نواز شریف کی جنوبی پنجاب سے جھوٹی محبت

اسلم ملک

گزشتہ دنوں بہاول پور کئی بار جانا ہوا اور معمول سے زیادہ قیام رہا۔ 

ملنے والے مجھے’’ باخبر اخبار نویس ‘‘ سمجھ کر کئی سوالات بھی کرتے رہے اور ان کے ممکنہ جوابات بھی فراہم کرتے رہے۔

مثلاً یہ کہ نواز شریف کی جنوبی پنجاب سے محبت چار سال بعد اب اچانک کیوں جاگی ہے؟

انہوں نے وزارتِ عظمیٰ چھوڑتے ہی نئے وزیر اعظم کو ہدایت کی کہ جنوبی پنجاب سے زیادہ وزیر بنائیں۔ حالانکہ پچھلے چار سال میں نواز شریف خود بھی تو زیادہ وزیر بنا سکتے تھے۔

لوگوں کا خیال ہے کہ احمد پور شرقیہ کے سانحے کے بعد جب یہ خبر آئی کہ بہاول پور کے ہسپتال میں برن یونٹ کی منظوری آٹھہ سال پہلے دی جاچکی ہےلیکن لاہور کے اربوں کے نمائشی منصوبوں کی وجہ سے اس کیلئے رقم نہیں دی گئی تو جنوبی پنجاب میں جذبات بہت بھڑکے تھے ، انہیں دبانے کیلئے نمائشی اقدامات کی ضرورت تھی۔

اب جنوبی پنجاب سے ریاض پیرزادہ ، بلیغ الرحمٰن (بہاولپور) ملک سکندر حیات بوسن(ملتان) سردار اویس لغاری (ڈیرہ غازیخان) سید جاوید علی شاہ(شجاع آباد ملتان) عبدالرحمٰن کانجو ( لودھراں) حافظ عبدالکریم (ڈیرہ غازیخاں) اور سردار ارشد لغاری (رحیم یار خاں) وزیر ہیں۔

کہا جاتا ہے ضلع رحیم یار خاں سے مخدوم خسرو بختیار کو بھی وزارت کی پیشکش ہوئی تھی لیکن انہوں نے معذرت کر لی۔

لوگوں کا خیال ہے کہ جنوبی پنجاب کا اتنا خیال ہوتا تو پنجاب کی کابینہ میں اس سے تین گنا نمائندگی دی جاتی۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد لوگوں کے اکثر مسائل و معاملات صوبائی حکومت سے تعلق رکھتے ہیں۔

یہ وفاقی وزیر کتنا فائدہ پہنچا سکتے ہیں، اس کا اندازہ اس سے کر لیجئیے کہ بلیغ االرحمنٰ ٰ صاحب کی وزارت نے بارہویں جماعت تک قرآن پڑھانے کا جو فیصلہ کیا ہے، اس کا اطلاق جنوبی پنجاب تو کیا، کہیں بھی نہیں ہوگا، وہ صرف وفاقی دارالحکومت تک محدود ہوگا۔

نوٹ کریں کہ وزیر داخلہ ، وزیر خارجہ اور وزیر فاع سب ایک ہی ڈویژن گوجرانوالہ کے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ جنوبی پنجاب کے نئے وفاقی وزیر ن لیگ کی انتخابی مہم سرکاری خرچ اور پروٹوکول سے چلانے کیلئے بنائے گئے ہیں۔

جنوبی پنجاب کو باقی پنجاب کے برابر لانے کیلئے طویل عرصے تک زیادہ فنڈز کی ضرورت ہےورنہ اب اسے الگ صوبہ بنا ہی دینا چاہئے، وہاں کی ضرورتیں ، مسائل سب بالکل الگ ہیں۔

اکثر جماعتیں اس نئے صوبے کی حمایت کر چکی ہیں۔ باریکیوں میں پڑے بغیر یہ اصولی فیصلہ کر لیا جائے۔

دارالحکومت بہاول پور ہو یا ملتان اور صوبے کا نام کیا ہو، یہ سب بحث مباحثے سے طے ہو سکتا ہے۔

میرا خیال ہے کہ بحالیٔ صوبہ بہاول پور والوں کی تالیف قلب کیلئے دارالحکومت بہاولپور بنایا جائے اور صوبے کا نام ’’ فر ید یہ ‘‘ رکھ دیا جائے۔

خواجہ فرید تمام علاقوں اور لسانی گروپوں کیلئے قابلِ احترام ہیں ۔ یہ نام سب کیلئے قابلِ قبول ہوگا۔

مقامات کوشخصیات سے منسوب کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ امریکہ میں واشنگٹن نام کے ڈیڑھ درجن کے قریب شہر اور قصبے ہیں۔

One Comment