کیا موجودہ یروشلم (بیت المقدس) جعلی ہے؟

زبیر حسین


کیا یروشلم (بیت المقدس)، کنعان، مونٹ سینائی، اور ٹمپل مونٹ یمن میں دریافت ہو چکے ہیں؟

 نہ صرف مونٹ سینائی، بلکہ یروشلم، کنعان، ٹمپل مونٹ، اور اسرائیلیوں یا یہودیوں کے دوسرے قصبے اور مقدس مقامات بھی جنوبی عرب اور شمالی یمن میں دریافت ہو چکے ہیں۔ اگر بائبل کے کردار مثلاً ابراہیم، اسحاق، یعقوب، اور یوسف حقیقی ہیں تو بھی ان کا زمانہ ٢٠٠٠ سال قبل مسیح کا ہے۔ اس زمانے میں موجودہ فلسطین کا علاقہ بالکل بے آباد اور بنجر تھا۔ نہ تو کنعان وہاں تھا اور نہ ہی یروشلم۔

اس نام کے علاقے اور شہر جنوبی عرب اور یمن میں تھے جہاں عرب قبیلے آباد تھے۔ اسرائیلی بھی عرب قبیلوں سے تعلق رکھتے تھے۔ نیز اس زمانے میں اونٹ ایک جنگلی جانور تھا۔ اسے ١٠٠٠ سال قبل مسیح میں سدھایا گیا۔ ایک تو فلسطین کا علاقہ بنجر اور بے آباد۔ دوسرے سواری کے لئے اونٹ ناپید۔ ان حالات میں ابراہیم عراق سے براستہ فلسطین مصر کیسے جا سکتے تھے؟

خیال رہے ١٠٠٠ سال قبل مسیح میں اسرائیلیوں سمیت کئی عرب قبیلے نقل مکانی کرکے فلسطین میں آباد ہوئے۔ انہوں نے اپنے نئے قصبوں اور شہروں کے نام وہی رکھ دئیے جو عرب اور یمن میں ان کے قصبوں اور شہروں کے تھے۔ یہ بھی یاد رہے کہ جب اسرائیل قائم ہوا تو پچاس ہزار اسرائیلیوں کو امریکہ کی مدد سے یمن سے اسرائیل منتقل کر دیا گیا تھا۔ یہ اسرائیلی یمن میں اصلی کنعان اور یروشلم کے رہنے والے تھے۔ 
ابراہیم، اسحاق، یعقوب، یوسف، اور موسیٰ کے قصے عربوں میں نسل در نسل چلے آ رہے تھے۔ ہر قصہ گو ان داستانوں میں مزید مرچ مصالحہ لگا دیتا تھا۔ یہ عرب قبیلے ایک دوسرے سے لڑتے رہتے اور اکثر تجارتی قافلوں کو بھی لوٹ لیتے تھے۔ بابل کے بادشاہ بخت نصر نے ان کی حرکتوں سے تنگ آ کر عرب قبیلوں پر چڑھائی کر دی۔

بائبل کی کہانی کے برعکس وہ نہ صرف اسرائیلیوں بلکہ دوسرے عرب قبیلوں کو بھی قیدی بنا کر بابل لے گیا تاکہ نہ بانس رہے نہ بجے بانسری۔ یعنی تجارتی گزرگاہ ان قبیلوں کی لوٹ مار سے محفوظ ہو گئی۔ بابل میں اسیری کے دوران عربوں کو قصہ آدم و ابلیس، طوفان نوح، موسیٰ کو دریا میں بہانا، جنّت و جہنم، اور دیگر دیومالائی قصے کہانیوں کا پتہ چلا۔

ایرانی بادشاہ سائرس نے انہیں معافی دے دی تو یہ جنوبی عرب اور یمن میں اپنے علاقوں میں واپس چلے گئے۔ وہاں انہوں نے ان دیومالائی قصے کہانیوں میں مزید رنگ آمیزی کرکے اگلی نسلوں کو منتقل کر دیا۔ جب بہتر اسرائیلی عالموں نے اسکندریہ کی لائبریری میں بیٹھ کر اپنی مقدس آسمانیکتاب بائبل لکھی تو انہوں نے ان سمیری دیومالائی قصے کہانیوں کو نیا روپ دے کر کتاب میں شامل کر دیا۔ نیز انہوں نے ابراہیم، اسحاق، یعقوب اور ان کے بیٹوں، اور موسیٰ کو عرب اور یمن کے قصبوں سے نکال کر فلسطین اور مصر میں لا بٹھایا حالانکہ یہ حضرات کبھی فلسطین یا مصر نہیں گئے۔

