سعودی عرب : امداد کے پردے میں فرقہ پرستی کو فروغ

خلیجی ریاست سعودی عرب نے جنوبی ایشیائی مسلم اکثریتی ملک بنگلہ دیش میں مساجد کی تعمیر کے لیے ڈھاکا حکومت کو بیس ملین ڈالر کی فراہمی کی پیشکش کر دی ہے۔ اس بارے میں ایک سعودی جائزہ ٹیم جلد ہی بنگلہ دیش کا دورہ بھی کرے گی۔

بنگلہ دیشی دارالحکومت ڈھاکا سے ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق اس سعودی پیشکش کی تصدیق بنگلہ دیش کی وزارت خارجہ کے جاری کردہ ایک بیان میں کی گئی ہے، جس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس مالیاتی پیشکش کے قبول کیے جانے کے بعد ان رقوم کی فراہمی سے متعلق جملہ تفصیلات طے کرنے کے لیے ایک سعودی جائزہ ٹیم جلد ہی بنگلہ دیش کا دورہ بھی کرے گی۔

ڈھاکا میں ملکی وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق یہ پیشکش ڈھاکا ہی میں تعینات سعودی سفیر عبداللہ المطیری نے بنگلہ دیش کے خارجہ امور کے جونیئر وزیر شہریار عالم کے ساتھ اپنی ایک ملاقات میں کی۔

ڈی پی اے نے لکھا ہے کہ سعودی عرب کی طرف سے بنگلہ دیش کو یہ پیشکش ایک ایسے وقت پر کی گئی ہے جب ڈھاکا حکومت ان لاکھوں روہنگیا مسلم اقلیتی مسلمانوں کی آمد سے پیدا ہونے والی صورت حال سے نمٹنے کی کوششیں کر رہی ہے، جو گزشتہ قریب ایک ماہ کے دوران بدھ مت کے پیروکاروں کی اکثریت والے ہمسایہ ملک میانمار کی ریاست راکھین میں جاری خونریزی سے فرار ہو کر بنگلہ دیش پہنچ چکے ہیں۔

بنگلہ دیشی وزارت خارجہ کے مطابق خلیج کی بادشاہت سعودی عرب نے ان رقوم کے علاوہ ڈھاکا حکومت کو روہنگیا مہاجرین کی انسانی بنیادوں پر مدد میں ہاتھ بٹانے کے لیے بھی 15 ملین ڈالر مہیا کرنے کا وعدہ کیا ہے۔

اس کے علاوہ ابھی حال ہی میں بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت یا آئی او ایم کی طرف سے انہی لاکھوں روہنگیا مہاجرین میں امدادی اشیائے ضرورت کی جو تازہ ترین اور بہت بڑی کھیپ تقسیم کی گئی تھی، اس کے لیے بھی سعودی عرب کی طرف سے 100 ٹن سامان مہیا کیا گیا تھا۔

ڈی پی اے نے مزید لکھا ہے کہ ڈھاکا حکومت نے یہ واضح نہیں کیا کہ سعودی رقوم کو استعمال کرتے ہوئے ملک میں نئی مساجد کہاں تعمیر کی جائیں گی۔

بنگلہ دیش میں ریاست کے زیر انتظام کام کرنے والی اسلامی فاؤنڈیشن کے مطابق اس ملک کی قریب 160 ملین کی آبادی میں سے 90 فیصد سے زائد شہری مسلمان ہیں اور اس جنوبی ایشیائی ریاست میں پہلے سے تین لاکھ سے زائد مساجد کام کر رہی ہیں۔

ماہرین کے مطابق شیخ حسینہ واجد کے لیےسعودی عرب سے امداد لینے کا فیصلہ مستقبل میں بنگلہ عوام کے لیے مشکلات کھڑی کر سکتا ہے۔بنگلہ دیش کو مسجدوں و مدرسوں کی بجائے اعلیٰ تعلیمی اداروں کی ضرورت ہے۔

اس وقت دنیا بھر میں سعودی عرب کی مدد سے چلنے والی مساجد نے معاشروں میں فساد پھیلانے کا کارنامہ ہی انجام دیا ہے۔سلفی مساجد کی تعمیر کےبعد بنگلہ دیش میں نہ صرف فرقہ وارنہ چپقلش میں اضافہ ہوگا بلکہ ملک میں جاری جمہوری عمل کو بھی شدید نقصان پہنچے گا۔

DW/News Desk

One Comment