شریف خاندان میں بڑھتے ہوئے اختلافات

سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف پرایک اور ریفرنس میں بھی فردجرم عائد کئے جانے کے بعد شریف فیملی کے اختلافات اور مسلم لیگ نون کی ممکنہ تقسیم کی خبروں میں تیزی آ تی جا رہی ہے۔

سیاسی مبصرین پنجاب کے وزیر اعلٰی شہباز شریف کی سیاسی اور با اثر غیر سیاسی شخصیات کے ساتھ پے در پے ہونے والی ملاقاتوں کو دلچسپی سے دیکھ رہے ہیں۔ آج جمعہ 20 اکتوبر کو شہباز شریف نے لاہور کے کور کمانڈر اور نواز شریف سے اختلاف رکھنے والے سینیئر پارٹی لیڈر چوہدری نثار علی خان سے تفصیلی ملاقاتیں کیں۔

شریف فیملی میں اختلافات کی خبریں ماضی میں بھی سامنے آتی رہی ہیں اور شریف خاندان کے اندرونی حلقے بیگم کلثوم نواز اور بیگم نصرت شہباز میں پائے جانے والے اختلافات، اور مریم نواز اور حمزہ شہباز میں پائی جانے والی سرد مہری کی کہانیاں بیان کرتے رہے ہیں۔ لیکن اس فیملی کے اختلافات این اے 120 کے حالیہ ضمنی انتخاب میں کھل کر سامنے آئے جہاں توقعات کے برعکس شہباز شریف کو الیکشن نہیں لڑوایا گیا۔ بعد ازاں میاں شہباز شریف کے کارکن بھی کلثوم نواز کی انتخابی مہم سے قدرے لا تعلق نظر آئے اور حمزہ شہباز شریف بھی انتخابی مہم چھوڑ کر ملک سے باہر چلے گئے تھے۔

تاہم مریم نواز نے چھ مہینے بعد تھوڑی دیر کے لیے شہباز شریف کے گھر جا کر خاندانی اختلافات کے تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کی لیکن حمزہ شہباز کے اس طرح کے بیانات کہ ’’میرے باپ پر کرپشن کا کوئی داغ نہیں ہے ، مجھے دیانت دار باپ کا بیٹا ہونے پر فخر ہے‘‘ جیسے بیانات کوئی اور کہانی سنا رہے ہیں۔

مسلم لیگ نون کے ایک ایم پی اے نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ شریف خاندان کے اختلافات کو طے ہونا چاہیے۔ ان کے بقول، ’’وہ ایک گروپ کے اجلاس میں جاتے ہیں تو دوسرا گروپ ناراض ہو جاتا ہے، ہمیں سمجھ نہیں آ رہی کہ خبر میں کس کی ستائش کریں‘‘۔

ممتاز دفاعی تجزیہ نگار بریگیڈیئر (ر) فاروق حمید خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ شریف فیملی کے اختلافات اب کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔ ان کے مطابق نواز شریف کے طرز عمل کے برعکس شہباز شریف کی محاذ آرائی نہ کرنے کی پالیسی کے حق میں چوہدری نثار، انور بیگ، ریاض پیر زادہ اور ظفر علی شاہ سمیت بہت سے لوگ بات کرنا شروع ہو گئے ہیں: ’’مسلم لیگ کی سینیئر قیادت میں اس وقت بہت بے چینی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ عدلیہ اور اداروں کے ساتھ محاذ آرائی آئندہ انتخابات سے پہلے کوئی اچھے اثرات مرتب نہیں کرے گی‘‘۔

فاروق حمید خان کے بقول نواز شریف کے خلاف ریفرنسز میں شواہد مضبوط ہیں اور قیادت کی تبدیلی کے حوالے سے نواز شریف پر گھر کے اندر اور باہر سے بھی دباؤ میں اضافہ ہو تا جا رہا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ کور کمانڈر لاہور سے جمعے کے روز ہونے والی شہباز شریف کی ملاقات دراصل نئے کورکمانڈر کے ساتھ ہونے والی رسمی ملاقات تھی اس لیے اسے کوئی اور معنی نہیں پہنائے جانے چاہیں۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مسلم لیگ نون کے وفاقی وزیر ریاض پیرزادہ یہ مطالبہ کر چکے ہیں کہ بدلتے ہوئے زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے میاں نواز شریف سے مسلم لیگ نون کی صدارت لے کر میاں شہباز شریف کے حوالے کر دی جانی چاہیے۔ جمعہ 20 اکتوبر کو پنجاب اسمبلی کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ نون سے تعلق رکھنے والے کئی ارکان صوبائی اسمبلی نے بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا۔

