مبارک حیدر اور ہماری نرگسیت

پروفیسر امین مغل

مبارک حید ر کے مطالعہ میں ہم سے مراد مسلمان ، بعد میں تخصیص سے بر صغیر جنوبی ایشیا کے یا زیادہ تخصیص سے پاکستانی مسلمان ہیں۔ 

اگر مسلمان کی اصطلاح کی دھند کو ہٹا کر تاریخی خط کے ساتھ سفر میں دیکھا جائے، تو ہم مسلمانوں کوعلاقائی یا قبائلی شناختوں میں بٹا پائیں گے، جیسے عرب، مغل، پٹھان، ایرانی، سلجوق، ہندوستانی، وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب لوگ مسلمان کے چھتر کے نیچے دیکھے جاتے ہیں، جو حقیقی بھی ہے اور غیر حقیقی۔

اپنے زمانے کے تاریخی چیلنجوں کا جواب ان سب نے مختلف انداز میں دیا، جن میں کچھ عوامل مشترک بھی تھے، جیسے ایک امت کا حصہ ہونے کے ان کے احساس کی بدولت ان کا اپنے مذہب کے حوالے سے اپنے تخیلی عرب ماضی کے ساتھ جڑا ہونے کا احساس۔

چنانچہ جب ہم پاکستانیوں کی نفسیات کی بات کرتے ہیں، تو اس کے غالب حد تک مسلمان آبادی ہونے کی وجہ سے ہم لا محالہ پاکستان کے مسلمانوں کی بات کرتے ہیں، جب کہ پاکستانی اور مسلمان شناختیں اپنے پس منظر میں بلکہ اپنی تحتانی سطحوں میں پنجابی، پشتون، بلوچ ایسی شناختوں میں بٹی ہوئی اور اس کے ساتھ ہندو، سکھ،بدھ ایسی شناختوں کے ساتھ گندھی ہوئی یا گتھم گتھا نظر آتی ہیں۔ یہی معاملہ دوسری مذہبی شناختوں کا ہے، جیسے عیسائی یا یہودی۔

ان تمام عوامل کی وجہ سے کسی ثقافتی زمرے کا مطالعہ انتہائی پیچیدہ بن جاتا ہے اور اس کا مکمل احاطہ ممکن نہیں ہے۔
لیکن اس کی کوشش کرنا ایک احسن کام ہے۔

2

تاریخ میں کوئی کٹ آف ڈیٹ یا تاریخ انقطاع نہیں ہوا کرتی، لیکن ہم سہولت کے لئے اس طرح کے خطوط کھینچنے پرمجبور ہوتے ہیں۔ پاکستان اور اسلامی دنیاآج جس خلفشار میں مبتلا ہیں، اس کے لئے عام طور پر مغربی استعمار کی مسلمان معاشروں پر یلغار کے آغاز کو خط انقطاع سمجھا جا سکتا ہے۔ 

جب سے ان معاشروں پر نوآبادیاتی حملہ ہوا ہے، اس وقت سے ان کے دانش ور اپنی ہزیمت کا سراغ لگانے کی کوشش کررہے ہیں۔ افغانی ہوں یا اقبال، مشرقی ہوں یا مودودی، غلام احمد پرویز ہوں یا پرویز ہود بھائی، یہ سب ہمارے زوال یا شکست کے اسباب اور ان کی روشنی میں ان کے لئے ردعمل تلاش کرتے رہے ہیں۔

مبارک حیدر اس تناظر میں اسی قبیلے کے آدمی ہیں۔

انہوں نے ہمارے سقوط کے سبب کا سراغ لگانے اور اس کی تصویر سازی کے لئے تہذیبی نرگسیت کی اصطلاح ایجاد کی ہے یا کم سے کم اسے استعمال کیا ہے۔ ایک اور عالم نے اسی مقصد کے لئے کلچرل سکٹزوفرینیا یعنی ثقافتی سکٹزوفرینیا کی اصطلاح کا سہارا لیا ہے۔

