پنجاب کی تقسیم گائے کاٹنے کے مترادف ہے

اسلم ملک

ایک عزیز دوست نے فرمایا ہے کہ عید ، محرم وغیرہ کی طویل چھٹیوں میں لاہور کتنا پر سکون ہو جاتا ہے۔۔۔ آخر کیوں ؟

یہ تو سیدھی سی بات ہے ۔۔۔ پردیسی آبائی علاقوں کو چلے جاتے ہیں۔۔۔ بازاروں اور سڑکوں پر ہجوم ، رش کم ہو جاتا ہے ۔

ہر اتوار کو بھی ایسا ہی سکون ہوتا ہے۔

لاہور کی سڑکیں جتنے لوگوں کیلئے بنیں ، اس سے کئی گنا زیادہ لوگ آگئے ہیں ۔
یہ واقعی شدید مسٔلہ ہے۔ 
ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ وجوہات ختم کی جائیں جن کے باعث لوگ لاہور آجاتے ہیں یا اس پر مجبور ہوتے ہیں۔
ایک بڑی وجہ ملازمتی مجبوری ہے ، بڑی تعداد میں لوگ ملازمت کی وجہ سے کیپیٹل سٹی آئے ، بچے یہیں پیدا ہوئے ، یہیں پلے بڑھے اور پڑھے اور آبائی علاقے ان کیلئے اجنبی ہو گئے، ریٹائرمنٹ کے بعد کسی نے واپس بھی جانا چاہا تو بچوں نے فیصلہ ویٹو کردیا۔

یہ ملازمت والی وجہ تو آسانی سے ختم کی جا سکتی ہے ۔ پنجاب کو دو صوبوں میں تقسیم کیجئیے۔ صوبائی سطح کی ملازمتیں اپنے علاقے میں ہوں گی تو لوگ وہیں رہیں گے۔ نئی صوبائی حکومت کو سب کچھہ وہیں فراہم کرنا ہوگا ۔

نئے صوبے میں بھی لاہور کراچی جیسی آبادی کے اژدھام جیسی صورتِ حال پیدا ہونے سے بچنے کیلئے پیشگی انتظام کر لینا چاہئیے۔

اس کیلئے میری تجویز ہے کہ نئے صوبے کا دارالحکومت کسی موجودہ شہر کو بنانے کی بجائے اسلام آباد کی طرح نیا شہر بسا کر بنایا جائے۔ وہ ایسی جگہ ہو جہاں وسیع خالی رقبہ موجود ہو تاکہ توسیع میں آسانی ہو۔ یہ جگہ کسی موجودہ شہر کے قریب ہو جہاں عبوری صوبائی دفاتر ضلعی، ڈویژنل دفاتر میں قائم کئے جاسکیں۔

مثلاً میرے ذہن میں اس کیلئے لودھراں آتا ہے جو ہے تو ملتان ڈویژن میں ، لیکن قریب بہاول پور کے ہے۔

یہ تجویز قطعی خلوصِ نیت سے پیش کی ہے لیکن مجھے پتہ ہے اس پر ہاہا کار مچا دی جائے گی، پنجاب کی تقسیم کو گائے کاٹنا قرار دیا جائے گا۔

سوچئیے تو جس طرح نئے ڈویژن اور ضلعے سہولت پیدا کرنے کیلئے بنائے جاتے ہیں ، نیا صوبہ بنانا بھی ویسا ہی ہے۔

اسلام میں حکم ہے کہ شہروں کو حد سے نہ بڑھنے دو، آبادی زیادہ ہوجائے تو نئے شہر بساؤ۔ لیکن حکمران لاہور کو ایک حد میں رکھنے کی بجائے قصور اور شیخوپورہ تک کو لاہور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے دائرے میں لے آئے ہیں تاکہ لاہور وہاں تک پھیل جائے البتہ اپنے محل کے ارد گرد کے علاقے کو زرعی قرار دے کر اس طرف آبادی کا پھیلاؤ روک دیا ہے۔

بہتر ہوگا پنجاب کا دارالحکومت بھی کسی کم آباد جگہ پر نیا شہر بسا کر وہاں منتقل کر دیا جائے۔

اس طرح وہ پسماندہ علاقہ ترقی کرے گا اور لاہور پر بوجھ کم ہوگا۔ لاہور ثقافتی، علمی ، ادبی کیپیٹل بدستور رہے گا۔ صرف سیٹ آف گورنمنٹ یا سرکاری دفاتر منتقل ہوں گے۔

نئے دارالحکومت بنانا کوئی نئی بات نہیں ۔ ایسی کئی مثالیں ہیں ۔ ہم خود اسلام آباد بنا چکے ہیں ۔ بھارت میں چندی گڑھ بنا، ملائشیا نے پُترا جایا بنالیا ہے لیکن کوالالمپور کی اہمیت اپنی جگہ برقرار ہے۔

نائجیریا نے بھی نیا دارالحکومت بنایا ہے، لاگوس اپنی جگہ اہم ہے۔ جنوبی افریقہ کا ایک الگ طریقہ ہے وہاں حکومتی، پارلیمانی، عدالتی ، کاروباری صدر مقام الگ الگ ہیں۔
کئی ملکوں کی مثالیں ہیں کہ بڑا شہر کوئی اور ہے اور کیپیٹل کوئی اور۔

عزیز دوست نے بجا فرمایا ہے کہ لاہوری ہونا ایک مخصوص سوچ یا فکر ہے جسے باہر والے سمجھ یا محسوس نہیں کر سکتے۔

میرا خیال ہے شاید ایک دو نسل بعد وہ سوچ پیدا ہو ہی جاتی ہو( آخر جدی پشتی لاہوری تو اب پانچ دس فیصد سے زیادہ نہیں ہوں گے
کوشش کرکے کوئی جلدی بھی لاہوری بن سکتا ہے

زیادہ سے زیادہ ’’ر‘‘ کو ’’ڑ‘‘ اور ’’ڑ‘‘ کو ’’ر‘‘ بولنے پر قُدرت حاصل نہ ہو سکے گی۔

2 Comments