ادھر پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ نون کے ناراض ارکان اسمبلی پر مشتمل ایک فارورڈ بلاک بنانے کے لیے بھی مشاورت کی اطلاعات ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب میاں نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کے خلاف محاذ کھولے ہوئے ہیں، مسلم لیگ نون کے پارلیمانی ارکان کے اگلے چند دنوں میں ہونے والے ایک اجلاس میں قومی اداروں کے خلاف محاذ آرائی نہ کرنے کی قرار داد منطور کروانے کی کوششیں بھی دیکھی جا رہی ہیں۔

ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے ممتاز اور سینیئر صحافی مجیب الرحمٰن شامی کا کہنا تھا کہ یہ بات درست ہے کہ شریف خاندان میں اختلاف ہے اور کئی امور ہر شہباز شریف اور نواز شریف کے نقطہ نظر میں فرق ہے۔ ان کے بقول، ’’مسلم لیگ نون کا ایک حلقہ نواز شریف کے خلاف ہونے والی کارروائیوں کے نتیجے میں رد عمل کے طور پر احتجاجی طرز عمل اختیار کیے ہوئے ہے۔ دوسرا گروپ چاہتا ہے کہ قانونی معاملات قانونی طریقے سے ہی طے کیے جانے چاہییں اوران معاملات کو اس انتہا پر نہ لے جایا جائے جس سے انتخابات سے پہلے پارٹی کی مشکلات میں اور اضافہ ہو جائے‘‘۔

مجیب الرحمن شامی کے مطابق، ’’ اس گروپ کا خیال ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب خارجی طور پر پارٹی مشکلات کا شکار ہے اگر داخلی اتحاد کے ذریعے اس صورتحال کو نہ سنبھالا گیا تو اس سے دونوں گروپوں کا نقصان ہو گا۔‘‘ شامی کے مطابق اب مسلم لیگ نون کے مستقبل کا انحصار نواز شریف کے طرز عمل پر ہے کہ وہ کس قدر دانشمندی سے قدم بڑھاتے ہیں۔

اس سوال کے جواب میں کہ ریاض پیر زادہ کے بیان سمیت جو اقدامات نواز شریف کے خلاف نظر آ رہے ہیں کیا یہ سب کچھ کسی منصوبے کے بغیر ہو رہا ہے؟  مجیب شامی کا کہنا تھا، ’’پاکستان میں اس وقت جو صورتحال چل رہی ہے ان میں بظاہر کوئی چیز پلاننگ کے ساتھ نہیں ہوتی دکھائی دیتی لیکن اگر آپ حقائق کا گہرائی میں جا کر جائزہ لیں تو اندازہ ہو گا کہ کوئی چیز بھی پلاننگ کے بغیر نہیں ہوتی۔ یہاں معاملات کو دو جمع دو کی طرح بیان نہیں کیا جا سکتا۔ موجودہ صورتحال کے حوالے سے یہ کہنا تو بہت مشکل ہے کہ اس کے پییچھے کچھ نہیں ہے لیکن یہ کہنا بھی آ سان نہیں ہے کہ اس کے پیچھے بہت کچھ ہے۔‘‘

مجیب الرحمٰن شامی کے بقول ریاض پیرزادہ مسلم لیگ نون کے پرانے کارکن نہیں ہیں ان کا شمار ایسے الیکٹیبلز میں ہوتا ہے جو الیکشن سے پہلے ٹکٹ لے لیتے ہیں یا آزاد حیثیت میں منتخب ہو کر حکومتی پارٹی جوائن کر لیتے ہیں: ’’اگرچہ چوہدری نثار بھی اختلاف رائے رکھتے ہیں لیکن یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ اس سب کے باوجود ابھی چند دن پہلے نواز شریف آسانی سے متفقہ طور پر پارٹی کے صدر منتخب ہو گئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلم لیگ کے کارکن اس طرح نہیں سوچ رہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ شہباز شریف کے لیے اپنے بڑے بھائی کے سامنے کھڑے ہو کر مخالفت کرنا آسان نہیں ہے وہ جو کچھ بھی کریں گے نواز شریف کی آشیر باد سے ہی کریں گے‘‘۔

DW

Comments are closed.