نفسیات کے مختلف مکاتب میں نرگسیت کی اصطلاح قائم بالذات فرد کے سلوک کو سمجھنے کے لئے استعمال کی جاتی رہی ہے۔ لیکن اس کا استعمال کاروباری اداروں میں نرگسیت میں مبتلا افراد کے سلوک کا مطالعہ کرنے کے لئے استعمال کیا جانے لگا ہے۔ مبارک حیدر نے اس وسیع تر استعمال سے استفادہ کیا ہے۔ گویا، تہذیبی نرگسیت کی اصطلاح کاروباری نرگسیت کا وسیع سطح پریعنی ثقافتی سطح پر استعمال ہے۔ وہ کاروباری اداروں اور تہذیبی اداروں کے فرق سے آگاہ ہیں، لیکن نرگسیت کی اصطلاح کو ایک مفید اوزار سمجھتے ہیں، اور انہوں نے اسے انتہائی چابکدستی اورذمہ داری سے استعمال کیا ہے۔

3

مبارک حیدر نے ایک ماہر نفسیات کے اتباع میں نرگسیت کی دس علامتوں کو قابل غور گرداناہے۔ ان میں اجتماعی ضرورتوں کے مقابلے میں اپنی ضرورتوں کو ترجیح دینے، انا کے دفاع کے لئے غیر ضروری جذباتی رد عمل ظاہر کرنے، سے لے کر خود نمائی تک، اور اپنے سے بڑوں کی تقلید سے بڑا بننے کی کوشش، وغیرہ شامل ہیں۔

مصنف نے نرگسیت کی ان علامتوں کی مدد سے مسلمان معاشروں کی نرگسیت کے مظاہر کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ چنانچہ اس بحث میں عراق اور افغانستان، عریانی اور فحاشی، ماضی پرستی ، متلون مزاجی، ہمارے شمال کے قبائل اور ان کے ہندوستان پر حملوں کے پیچھے نمعاشرتی اور دوسرے عمرانی محرکات، احساس محرومیت اور دوسروں کی طرف جارحانہ رد عمل، اسلام کے مکمل ضابطہ حیات ہونے کا تصور، اسلاف پر فخر،اسلام کے عمرانی پس منظر، اور تاریخ میں اس کی مقامیت، پوری دنیا پر تلوار کے بل پر اسلام کا غلبہ وغیرہ پر تنقیدی نظر ڈالی گئی ہے۔یہ مباحث کسی نہ کسی شکل میں ہم سب کی نظر سے گزرتے ہیں، لیکن مبارک حیدر کا ان سے بحث کرنے کا ایک منفرد انداز ہے، جو اردو میں بہت کم ملے گا۔

عام طور پر ان امور سے بحث کرنے والا یا تو ابوالکلام آزاد کی طرح پیغمبرانہ جلال سے بات کرتا ہے، یا مودودی صاحب کی طرح منبر پر بیٹھا ہوتا ہے، پرویز صاحب کے ہاں، انگریزی نثر کے نثر پن (پروزیکنیس) کی جھلک ملتی ہے (جسے میں خوبی سمجھتا ہوں)۔ مبارک حیدر کے اسلوب میں تبلیغی عنصر ان کے استدلالی اسلوب کے نیچے دبا رہتا ہے، اور ان کی نثر میں انتہائی ہلکی شاعرانہ رنگینی پائی جاتی ہے جو بے قابو نہیں ہوتی، اور ان کی طنز اور تیکھے پن کے ساتھ عجیب قسم کا امتزاج بناتی ہے۔ لیکن ان کے اسلوب کی اصل خوبی ان کا سقراطی طریقہ ہے، جس میں وہ اوکہم کے استرے کا استعمال مہارت سے کرتے ہیں، جیسے پیاز کی تہیں ایک ایک کر کے اتار رہے ہوں۔ 