نیز تاریخ، جغرافیہ، آثار قدیمہ، اور جدید سائنس نے یہودیوں اور عیسائیوں کی وحی کو فراڈ ثابت کر دیا ہے۔ بائبل میں درج نبیوں کی داستانیں قدیم اساطیری داستانوں کا چربہ ثابت ہو چکی ہیں حتیٰ کہ موسیٰ کو ملنے والے دس میں سے سات احکامات مصریوں کی مذہبی کتاب سے نقل کئے گئے ہیں. داؤد کی زبور میں موجود نغمے بھی ایک مصری شہزادے کی مناجات کا ترجمہ ہیں۔

بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ عربوں اور یہودیوں کے آباؤاجداد ایک ہی ہیں۔ عرب قبائل کی طرح یہودی قبائل بھی کئی خداؤں کی پوجا کرتے تھے۔ ایرانیوں کی طرح عربوں اور یہودیوں نے بھی عقیدہ توحید مصریوں سے لیا۔ عقیدہ توحید کا اصل بانی مصر کا عظیم بادشاہ آمین ہوتپ ہے۔

مصر تین ہزار سال تک ایک عظیم سلطنت رہی۔ اس سلطنت میں امن و امان تھا۔ بادشاہ عدل و انصاف کرنے اور رعایا کی فلاح و بہبود کا خیال رکھنے والے تھے. نیز غلامی کا رواج عربوں اور یہودیوں میں تھا، مصریوں میں نہیں۔ اہرام مصر مصری کاریگروں اور مزدوروں نے تعمیر کئے تھے اور ان کو تنخواہ ملتی تھی جس کا باقاعدہ ریکارڈ موجود ہے. اگر کوئی کاریگر یا مزدور بیمار ہو جائے تب بھی اسے تنخواہ ملتی رہتی تھی۔ یہودیوں نے مصریوں اور ان کے بادشاہوں کے بارے میں بائبل میں جو کچھ لکھا ہے تاریخ، جغرافیہ، اور آثار قدیمہ اسے جھوٹ کا پلندہ ثابت کر چکے ہیں۔

آخری بات یہ کہ مصر کے کسی بھی بادشاہ کا لقب فرعون نہیں تھا۔ فرعون عربی زبان کا لفظ ہے۔ یہ ایک عرب قبیلے کے سردار کا نام تھا۔ امکان ہے کہ اس عرب فرعون نے موسیٰ اور اس کے ٤٠٠ ساتھیوں کو قید کیا تھا۔ بائبل لکھنے والوں نے نہ صرف موسیٰ کو یمن سے اٹھا کر مصر میں بٹھا دیا بلکہ تین نقطوں کا اضافہ کرکے اس کے ساتھیوں کی تعداد کو چار لاکھ بنا دیا۔ عورتوں، بچوں، اور بوڑھوں کو شامل کرنے سے یہ تعداد بیس لاکھ ہو جاتی ہے۔

اس زمانے میں سارے مصر کی آبادی بمشکل چالیس لاکھ تھی۔ گویا چالیس لاکھ مصریوں نے بیس لاکھ اسرائیلیوں کو غلام بنا رکھا تھا۔ موسیٰ ایک بہادر آدمی تھا۔ اسے مصر سے بھاگنے کی کیا ضرورت تھی؟ چار لاکھ جنگجوؤں کے ساتھ وہ بڑی آسانی سے مصر پر قبضہ کر سکتا تھا۔ خیال رہے غلامی عربوں اور اسرائیلیوں کے صحرائی کلچر کا حصہ تھی۔ مصریوں کے ہاں غلامی کا کوئی تصور نہیں تھا۔ بادشاہ اور رعایا مات کی تعلیمات پر عمل کرتے تھے۔ مات کی تعلیمات میں انسانوں ہی نہیں جانوروں سے بھی حسن سلوک کا درس ہے۔

5 Comments