پنتالیس سال پہلے توہین رسالت کا مرتکب

مشتاق احمد

تقریباً چالیس سال پہلے کی بات ہے میں اس وقت سانگلہ ہل میں رہتا تھا۔ ہمارا پندرہ سولہ نوجوانوں کا ایک حلقہ تھا جس میں کچھ پروفیسر تھے کچھ وکلاء اور کچھ طالبعلم ۔ ہم میں سے ہر ایک علم وادب کا شائق تھا اور ہم نے ایک تنظیم مجلس فکر وفن کے نام سے بنارکھی تھی جس کا میں صدر تھا۔ ہماری تنظیم تمام قومی اور ملی تہوار مناتی تھی۔ یوم پاکستان ہویا یوم اقبال، قائداعظم کا یو م پیدائش ہو یا ان کی برسی اس کے لئے ہم تقریب کا اہتمام کرتے تھے۔ اسی طرح شاعروں ادیبوں یا فنکاروں کیلئے بھی ہم مجلسیں منعقد کرتے تھے ہم نے غالب کی یوم وفات پر ایک مذاکرے کا اہتمام کیا، اکبر الہٰ آبادی کی یاد میں بھی تقریب کی۔ ہماری تنظیم شہر میں واحد تنظیم تھی جو اس قسم کی تقریبات منانے کا اور مشاعرے اور مباحثے کرانے کا انتظام کرتی تھی۔

بھٹو صاحب کے عہد حکومت میں سانگلہ ہل گورنمنٹ کالج میں کالج انتظامیہ نے یوم اقبال منانے کا فیصلہ کیا۔ ہمیں بھی دعوت نامے موصول ہوئے ۔ ہم لوگ کالج پہنچے تو پروفیسر اسلم باجوہ مجھ سے کہنے لگے کہ آپ تقریر کریں گے؟ میں نے کہا میرا نام تو آپ نے مقررین میں لکھا ہی نہیں ہے ۔ انہوں نے ملتجیانہ انداز میں کہا کہ ہم نے چار مقررین کے نام لکھے تھے ان میں سے دو نہیں آئے لہٰذا آپ تقریر ضرور کریں۔ میرے دوستوں نے بھی مجھے تقریر کرنے کو کہا میں نے حامی بھرلی اور اجلاس شروع ہوگیا تلاوت قرآن پاک اور نعت کے بعد سٹیج پر سب سے پہلے جس مقرر کو بلایا گیا وہ تھے بشیر نظامی صاحب۔

بشیر نظامی بانی ادارہ نوائے وقت حمید نظامی کے بھائی تھے۔ غالباً سب سے بڑے تھے۔بشیر نظامی صاحب واجبی سی تعلیم رکھتے یہ سمجھ لیجئے کہ نوائے وقت پڑھ سکتے تھے۔ شہر میں اُن کی کتابوں کی دکان تھی ۔ جہاں وہ کاروبار کی بجائے دوستوں سے گپ شپ کرتے رہتے تھے کیونکہ نوائے وقت کی طرف سے اُنہیں اتنے پیسے مل جاتے تھے کہ وہ گذارہ کرسکیں اور گذارہ بھی ان کا تھوڑے سے پیسوں میں ہوجاتا تھا۔ بیوی انکی فوت ہوچکی تھی ایک بیٹا تھا جو اس وقت پانچویں یا چھٹی جماعت میں پڑھتا تھا مکان اپنا تھا دکان کرائے پر تھی۔ جس کا کرایہ انہوں نے کبھی ادا نہیں کیا تھا اور غالباً بیس(20)سال کے بعد دکان کے مالک نے اپنی جیب سے ایک بڑی رقم انہیں دے کر دکان خالی کروائی تھی۔ 

وہ شہرکے اکثر لوگوں پر سخت طنز کرتے عجیب غریب نام رکھتے۔اپنی ان خوبیوں کے ساتھ ساتھ وہ شہر کے سب سے بڑے مقرر تھے کوئی تقریب ہو انہیں تقریر کے لئے بلایا جاتا تھا۔ شلوار قمیض اور جناح کیپ پہن کر وہ وہاں جاتے اور ایک مختصر سی تقریر جو لوگوں کو اب زبانی یاد ہوچکی تھی کرتے ۔