ایک مثال ملاحظہ ہو:
ہمارا مستقبل دنیا کے مقصد سے گڑا ہوا ہے کہ نہیں یہ بھی ابھی تک سوال بنا ہوا ہے۔ کیا ہر سوال کا جواب بھارت کو سامنے رکھ کر دیا جائے گا؟ بھارت سے جنگ کرتے رہنا کیا ہمارے وجود کی شرط ہے؟ یعنی یہ کہ یہ جنگ یا نفرت دو قومی نظریہ کی بنیاد ہے؟۔۔ کیا قومی آزادی کسی دوسری قوم سے نفرت کے بغیر ممکن نہیں؟ ۔۔۔ کیا بھارت سے نفرت کے نتیجہ میں یا اسلام کا بڑھ بڑھ کر نعرہ لگانے سے ہم نے پچھلے ساٹھ برس میں ترقی کی ہے؟ کیا ترقی کا تصور ہی اسلام میں ممنوع ہے؟ ۔۔ اور پھر یہ کہ کیا بھارت سے مسابقت اور ہماری قومی سربلندی کا دار و مدار اس پر ہے کہ ہم اپنے اسلامی تشخص کو آخری حدوں تک شدید کرتے جائیں ، حتی کہ ہم تلوار اور گھوڑے کی تہذیبی سطحوں کو چھو لیں۔۔۔ کیا بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہیکا فلسفہ علمی، عقلی بحث کے ذریعہ سے ماننا یا چھوڑنا ممکن نہیں؟ یعنی کیا اس فلسفے کی صحت کا فیصلہ صرف اسی دن ہوگا جب مسلمان پوری دنیا کو فتح کرنے خالی ہاتھ نکلیں گے اور جنگ میں فتح یا شکست کے بعد ہمارے علمائے دین نتائج پر اظہار خیال کی اجازت دیں گے؟۔۔۔ حتیٰ کہ یہ سوال کہ کیا اسلام میں کسی مدرسہ اور دینی طبقہ کی فائق حیثیت کا کوئی تصور موجود ہے؟ ۔۔۔ اگر معاشرہ ایک طویل عرصہ سے صرف عقائد اور عبادات کا پرچار کرتا رہا ہو تو ریسرچ اور سائنس یا ٹیکنالوجی کا فروغ آسان نہیں ہوتا۔۔۔ اگرچہ ایرانی علماء دوسرے مسلم علماء کے مقابلے میں موجودہ علوم سے کہیں زیادہ واقف ہیں، اس کے باوجود ان کے بنیادی طرز فکر کی وجہ سے ایران اپنے علمی سفر میں دوسری قوموں کے ساتھ نہیں چل سکا۔۔۔ کیا دین سے اختلاف کی اجازت دی جا سکتی ہے؟ تو پھر آج تک کیوں نہیں دی گئی اگر نہیں دی جا سکتی تو پھر انسانی عقل کا مصرف کیا ہے؟ جب یہ طے ہے کہ سچائی صرف دین اسلام میں ہے تو پھر عالم دین کے علاوہ اور کسی قسم کی قیادت یا ماہرین کی گنجائش کہاں ہے؟

5

مسلمان معاشروں کی تہذیبی نرگسیت اس استعماری دورکے حاصلات سے مستفید ہونے اور اس دور کے گزر جانے کے بعد اس کی دلفریب یاد سے پیدا ہوئی ہے جسے اسلام کا سنہری زمانہ کہا جاتا ہے، لیکن جو در اصل عرب استعمار (بذریعہ اقبال) اور اسلام قبول کرنے والی دوسری جمعیتوں کے استعمار یا دور حکومت پر محیط تھا۔ ان اقوام اور جمعیتوں کے مادی اقبال کے لئے اسلام (عیسائیوں کے سلسلے میں عیسائیت) کو نظریاتی جواز کے طور پر استعمال کیا گیا۔ 

جہاں تک اس طرح کے دور کی یاد کا تعلق ہے ضروری نہیں کہ یہ یاد حقائق پر مبنی ہو۔ قوموں کی یاد داشت یوں بھی انتخابی ہوتی ہے لیکن ان کی سیاسی ضرورتیں تاریخ کو متھ بنا دیتی ہیں۔ چنانچہ مسلمان جس سنہرے دور کا ذکر کرتے ہیں اس کی ان کی یاد داشت ایک مائتھالوجی کی حیثیت رکھتی ہے۔ 

