کیپٹن صفدر اور فکر مودودی

طارق احمد مرزا


حال ہی میں پاکستان کی قومی اسمبلی میں جس طرح حکومتی پارٹی کے ایک ممبرکی جذباتی انداز میں ’’فکرِمودودی ‘‘کو ’’بغرض ثواب‘‘پیش کرنے پر ممبران اسمبلی نے تالیاں اور ڈیسک بجاکرخراج عقید ت پیش کیاوہ اس ایوان کے ذہنی،علمی،فکری،سماجی اورمعاشرتی اقدار کوایک بار پھرخود ہی برہنہ کر کے بتا دیا ہے کہ ان کے نزدیک پاکستانی حکومت کاحقیقی ریاستی بیانیہ کیا اور کس قسم کا ہے ۔واضح رہے کہ موصوف ممبر اسمبلی ایک ایسی سیاسی جماعت کے ٹکٹ پر ممبر اسمبلی بننے میں کامیاب ہوئے تھے جو خود کو بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح اور ان کی سیاسی جماعت مسلم لیگ کا حقیقی سیاسی جانشین تصور کرتی ہے۔

سید ابولاعلیٰ مودودی صاحب خود تسلیم کرتے تھے کہ وہ ایک’’ نو مسلم ‘‘ہیں (مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ سوم صفحہ ۱۳ا۔۱۴ ۔طبع اول)۔عموماً نومسلم افراداسلام کا پوری طرح مطالعہ کر نے کے بعد اس کے تمام بنیادی تعلیمات پر خلوص دل سے کچھ اس طرح عمل پیرا ہوجاتے ہیں جو پیدائشی مسلمانوں کیلئے بھی ایک نمونہ ہوتا ہے لیکن مولانا صاحب ایک ایسے’’ نو مسلم‘‘ تھے جو اسلام کے ایک بنیادی اور سیدھے سیدھے فرمان لعنت اللہ علی الکاذبین سے بھی نہ صرف ناواقف بلکہ اس کے خلاف کھلم کھلا عمل پیرا ہونے کو نہ صرف یہ کہ عار نہیں سمجھتے تھے بلکہ اس کے وجوب کی تعلیم بھی دیتے تھے۔چنانچہ فرمایا کہ:’’عملی زندگی کی بعض ضرورتیں ایسی ہیں جن کی خاطر جھوٹ کی نہ صرف اجازت ہے بلکہ بعض حالات میں اس کے وجوب تک کا فتویٰ دیا گیا ہے۔(ترجمان القرآن مئی ۱۹۵۸ء)۔ممبر قومی اسمبلی کی مذکورہ تقریر فکرِمودودی کے اس اہم بنیادی جزو پر ہی مبنی اور اس کی عملی تفسیر تھی۔ظا ہر ہے جس ’’فکر‘‘ کوکوئی پیش کرتا ہے خود بھی اسی پر عمل پیراہوتا ہے ورنہ لما تقولون مالاتفعلون کی وعید کی زد میں آئے گا۔

’’فاضل‘‘ ممبر قومی اسمبلی کی تقریران کے موجودہ ذہنی دباؤ اور نفسیاتی کشمکش کے علاوہ ’’تحفظ ختم نبوت‘‘ اور حلف نامہ یا اقرار نامہ ختم نبوت کی ان بحثوں کا ایک شاخسانہ تھی جو حال ہی میں اسمبلی کے اندر اور باہر زورپکڑچکی ہیں۔ختم نبوت ایسے حساس نوعیت کے معاملے کوپہلے بھی کئی افراد اور گروہ ،جن میں خود مولانامودودی صاحب بھی پیش پیش رہے،اپنی ذاتی ،دنیاوی اور سیاسی اغراض کے لئے استعمال کر چکے ہیں۔ان میں ایک گروہ ’’احرار‘‘ کا بھی تھا جن کے بارہ میں مولانا مودودی صاحب نے واشگاف الفاظ میں بتایا تھا کہ یہ ’’تحفظ ختمِ نبوت کی آڑ میں خداوررسول کے نام سے محض اپنی اغراض کے لئے کھیلنے والا گروہ (ہے) جس نے مسلمانوں کے سروں کو شطرنج کے مہروں کی طرح استعمال کیا ہے‘‘۔(مولانا مودودی۔تسنیم،۲؍جولائی ۱۹۵۵ء)۔