وہ کبھی نماز نہیں پڑھتے تھے اور نہ ہی کبھی روزہ رکھتے تھے جمعہ کی نماز بھی وہ نہیں پڑھتے تھے البتہ عیدین کی نمازیں پڑھتے تھے لیکن قربانی کبھی نہیں دیتے تھے۔ وہ داڑھی بھی منڈواتے تھے مگر شہر بھر میں وہ اسلام کے سب سے بڑے رکھوالے تھے اور مسلمانوں کے خلاف دنیا بھر میں کہیں بھی کچھ ہوتا تھا جس کی خبر وہ نوائے وقت میں پڑھ لیتے تھے تو دشمنان اسلام پر خوب بگڑتے تھے اور خوب برا بھلا کہتے تھے اس چھوٹے سے شہر میں جتنی مسجد یں تھیں ان مسجدوں میں جتنے بھی واعظ اور خطیب تھے بلالحاظ مسالک وہ سب سے بدظن تھے اور کسی کو اچھا نہیں سمجھتے تھے اس کے باوجود وہ اپنے آپ کو سب سے بڑا مسلمان کہتے تھے۔ ان کے پاس اپنی بڑائی کا معیار صرف یہ تھا کہ وہ بانی نوائے وقت حمیدنظامی کے بھائی تھے اور محض اس وجہ سے لوگ ان کی عزت بھی کرتے تھے۔

جب وہ سٹیج پر آئے مائیک سنبھالا اور اپنی مخصوص تقریر کرنا شروع کردی۔ قائداعظم کے بارے میں مخصوص باتیں، پاکستان کے آئین کے بارے میں وہ اپنا مخصوص جملہ جو قائداعظم سے منسوب ہے کہ پاکستان کا آئین قرآن ہوگا۔ وہ اپنے مخصوص اندازسے چل رہے تھے کہ سامعین میں اُنہیں پاکستان پیپلز پارٹی کے کچھ لوگ بیٹھے ہوئے نظر آگئے۔ اب انہوں نے پنیترابدلا اور کہنے لگے جولوگ اس ملک میں سوشلزم کانام لیتے ہیں وہ نہ صرف یہ کہ مسلمان نہیں ہیں بلکہ اس ملک کے دشمن ہیں۔ وہ ایک غیر ملکی نظریے کی بات کرتے ہیں اس ملک میں جو اسلام کے نام پر بناتھے ہم اس ملک میں اس غیر ملکی اور اسلام مخالف نظریے کو کبھی چلنے نہیں دیں گے وغیرہ۔

انہوں نے تقریر ختم کی تو سٹیج سیکرٹیری نے مجھے سٹیج پر آنے کی دعوت دی۔میں نے اپنی تقریر کا آغاز اس طرح کیا کہ علامہ اقبال ہم لوگوں سے جو توقعات رکھتے تھے وہ ہم نے پوری نہیں کیں اور وہ مایوس اس دنیا سے گئے۔میں نے ان کی وہ رباعی پیش کی جس میں انہوں نے اس بات کا شکوہ کیا ہے کہ میں جن لوگوں میں رہا جن میں جیا، ان میں سے کسی نے نہ تو مجھے پہچانا اور نہ ہی کسی نے یہ سمجھا کہ میں کیا کہتا رہا ہوں اور میرا پیغام کیا ہے وہ رباعی یہ ہے۔

چوں رفت بربستم ازیں خاک
ہمہ گفتند کہ باما آشنا بود
ولیکن کس نداند کیں مسافر
چہ گفت و باکہہ گفت و از کجا یوم

میں نے یہ کہا کہ علامہ اقبالؒ مسلمان کو ایک بار پھر ایک بلند اور ممتاز قوم بنانا چاہتے تھے اس سلسلے میں انہوں نے پیروں کی طرف رجوع کیا مولویوں کی طرف دیکھا اساتذہ کی طرف دیکھا جوانوں سے امیدیں وابستہ کیں وہ چاہتے تھے کہ یہ سب لوگ اس قوم کی تربیت کریں تاکہ یہ قوم ایک بارپھر دنیا میں ایک معزز اور محترم قوم بنے اور دنیا کی امامت کرے لیکن وہ جن لوگوں کے پاس گئے انہوں نے اُنہیں مایوس ہی کیا اور یہی مایوسی اپنے میں لئے وہ ہم سے رخصت ہوگئے۔