لیکن یہ مائتھالوجی ایک زبر دست قوت محرکہ کا کام کرتی ہے۔ نوآبادیاتی دور میں ماضی کی مختلف تعبیریں کی جاتی ہیں جن کا مقصد نوآبادیاتی نظام کا مقابلہ کرنے کیلئے آئیڈیالوجی مہیا کرنا ہوتا ہے۔ ان میں ایک آئیڈیالوجی احیاء کی تھی۔ ہمارے ہاں احیاء کا کام حالی، شبلی سے لے کر صادق حسین سردھنوی اور نسیم حجازی تک پھیلا ہوا ہے۔انیسویں صدی میں ماضی گری کی تحریکیں ہندوؤں میں بھی چلی تھیں۔یہ احیاء مثبت رجحان بھی بن سکتا ہے، لیکن اس کی منفی جہت بھی ہو سکتی ہے۔

اس کی ایک مثال یہ ہے کہ حالی نے مسدس حالی میں اپنے آباء (حالانکہ وہ خالصتاً ہندوستانی تھے) کی جو خوبیاں گنائی ہیں وہ خرد پسندی، سائنس دوستی اور انسان دوستی سے اخذ کی گئی ہیں جب کہ نسیم حجازی کے کردار اللہ کی راہ میں تلوار کا استعمال کرتے ہیں۔ منفی احیاء جمعیت میں ایک خاص قسم کی نرگسیت پیدا کرتا ہے۔ اسی کے زیر اثر اسلامی طب، اسلامی سائنس، اسلامی معاشیات کی طرح کی اصطلاحیں تراشی جاتی ہیں اور ماضی پر تفاخر کے لئے جواز مہیا کئے جاتے ہیں۔ 

اس ناجائز تفاخر کا نتیجہ اپنے ارد گرد حصار بنانے کی شکل میں نکلتا ہے۔ پھر کنویں کے مینڈک کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ مظاہر اور اشیا جو اس وقت اس کے تصرف میں نہیں انہیں وہ اپنے ماضی میں دریافت کرنے کی کوشش کرے۔ اسے ہر موجود شے، ہر جدید دریافت کا سراغ اپنے ماضی میں مل جاتا ہے۔ 

نرگسیت کا لازمی نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ فرد اور جمعیتیں اپنے آپ کو عین الحق کے مرتبے پر فائز کر لیتی ہیں۔ انہیں اپنی محبت میں گرفتار ہو کر باہر دیکھنے کی فرصت نہیں ملتی۔ یہ مریضانہ درون بینی ذہنی اہلیتوں کو خارج سے تعامل کرنے سے روکتی ہے، اپج مفلوج ہو جاتی ہے، اور انسان نہ صرف بانجھ ہو جاتا ہے بلکہ ذہنی مریض بن جاتا ہے، اور اس طرح وہ ذہنی خود کشی کی طرف کشاں کشاں چلا جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے وہ یونانی نو جوان اپنے عکس کو پالینے کی کوشش میں گھل گھل کر مر جاتا ہے۔ (مبارک حیدر نے سید قطب سے ایک اقتباس نقل کیا ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ چونکہ مسلم معاشرہ مادی ایجادات میں یورپ کا مقابلہ نہیں کر سکتا ’’لہذا ضروری ہے کہ ہمارے اندر کوئی اور صلاحیت ہو جو جدید تہذیب کے پاس نہیں‘‘)

6

تو کیا وہ معاشرے جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں، بالآخر خود کشی کرلیں گے؟

ایک جواب تو یہ ہے کہ ضروری نہیں: اگر وہ کنویں سے باہر نکلیں تو انہیں روح ارضی کہتی ہوئی ملے گی: کھول آنکھ، زمیں دیکھ فلک دیکھ، فضا دیکھ/مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ۔اور اگر جمعیتیں چاہیں، تو عصر جدید کے ساتھ رشتہ جوڑ سکتی ہیں۔ 
اگر۔۔۔
اگر ۔۔۔
لیکن کیااگرکی ڈوری سے جڑی ہوئی خواہش ہمیشہ ہی کامیابی سے ہمکنار ہو ا کرتی ہے؟