آج پاکستان کی قومی اسمبلی کے ایوان میں ڈیسک بجانے والے ڈپٹی سپیکر اسمبلی سمیت مولانا مودودی صاحب کے فرمان کی عملی تصویر بن کر شطرنج کے مہروں کی طرح استعمال ہوتے ساری دنیا نے دیکھ لئے۔عیسائی اکثریت کے ایک ملک آسٹریلیا کی پارلیمنٹ کا تو یہ حال ہے کہ گزشتہ دنوں جب ایک متعصب قوم پرست سینیٹر نے روایتی برقعہ پہن کر سینیٹ میں آکر برقعہ کے خلاف احتجاج کا ڈرامہ رچایاتو بھرے اجلاس میں آسٹریلین اٹارنی جنرل نے ایک امن پسندمذہبی اقلیت کی اس گندی اور گھٹیا درجے کی توہین کرنے اور ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے اور ملک میں فرقہ وارانہ اور نسل پرستانہ شرانگیزی پھیلانے کی اس ناپاک جسارت پر اس سینیٹر کو وہ ڈانٹ پلائی جس کی اسے بالکل بھی توقع نہ تھی اور وہ کافی دیر سکتے کے عالم میں رہی۔

آسٹریلین مسلمان اقلیت کا دفاع کرتے ہوئے آسٹریلین اٹارنی جنرل کاچہرہ اور باڈی لینگوئج دیکھنے والی تھی حالانکہ وہ انتہائی ٹھنڈے اور غیرجذباتی قسم کی شخصیت کے مالک ہیں۔نہ صرف حکومتی سینیٹرز نے ان کے اس رد عمل پر ڈیسک اور تالیاں بجائیں بلکہ اپوزیشن کی جماعتوں نے کھڑے ہوکر انہیں خراج تحسین پیش کیا۔اس کے برعکس پاکستان کے ممبران اسمبلی اور ڈپٹی سپیکر ،وزیران،مشیران وغیرہ کا نمونہ کیاتھا،اس پر کوئی تبصرہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔

ان پاکستانی ممبران اسمبلی کے اس رویہ پہ اس لئے بھی کوئی تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں کہ یہاں تو فکرمودودی پیش ہورہی تھی جو کسی بھی ملک کی مذہبی اکثریت کو کلی اختیار دیتی ہے کہ وہ اپنے ملک کی اقلیتوں کے ساتھ جیسا چاہیں سلوک کریں۔مذکورہ نسل پرست اسلام مخالف آسٹریلین سینیٹر بھی غالباًفکرِ مودودی پر ہی عمل کرکے برقعہ اور اسلام پر پابندی کا مطالبہ کر رہی تھیں۔جی ہاں وہی فکرِ مودودی جس کے مطابق اگر ایک غیر مسلم اکثریتی مملکت مسلمان اقلیت کے ساتھ’’ملیچھوں اور شودروں کا سا سلوک کرے اور ان پر منوؔ کے قوانین کا اطلاق کیا جاوے اور شہریت کے حقوق سے محروم کردیا جائے تو اس پرانہیں کوئی اعتراض نہ ہوگا‘‘۔(بیان مولانا مودودی۔رپورٹ تحقیقاتی عدالت ۱۹۵۳ء )۔

غالباً فکرِمودودی کی اسی اہم شق پر عمل پیرا ہوکرروہنگیا،راخینی مسلمان اقلیت کے حالات پر پاکستانی قوم نے کسی قابل ذکر، مؤثر ردعمل یاپرزور اعتراض کااظہار نہیں کیا۔