آخر میں میں نے نظامی صاحب کی باتوں کا جواب دیا اور یہ کہا کہ افکار ونظریات کسی قوم کی ملکیت نہیں ہوتے تمام انسانوں کی مشترکہ ملکیت ہوتے ہیں۔ اس لئے کسی نظریے کو یہ کہنا کہ وہ غیر ملکی ہے بیگانہ ہے پرایا ہے یہ درست نہیں ہے کیونکہ اس طرح تو بہت سے مذاہب بھی ایسے ہیں جن کا آغاز کسی اور ملک میں ہوا اور کسی دوسرے ملک نے اُنہیں قبول کیا اور پھیلایا۔ اس وقت ہمارے پاس کوئی بھی نظریہ ایسا نہیں ہے جس پر ہم عمل پیراہوں۔ جب ہمارے پاس اپنا کوئی نظریہ ہے ہی نہیں تو پھر اس خلا میں کوئی کبھی نظریہ اپنی جگہ بناسکتا ہے جسے لوگ اپنے لئے بہتر سمجھیں۔ میری تقریر کے بعد ایک مولانا صاحب سٹیج پر آئے جو کسی دوسرے شہر سے آئے تھے۔ انہوں نے وہی باتیں کہیں جو میں نے کہی تھیں۔ اور میری باتوں کی تائیدکی۔

یہ اجلاس دس بجے شروع ہوا تھا اوربارہ بجے ختم ہوا۔ ہم لوگ کالج سے نکلے اور شہر کی طرف اپنے گھروں کو چل پڑے کسی کے ذہن میں کوئی بات نہیں تھی لیکن ہوا یہ کہ نظامی صاحب میرے خلاف بھرے ہوئے تھے ،غمناک تھے انہوں نے ایک اور آدمی کو جو پہلے سے ہی ان کا ہمنواتھا ساتھ لیا اور شہر کی چار بڑی جامع مسجدوں میں گئے۔ دو اہل سنت والجماعت کی تھیں اور دواہل حدیث لوگوں کی تھیں۔

چاروں مسجدوں کے خطیبوں سے ملے اور اُنہیں یہ بتایا کہ ایک شخص جو پیپلز پارٹی سے تعلق رکھتا ہے اور سوشلزم کی باتیں کرتا ہے اس نے آج کالج میں بھی اسلام کے خلاف بہت باتیں کی ہیں۔ بڑی بکواس کی ہے۔ انہوں نے اہل سنت والجماعت کے مولویوں سے کہا کہ اس نے غوث پاک یعنی شیخ عبدالقادر جیلانی کی شان میں گستاخیاں کی ہیں اور اہلحدیث علماء سے کہا کہ اس نے اللہ کی شان میں گستاخیاں کی ہیں اور کہا کہ لاؤتمہارا خدا کہاں ہے۔ ایسے شخص کے خلاف کچھ نہ کچھ ہونا چاہئے۔

اتفاق یہ ہوا کہ اہل حدیث میں سے ایک خطیب تو اس جلسے میں موجود تھے انہوں نے سب کچھ سنا تھا دوسرے موجود نہیں تھے لیکن ان کے کسی دوست نے جو جلسے میں تھا نظامی صاحب کی باتوں کی تردید کردی۔ اہل سنت والجماعت مولویوں نے جب ان کی باتیں سنیں تو ان میں سے ایک نے جو مجھے جانتا بھی تھا اس نے کہا کہ میں اپنے بھانجے سے پوچھوں گا اگر اس شخص نے واقعی ایسی باتیں کی ہیں تو ہم اسکی مذمت کریں گے۔ اہل سنت میں سے صرف ایک مولوی صاحب تھے جو ان کی باتوں میں آگئے اور انہوں نے اپنے جمعہ کے خطبہ میں میرے خلاف بہت کچھ کہا مجھے ملحد کافر اور بے دین وغیرہ کہا جو عام طور پر دوسروں کو اور خود اپنے ہم پیشہ مولویوں کو جب ناراض ہوجاتے ہیں تو کہا کرتے ہیں ۔