تاریخ بتاتی ہے کہ ضروری نہیں کہ ایسا ہو۔ 

7

کنویں منہدم بھی ہو سکتے ہیں اور مینڈکوں کو وسیع تر زمین اور فلک دیکھنے پر مجبور بھی ہونا پڑتا ہے۔ 

اس طرح کا ایک زلزلہ انگریزوں کے ہندوستان میں آنے پر آیا تھا، جس نے ایک منجمد معاشرے کی چولیں ہلا کے رکھ دی تھیں۔اس لئے یہ کہنا ہو سکتا ہے لوگوں کو مبالغہ لگے کہ سب مسلمان تہذیبی نرگسیت میں مبتلا تھے یا ہیں۔ کیونکہ اس صورت میں غالب اور، غالب کے اتباع میں، سرسید کو اور ان کے ساتھیوں کو آپ کس کھاتے میں ڈالیں گے؟

اس کے جواب میں مبارک حیدر کا کہنا ہے، اور بجا طور پر کہنا ہے، کہ تہذیبی نرگسیت میں صرف علمائے دیوبند ہی نہیں مبتلا ہیں، دوسرے مکاتب بھی ماضی کی زلف کے اسیر ہیں۔

واقعہ یہ ہے کہ بحیثیت مجموعی تمام مسلمان تہذیبی نرگسیت میں مبتلا ہیں: سر سید اور اقبال سمیت۔ مودودی صاحب یا علامہ مشرقی کا تو کیا کہنا؟ 

سر سید کا اس بات پر اصرار کہ انگریزوں نے حکومت مسلمانوں سے لی تھی (نہ کہ ہندوستانیوں سے)، شاہ ولی اللہ کا افغانوں کو مرہٹوں کو دعوت حملہ دینا، اقبال کا نادر خاں درانی کی طرف دیکھنا، عام مسلمانوں کا حید آباد دکن کو مغل سلطنت کی یاد گار قرار دینا، عبید اللہ سندھی ایسے جری دیش بھگت کا ہجرت کر کے افغانستان جانا، قائد اعظم ایسے روشن خیال رہنما کا خوش ہونا کہ مسلم لیگ کی قیادت میں مسلمان جو متحد نظر آتے ہیں وہ اورنگ زیب کے دور کی یاد دلاتا ہے ۔

اور آج پشاور سے لے کر کراچی تک مسلمان ایک طرف تو اس تصور سے خائف ہیں کہ طالبان کے آنے سے ان کی بچیوں کے سکول بند ہو جائیں گے اور دوسری طرف ان کی امریکہ دشمنی ۔۔۔ واضح رہے کہ امریکا دشمنی اور سامراج دشمنی دو الگ چیزیں ہیں ۔۔۔کے ایک جذباتی تصور کے تحت وہ طالبان کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ سائیکی کی یہ تقسیم ذمہ دار ہے اس امر کے لئے کہ ہمارے نزدیک طالبان کا مسئلہ تو گفت و شنید سے طے ہو سکتا ہے لیکن ہندوستان کا مسئلہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم طالبان کے مظہر سے یک سوئی سے نمٹ نہیں سکتے۔ یہ سب بیک وقت محبت اور نفرت کے جذبوں کی یکجائی کی غمازی کر تا ہے۔ اسی کی وجہ سے ہمارے ادارے ایک خاص قسم کے نیوروسس کے تحت رینگتے ہیں۔

یہ درست ہے کہ کوئی بھی اپنے دور کی وضع کردہ تحدیدات سے بہت دور تک باہر نہیں جا سکتا، اور اس لئے اوپر بیان کئے جانے والے بزرگوں کی ذہنی مجبوریوں کو سمجھا جا سکتا ہے۔ لیکن آج کے پاکستانی مسلمان کو کیا ہوا ہے؟ وہ کیوں آبا ؤ اجداد کے گھر سے باہر نہیں نکلنا چاہتا؟

