے خیال میں نون لیگ کو خدشہ ہے کہ این اے ایک سو بیس کے انتخابات لڑنے میں مسلم لیگ کو کئی خدشات در پیش ہیں۔ نون لیگ کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار احسن رضا کے خیال میں نون لیگ کا لاہور میں ووٹ بینک کم ہو رہا ہے۔

 احسن رضا کے مطابق، ’’ نااہلی کے فیصلے کے بعد نون لیگ کے لئے زیادہ ٹرن آوٹ دکھانا بہت مشکل ہوگا کیونکہ پارٹی بہت سارے مسائل میں گھر گئی ہے۔اسی وجہ سے شہباز شریف پنجاب چھوڑنا نہیں چاہتے۔ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ شہباز شریف پنجاب میں بہت آزادی سے کام کرتے رہے ہیں لیکن مرکز میں ان کو نواز شریف کی طرف سے مداخلت کا سامنا رہے گا، جو انہیں مختلف اوقات میں ہدایات دیتے رہیں گے۔ میرے خیال میں شہباز آزادانہ طور پر کام کر نا چاہتے ہیں۔ اس لئے وہ مرکز جانے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں‘‘۔

DW

Comments are closed.