جہاں تک فکرمودودی میں پاکستان ،مسلم لیگ اور قائداعظم مخالف عنصرکا تعلق ہے تو وہ اتنا غیرمتنازع،محکم ،بیّن اورمشہور عام ہے کہ یہاں اسے دہرانے کی ضرورت نہیں۔افسوس صرف اس بات کا ہے کہ آج ایوان پارلیمنٹ میں پاکستان مخالف فکرمودودی کی بازگشت ایک ایسے ممبر اسمبلی کے حلق سے گونجی ہے جو خود کو پاکستان،جناح اورجناح کی مسلم لیگ کا وارث سمجھنے کادعویدار ہے۔اول تو جس ایوان کے پلیٹ فارم سے یہ صدا بلند کی گئی ،مولانا مودودی صاحب کے نزدیک اس کی ’’رکنیت بھی حرام اور اس کے لئے ووٹ دینا بھی حرام ہے‘‘(رسائل و مسائل، صفحہ ۴۵۷۔طبع اول ستمبر ۱۹۵۱ء) اور اس’ حرام ووٹنگ‘ کے حرام عمل سے کیا گیاہرجمہوری انتخاب ’’زہریلے دودھ کا مکھن‘‘ ہے۔ (مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ سوم صفحہ ۱۱۷۔طبع اول)۔

اس زہریلے دودھ کے مکھن کو بلونے والی سوسائٹی فکرِمودودی کے تئیں ایک ایسا چڑیا گھر ہے جس میں ’’ چیل ،گدھ،بٹیر،تیتر اور ہزاروں قسم کے جانورجمع ہیں‘‘۔(مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش ،حصہ سوم طبع اول صفحہ ۲۵)۔اس ’’سوسائٹی‘‘ کی رائے عامہ ایسی ہے ’’جسے جھوٹ کا کوئی طوفان اٹھا کر ہر وقت فریب دیا جا سکتا ہے‘‘۔(ترجمان القرآن جلد ۳۹عدد۱،۲۔صفحہ ۷)۔ 

فکرِمودودی مسلم لیگ کے بارہ میں مختصراً بتاتی ہے کہ یہ:’’خدا سے بے خوف اور اخلاق کی بندشوں سے آزاد(جماعت ہے) ،جس نے ہمارے اجتماعی ماحول کوبیت الخلاء سے بھی زیادہ گنداکردیا ہے‘‘۔(جماعت اسلامی کی انتخابی جدوجہد صفحہ ۱۶)۔اور یہ کہ مسلم لیگی اکابر’’بازی گروں کی جماعت‘‘ہیں۔(پاکستان کے تین اہم مسائل از مولانا مودودی)۔جبکہ بانئ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح فکرِ مودودی کے مطابق ’’اسلامی ذہنیت و طرزِفکر سے خالی اور گم کردہ راہ لیڈر،جس کی سیاست کو اسلامی سیاست کہنا اسلام کے لئے ازالہ حیثیت عرفی سے کم نہیں‘‘۔(مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ سوم طبع ہفتم )۔مولانا مودودی صاحب کے نزدیک قائداعظم محمد علی جناح تقسیم ملک کے ڈرامے کا ناکام ترین اداکارتھا جس کی قیادت کی غلطیاں اس سے بہت زیادہ ہیں کہ چند سطروں میں انہیں شمار کیا جاسکے (ترجمان القرآن جون ۱۹۴۸ء)۔

قارئین کرام پاکستان کوخاکم بدہن ’جنت الحمقاء اور مسلمانوں کی کافرانہ حکومت‘،مسلمانوں کی ’مرکب حماقت‘ اور ’پیغام مرگ ‘ سمجھنے والی فکرِ مودودی کے نام پہ تالیاں اور ڈیسک بجانے والے حکومتی اراکین اسمبلی کےلیے لمحہ فکریہ ہے کہ وہ مندرجہ بالا حقائق سے واقف ہونے کے بعد بھی ریاست کے جدیدبیانیہ کی بنیادفکرِ مودودی پہ رکھنا پسند کرتے ہیں یا فکرِ جناح پر؟۔

5 Comments