علماء نے ہمارے ادبار اور آج جدید دنیا سے کٹا ہونے کی وجہ ہمارے معاشروں کا قبل سائنس دور میں ہونا قرار دیا ہے جس کی شہادت سید قطب دے چکے ہیں۔ جب تک ہمارے معاشرے صنعتی دور میں داخل نہیں ہوتے، خرد افروزی کا کام نہیں ہو سکتا، بلکہ زیادہ صحیح یہ کہنا ہوگا کہ جب تک ہمارے معاشروں میں خرد افروزی کا آغاز نہیں ہوتا، ہمارے صنعتی دور میں داخل ہونے کا امکان نہیں۔ بہر حال، تاریخ بتاتی ہے کہ ان دونوں کارروائیوں کا آغاز تقریباً ایک وقت میں ہوتا ہے۔ 
یہی وجہ ہے کہ مبارک حیدر خرد افروزی کے کام پر زور دے رہے ہیں۔

8

مبارک حیدر نے جہاں ان مادی عوامل کی نشاندہی کی ہے جو اس کے پاؤں کی زنجیر بنے ہوئے، وہاں انہوں نے ایک اور اہم لیکن فاسد عامل کی موجودگی کو اجاگر کیا ہے۔ 

ان کے خیال میں، تہذیبی نرگسیت کوتعلیم و تدریس اور تبلیغ کے ذریعے فروغ دیا جاتا رہا ہے، اور یہ وظیفہ آج نہیں بلکہ اسلام (اس سے مراد پہلے عرب اور بعد میں دوسری قومیں یا جمعیتیں ہیں جنہوں نے اسلام قبول کیا تھا) کے دور اقبال سے ہو رہا ہے۔ سیاسیات اور عمرانیات کے طالب علم جانتے ہی ہیں کہ ریاست کو اپنے استحکام کے لئے آئیڈیالوجی کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔

آج کے دور میں رجعت پسند مدارس اور رجعت پسند علما ء یہ فریضہ سرانجام دے رہے ہیں اور یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ریاست باقاعدگی سے، کبھی اغماض سے، کبھی براہ راست مداخلت سے، اس عمل کو آگے بڑھاتی رہی ہے۔اس لحاظ سے دیکھا جائے، تو رجعت پسند عالم اور ادارے سول سوسائٹی کا حصہ ہیں جو ریاست کے لئے نظریہ گری کرتے ہیں۔ گرامشی کے مطابق روشن خیالی کا مقابلہ ریاست سے براہ راست ہونے کے بجائے پہلے سول سوسائٹی کے ان اداروں سے ہوتا ہے جو شعوری یا غیر شعوری طور پر ریاست کے مصالح کی ترجمانی کرتے ہیں۔اس لئے، ان رجعت پسند اداروں سے دو دو ہاتھ کرنے کی ضرورت ہے۔

9

لبرل حلقوں میں، خاص طور پر بائیں بازو میں، غالب کا تصور یہ رہا ہے کہ چونکہ خیالات مادی حالات کا پرتو ہوتے ہیں، اس لئے حالات کو بدلو تو خیالات بھی بدل جائیں گے۔ (اگرچہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ خیالات اور مادی حالات کے درمیان تعلق اتنا میکانکی نہیں ہوتا جتنا ساخت اور بالائی ساخت کی تمثیل سے ظاہر کیا جاتا ہے، لیکن عملاً خیال اور مادی حال کی سیال اور پیچیدہ نوعیت کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ مارکس خیال کے لئے ایک قسم کی خود مختاری مہیا کرتے ہیں) ۔

مارکس کے ہاں، اور بعد میں لینن کے ہاں، زور معاشرے کی مادی حالت کو بدلنے (موڈ آف پروڈکشن کو بدلنے) کی انقلابی تحریک پر دیا جاتا ہے۔ یوں بھی مذہب فرد کا ذاتی مسئلہ ہے۔ مثلاً لینن کا خیال تھا ، اور بیشتر مارکس پسندوں کا خیال تھا، کہ مذہب کے مظاہر کی بحث ترقی پسندوں کی تحریک میں تفرقہ پیدا کرنے کا باعث ہوگی۔ 

