مشرق وسطی میں ایک نئی جنگ بھڑکنے کا خطرہ 

آصف جیلانی

کرد قوم جہاں ایک طرف اس قدر خوش قسمت ہے کہ اسے صلاح الدین ایوبی ایسے مرد مجاہد کی قیادت نصیب ہوئی وہاں دوسری جانب اس قدر بد قسمت ہے کہ ایک طویل عرصہ سے چار ملکوں میں گھری ہوئی ہے او ر اس قوم کو اپنا کوئی الگ مستقل آزاد وطن نصیب نہیں ہوسکا ہے۔ 

ایک سو سال پہلے جب پہلی عالم گیر جنگ کے نتیجے میں سلطنت عثمانیہ بکھری اور برطانیہ اور فرانس نے سایکس پیکوٹ سمجھوتہ کے تحت مشرق وسطی میں اپنے اپنے حلقہ اثر کے لئے مشرق وسطی کے حصے بخرے کیے تھے تو اس وقت کردوں کی آزاد خودمختار مملکت کے قیام کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن 1919کے لویزان کے معاہدہ کے تحت اس وعدہ کے خلاف ورزی کرتے ہوئے کردو ں کے حق خود ارادیت کو ٹھکراکر کرد علاقے ترکی، عراق ، شام اور ایران میں ضم کردئے گئے۔ 

عراقی کردستان نے جسے1970 میں صدام حسین کے دور میں ایک سمجھوتہ کے تحت خود مختاری دی گئی تھی اور عراق کی جنگ کے بعد2005میں جہاں خود مختار حکومت قایم کی گئی تھی ، 25ستمبر کو آزادی کے ریفرینڈم کے انعقاد کو اعلان کیا ہے، جس پر اس بناء پر ہنگامہ اٹھ کھڑاہوا ہے کہ نہ صرف عراق کی حکومت اس ریفرینڈم کے سخت خلاف ہے ، بلکہ امریکا ، برطانیہ ، فرانس ، ترکی، ایران، سعودی عرب، عرب لیگ ، یورپی یونین اور اقوام متحدہ نے بھی اس اقدام کے خلاف علم مخالفت بلند کیا ہے۔ گو ان سب کے اپنے اپنے دلائل ہیں لیکن مشترکہ طور پر ان کے بیانئے عراق کے پچاس لاکھ کردوں کو ان کے حق خود ارادیت سے محرومی کی جانب اشارہ کرتے ہیں ۔ 

عراقی کردستان کے قاید مسعود برزانی نے اس بات پر سخت تعجب کا اظہار کیا ہے کہ امریکا اور برطانیہ نے آزادی کے ریفرنڈم کی مخالفت کی ہے جب کہ اب تک امریکا کردستان کے تیل کی دولت کے پیش نظر آزاد کردستان کا حامی تھا اورداعش کی سپاہ کے خلاف جی داری سے لڑنے کی بناء پر کرد پیش مرگہ پر امریکیوں کا دست شفقت تھا۔ فرانس، برطانیہ ، یورپی یونین اور اقوام متحدہ کا استدلال ہے کہ آزاد کردستان کے قیام سے مشرق وسطی میں عدم استحکام پیدا ہوگا۔ 

ترکی اپنی جنوبی سرحد سے ملحق آزاد کردستان کے قیام کا اس بناء پر سخت مخالف ہے کہ وہ پہلے ہی اپنے ملک میں کردوں کی بغاوت کا سامنا کر رہا ہے ۔پہلی عالم گیر جنگ کے بعد سے اب تک ترکی میں کردوں کی لگا تار چار بغاوتیں ہو چکی ہے اور ترکوں نے کردوں کی آزادی کی تحریکوں کو بری طرح سے کچل دیا ہے۔ اسی بناء پر اسے خطرہ ہے کہ آزاد کردستان کے قیام سے ترکی کے کردوں کی بغاوت کو شہہ ملے گی۔ یہی وجہ ہے کہ ترکی نے اپنی فوج عراقی کردستان کی سرحد پر جمع کر دی ہے اور پارلیمنٹ نے سرحد پار فوج استعمال کرنے کی بھی منظوری دے دی ہے۔ ایران جسے عراق کی جنگ کے بعد تہران سے لے کر لبنان تک اپنے اثر کا کوریڈور ملا ہے ، آزاد کردستان کو سد راہ تصور کرتا ہے اور اس کا ہر قیمت پر تحفظ چاہتا ہے۔ایران کسی صورت میں اپنی سرحد پر ایک آزاد کردستان برداشت نہیں کرے گا۔