میں جب اگلے دن اپنے دفتر گیا تو مجھے ساری روداد پتہ چلی۔یہ بات سارے شہرمیں پھیل چکی تھی شام کو ہم لوگ ایک ہوٹل پر بیٹھ کر گپ شپ کرتے تھے۔ نظامی صاحب بھی وہیں کھانا کھانے آیا کرتے تھے۔ یہاں سب ہی جماعتوں اور مسالک سے تعلق رکھنے والے لوگ آتے تھے ۔ سب لوگ اپنے اپنے گروپوں میں بیٹھے چائے پیتے تھے اور باتیں کیا کرتے تھے اور لطف یہ ہے کہ مختلف سیاسی پارٹیوں اور مسالک سے تعلق رکھنے والے اورمشاغل رکھنے والے لوگ مل کر بیٹھے تھے ہنسی مذاق کی باتیں ہوتی تھیں اور کسی سے کسی کو بھی کسی قسم کی کوئی دشمنی یا عناد نہیں تھا۔

بشیر نظامی نے وہاں بیٹھ کر میرے خلاف پروپیگنڈا شروع کردیا۔ ان کا اندازیہ تھا کوئی میری بہن کا گالی دے یا میرے دین کے خلاف کوئی بات کرے تو میں برداشت نہیں کرسکتا۔ کسی زمانے میں ایک ہندونے ایک ایسی کتاب لکھی تھی جس میں نبی پاک کی بے ادبی کی گئی تھی تو ایک مسلمان نوجوان نے فی الفور اس کاکام تمام کردیا تھا۔ اب یہ زمانہ ہے کہ ہمارے سامنے ایسے لوگ پھرتے ہیں جو حضور کی شان میں بے ادبیاں کرتے ہیں۔ لیکن انہیں کوئی کچھ نہیں کہتا بلکہ ان کے ساتھ دوستیاں رکھتے ہیں ان کے ساتھ مل بیٹھ کرکھاتے پیتے ہیں۔

یہ پروپیگنڈا بڑا خطرناک تھا۔ میرے خلاف شہر کی فضا کو زہر آلود کرنے کی کوشش کی جارہی تھی اور وہ لوگ جو مجھے نہیں جانتے تھے ہوسکتا ہے وہ نظامی صاحب کی باتوں سے متاثر ہوجاتے چنانچہ میرے دوستوں نے مجھے مشورہ دیا کہ تم کچھ دنوں کے لئے کہیں چلے جاؤ یا گھر سے نہ نکلا کرو۔ میں نے اُنہیں کہا یہ تو مجھ سے نہ ہوسکے گا ۔ نظامی صاحب جو الزام مجھ پر لگاتے ہیں وہ تو سراسرجھوٹا ہے غلط ہے اور میں نے جو کچھ کہا تھا وہ ہال میں بیٹھے سب لوگ سن رہے تھے اور کم ازکم تین سو لوگ وہاں موجود تھے ۔خود نظامی صاحب نے مجھے وہاں ٹوکا نہیں جلسہ ختم ہونے کے بعد جب سب لوگ گھروں کو آگئے تو نظامی صاحب نے یہ پروپیگنڈا شروع کردیا۔

میری سرگرمیاں معمول کے مطابق رہیں۔ نظامی صاحب کا پروپیگنڈا کچھ دنوں تک جاری رہا اور پھر وہ خود ہی خاموش ہوگئے۔ ان کے اس پروپیگنڈے کے بے اثر ہونے کی دو وجوہ تھیں ایک تو یہ کہ وہ مجھ سے منسوب کرکے جو باتیں لوگوں کو بتاتے تھے وہ صریحاً غلط اور جھوٹ تھیں اور دوسری وجہ یہ تھی کہ لوگ نظامی صاحب کی فتنہ انگیزی سے واقف تھے اور ان کے بارے میں اور بھی کئی باتیں جانتے تھے جو اچھی نہ تھیں۔ لہٰذا ان کی یہ ساری فتنہ انگیزی بے سود رہی کسی نے ان کی باتوں پر کان نہ دھرا۔

آج میں سوچتا ہوں کہ سماج میں فسادی اور بد طینت افراد تو ہمیشہ سے ہی رہے ہیں لیکن45سال پہلے سماج میں برداشت کا مادہ تھا لوگ سنی سنائی باتوں پر کان دھرنے کی بجائے تھوڑی تحقیق کر لیتے تھے لیکن آج اگر میرے ساتھ یہی کچھ ہو جائے تو تحقیق کرنے کی بجائے لوگوں کا ہجوم یا تو مجھے قتل کر دے گا یا کم ازکم میں توہین رسالت کیس میں کئی سال کے لیے جیل میں سڑتا رہوں گا اور کوئی جج میر اکیس سننے کی جرأت نہیں کرے گا۔

2 Comments