اس نقطہ نظر کے جلو میں ،یہ استدلال بھی رہا ہے کہ ہمیں مذہب کی پچ پر نہیں کھیلنا چاہئے، اس لئے کہ ہمیں یہ کھیل کھیلنا ہی نہیں آتا۔ 

یہ درست ہے کہ مرکزی بنیادی تبدیلیاں لانے کی بنیادی مرکزی تحریک اپنی صفوں میں انتشار نہیں چاہے گی، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ نظریاتی مباحث ، جن میں مذہبی رویوں اور تصورات، کے مباحث شامل ہیں ، ایسی تحریک سے باہر یا اس کے حاشیے پر انفرادی یا تحریک سے نا وابستہ اداروں کی سطح پر نہیں کئے جا سکتے یا نہیں کئے جانے چاہئیں۔

اگر میں غلطی نہیں کرتا، تو ہمارے دور میں آلتھسے اس لحاظ سے اہمیت رکھتا ہے کہ اس نے نظری عمل (تھیوریٹیکل پریکٹس) کو اہمیت دی ہے۔لیکن آلتھسے کے چیلنج کی روشنی میں نظری مباحث کے احاطے میں مذہبی مباحث کو داخل کرنے کا کام نہیں کیا گیا۔ اس کام کی ضرورت کی طرف سب سے پہلے صفدر میر نے ایوب خان کے دور میں توجہ دلائی ۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے معاشرے کے سامنے جمہوریت سے زیادہ اہم بات مذہبی تنگ نظری اور تاریک خیالی سے لڑنا ہے۔ 

حال یہ ہے کہ نظریات کے مذہبی مظاہر اور صورتوں سے کنارہ کشی کرنے کے نتیجے میں روشن خیالوں نے نظریاتی میدان کا ایک بڑا حصہ دشمن کے قبضے میں رہنے دیا ہے اور پھر وقت کے ساتھ اس کے رقبے میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔ بالکل ایسے جیسے ہمارے دیش کے شمال میں ہمارے جغرافیہ کے ساتھ ہو رہا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اگر آپ مانتے ہیں کہ ہوس مذہبی بھیس بدل کر بھی آتی ہے، تو اسے بے نقاب کرنا بھی ضروری ہے۔ وہ لوگ جو سمجھتے ہیں کہ مادی حالات کے بدلنے سے خیالات میں تبدیلی آئے گی، دراصل جدوجہد میں بے ساختہ پن اور خود روئی کو شعوری جدوجہد کے عامل کے مقابلے میں ترجیح دیتے ہیں۔ 

اس تناظر میں مبارک حید رنے ایک قابل قدرقدم اٹھایا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ مسلمان معاشروں کو ایک فکری تحریک کی ضرورت ہے ، جو مذہب کو جدید دور کے تقاضوں سے جوڑ سکے، اور رمذہب کو رجعت پسند علما کے چنگل سے نکال سکے۔

یہ درست ہے کہ اقبال اور مشرقی، اور پھر پرویز، ملا ئیت کے خلاف تھے لیکن یہ سبھی حضرات کسی نہ کسی طرح خود مذہب کی رجعت پسندانہ تعبیرات سے پورے طور پر آزاد نہیں ہو سکے، جس کی وجہ سے ان کی ملائیت دشمنی فکری تحریک نہیں بن سکی۔کیا مبارک حیدر کی کوشش تحریک کا نقطہ آغاز بنے گی؟ کیا وقت اس کے لئے وقت مہیا کرے گا؟ کیا وقت ہمیں صنعتی دور اور اس کی معیت میں خرد افروزی کے دور میں داخل ہونے کا موقع دے گا؟ کیا اسلام کا مارٹن لوتھر آئے گا؟ 

یہ پتہ نہیں کہ وقت مہلت دے گا یا نہیں، لیکن یہ طے ہے کہ اجتماعی خود کشی سے بچ نکلنے کا راستہ روشن خیالی کی فکری تحریک سے ہو کر جائے گا۔

پروفیسر مبارک حیدر کی کتاب، تہذیبی نرگسیت پر تبصرہ(2009)۔