ایران میں واقع کردستان میں 1979 میں انقلاب کے بعد بڑے پیمانہ پر بغاوت بھڑک اٹھی تھی اور کردوں نے حلب جہ اور ویویران پر قبضہ کر لیا تھا لیکن پاس داران انقلاب نے اس بغاوت کو کچل دیاتھا۔ ایرانی کردستان کو کوئی خود مختاری حاصل نہیں بلکہ محض ایک صوبہ کی حیثیت ہے ۔

آزاد کردستان کے قیام سے ، عراق کو اپنا اتحاد منتشر ہونے کا خطرہ ہے حالانکہ عراق میں 1922سے 1924تک کردستان کی مملکت رہی ہے لیکن جب عراق میں بعث بارٹی بر سرا قتدار آئی تویہ مملکت صفحہ ہستی سے مٹ گئی۔ عراق کسی صورت میں ایران سے اپنا براہ راست رابطہ منقطع نہیں ہونے دینا چاہے گا۔شمالی عراق میں آزاد کردستان کی مملکت کے قیام سے بلا شبہ یہ رابطہ منقطع ہو جائے گا ۔پھر عراقی حکومت کسی صورت میں تیل سے مالا مال کرکوک کو اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتی ہے۔ تیل کے علاوہ کرکوک اس بناء پر متنازعہ علاقہ ہے کہ یہ خالص کردوں کا علاقہ نہیں ہے یہاں ،ترکمان بھی رہتے ہیں اور عرب بھی آباد ہیں۔ 

مبصرین یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا چومکھی مخالفت کے باوجود آزاد کردستان اپنا وجود برقرار رکھ سکے گا۔ کردستان، چاروں طرف سے خشکی میں گھرا ہوا ہے اور چونکہ اسے اپنی معیشت کے لئے کرکوک کے تیل پر دارومدار کرنا پڑے گا اس لئے اسے اپنے کسی پڑوسی سے تیل کی برآمد کی راہ کے لئے سمجھوتہ کرنا پڑے گا۔ ایک ملک جس کی طرف مدد کے لئے کردستان دیکھ سکتا ہے وہ اسرائیل ہے جس نے سب سے پہلے عراقی کردستان کا تیل خریدا تھا ۔

گو اسرائیل کے بیشتر سیاست دان کھلم کھلا آزاد کردستان کے قیام کی حمایت کرتے ہیں لیکن اسرائیلی حکومت پر اسرار طور پر خاموش ہے اور کسی واضح موقف کا اظہار نہیں کیا ہے۔ اسرائیلی مبصرین کی رائے ہے کہ آزاد کردستان کئی اعتبار سے اسرائیل کے لئے فائدہ مندرہے گا۔ سب سے پہلے تو آزاد کردستان ، ایران اور شام کے درمیان رابطہ میں رکاوٹ ثابت ہو گا اور نہ صرف ایران کے لئے درد سر ثابت ہوگا بلکہ ترکی، عراق اور شام کے لئے بھی پریشانی کا باعث ہوگا۔شام کے تئیں اس وقت اسرائیل کا جو حریفانہ رویہ ہے اس کے پیش نظر اسرائیل ، شام کی پریشانی کو پسندید گی کی نظر سے دیکھے گا۔

یہ بات اہم ہے کہ اسرائیل کے تاجروں کو اس وقت عراقی کردستان کے دارالحکومت اربیل میں کھلے دل سے پذیرائی حاصل ہے اور اسرائیل کو توقع ہے کہ ترکی کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی کے بعد اس کے ترکی سے روابط بڑی تیزی سے استوار ہوں گے اور اس صورت میں اسرائیل ترکی کے راستے آزاد کردستان کا تیل آسانی سے در آمد کر سکے گا۔ 

آزاد کردستان کے جال میں اسرائیل کے الجھاؤ سے خطرہ ہے کہ ا س پورے علاقہ میں نئی پیچیدگیاں پیدا ہوں، جب کہ ان تمام ملکوں سے جن میں کرد قوم گھری ہوئی ہے پہلے ہی تفرقے اور مسائل ہیں اور بلا شبہ عراقی کردستان میں آزادی کے ریفرنڈم کے نتیجے میں حالات دگر گوں ہوں گے اور مشرق وسطی میں ایک نئی جنگ بھڑک اٹھے گی ۔

Comments are closed.